قافیۓ کی بند گلیوں کا گداگر کردیا

میں بعض دوستوں کو سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا ہوں مگر وہ آئیڈیل ازم سے نہیں نکلے۔ برادران عزیز، زندگی گزارنا کوئی آسان نہیں ہے۔ اس لئے جھوٹ کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا ہے۔ مصلحتوں سے کام لینا ہوتاہے اور اردگرد کی فضا دیکھ کر قدم اٹھانا ہوتے ہیں۔ تم اپنی غزلوں میں کیسے کیسے خوفناک اشارے موجودہ نظام کے خلاف کرتے ہو، خود کو منصور کہتے ہو، اناالحق کا نعرہ لگاتے ہوئے دارورسن کی بات کرتے ہو مگر کیا میں نے کبھی تمہیں اس سے روکا ہے۔

میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ تم اپنی شاعری میں اپنے کردار کے حوالے سے اس سے بھی زیادہ دعوے کرنا چاہو تو ضرور کرو لیکن حکام بالا سے بھی بنا کر رکھو اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دو، ان کے بچوں کے عقیقے میں شرکت کرو، چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائو، اگر وہ اس موقع پر تمہارے مقام اور مرتبے کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے ’’شی‘‘ بھی کر بیٹھیں تو ان کی نیپی بدلنے کے لئے بیگم صاحبہ کوزحمت نہ دو، یہ کام خود کرو مگر تم پر میری ان باتوں کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔

چنانچہ افسران بالا تم سے ناراض رہتے ہیں اور روزانہ تمہاری جواب طلبی ہوتی ہے۔ تم کمٹمنٹ کی بات کرتے ہو، بیٹے میں بھی کمٹمنٹ کا قائل ہوں اور تم سے زیادہ قائل ہوں مگر کمٹمنٹ خیال سے ہوتی ہے۔ عمل سے نہیں، ایک سیاسی جماعت سے تمہاری ہمدردیاں بھی دن بدن ڈانواں ڈول ہوتی جارہی ہیں، تم کہتے ہو نظام بدلنے کے لئے ادیبوں اور دانشوروں کو ہر اُس سیاسی جماعت کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہئیں جو ان کے نظریے پر خواہ مکمل طور پر پورا نہ اترتی ہو مگر اس کا منشور اور عمل حالات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لاسکتا ہو۔

برادران عزیز، تم نہیں جانتے خود تم اورتمہارے ہم عصر تمہاری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ ادیب اور دانشور کو غیر جانبدار ہونا چاہئے اور کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہئے کہ کس قومی یا بین الاقوامی مسئلے پر اس کا نقطہ نظر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر شعرا نظم کی بجائے غزل کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں، دارورسن صید اور صیاد، گل اور گلچیں کے پردے میں گول مول باتیں کرتے ہیں تاکہ اس کی تشریح دوسروں پر چھوڑ دی جائے اور اگر کوئی قاری براہ راست پوچھ بیٹھے کہ آپ کا ارشاد کس طرف ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں ، میں نے جو کہنا تھا وہ شعر میں کہہ دیا ہے۔ اس سے آگے آپ کا کام ہے۔

یہی کام تجریدی قسم کے ناولوں اور افسانوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہی بہترین پالیسی ہے، اسی میں امان ہے۔ دیکھیں دوستو! آپ لوگ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے ہیں، لاحول ولا قوۃ کیسی مضحکہ خیز بات کہہ گیا ہوں، میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ میرا تجربہ تم لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔ مجھے دیکھو میں نے آج تک کسی کو اپنے نظریے کی ہوا تک نہیں لگنے دی مگر ہر دور میں رائج الوقت نظریات کا گول مول طریقے سے ساتھ دیتا رہا ہوں چنانچہ ہر دور میں ادیبوںاور دانشوروں کے حلقے میں ایک نظریاتی دانشور کے طور پر ’’اِن‘‘ رہا ہوں کیونکہ یہ سرٹیفکیٹ دینے والے بھی میری ہی طرح کے گول مول دانشور ہوتے ہیں۔ تحریک ِپاکستان کے دوران اردو کے تین چار سر پھرے شاعروں کے علاوہ کسی نے فرنگی کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔

1857ء کی جنگ آزادی میں یہی شاعر ادیب اور دانشور، وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے خاموش رہے مگر آج ان کی غزلوں میں سے فرنگی راج کے خلاف کتنے ہی اشعار نکالے جارہے ہیں۔ غالب کا یہ شعر تم نے ضرور سنا ہوگا۔

داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

اس دور میں جب انگریز کے باغیوں کو درختوں کی شاخوں پر پھانسیاں دی جارہی تھیں اور بہادر شاہ ظفر ،ان کے خاندان اور ساتھیوں کی زندگی اجیرن کردی گئی تھی، اس دور میں غزل کا یہ پیرایہ غالب کے کام آیا کیونکہ اس کا یہ شعر دراصل بہادر شاہ ظفر کے لئے تھا اور یوں انگریزوں کو پتہ نہ چل سکا کہ غالب کی ہمدردیاں ہندوستان کے آخری تاجدار کے ساتھ ہیں۔ غالب اپنا کام بھی دکھا گئے اور اپنے ساتھیوں کے سے انجام سے بھی بچ گئے۔ تو بیٹے کیا تم غالب سے بڑے آدمی ہو؟ اور ہاں کچھ محقق قسم کے لوگوں کا کہنا ہے کہ غالب کا یہ شعر 1826ء یا 1827ء کا ہے جب ’’غدر‘‘ کا نام و نشان بھی نہیں تھا، بہرحال اس طرح کے محقق بالآخر منہ کی کھاتے ہیں۔

1947ء کی تحریک آزادی میں بھی چند ناموں کے علاوہ باقی لوگ غیر جانبدار رہے کہ ادیب کبھی کسی کے ساتھ کھلم کھلا پارٹی نہیں بنتا۔ ادیب پیغمبر نہیں ہوتا۔ انسان ہوتا ہے، وہ اپنی تحریروں میں کوئی واضح پیغام نہیں دیتا کیونکہ ادیب ڈاکیہ بھی نہیں ہوتا۔ ادیب ادھر بھی ہوتا ہے ادھر بھی ہوتا ہے۔ باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے۔

اس قسم کی باتوں نے ادب کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ 1947ء میں پاک ٹی ہائوس کے باہر گولی چل رہی تھی، لاشیں گر رہی تھیں مگر مجھے یاد ہے میں ٹی ہائوس کے اندر حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس کی صدارت کررہا تھا جہاں ایک غزل پر الف اور بے کے گرنے پر بات ہورہی تھی، تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم لوگ انسانوں کے مرنے پہ دکھی نہیں تھے۔ یقیناً تھے مگر ادیب کا کام صرف ادب تخلیق کرنا ہے۔ اپنی داخل کی دنیا میں رہنا ہے۔

وقتی اور مقامی موضوعات اسے آفاقی ادیب نہیں بنا سکتے۔ اگر تم آفاقی شاعر بننا چاہتے ہو اور پیٹ بھر کر روٹی بھی کھانا چاہتے ہو تو میری باتیں پلے باندھو، جب تم آفاقی شاعر بن جائو گے تو تمہارے نقاد تمہارے شعروں میں سے قومی، مقامی اور وقتی ہر طرح کی کمٹمنٹ خود نکال لیں گے۔

باتیں تو ابھی اور بھی بہت سی کرنا ہیں مگر تھک گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے مگر خود بھی اس سلسلے میں محتاط رہا کریں۔

آخر میں ظفر اقبال کا ایک شعر؎

قافیۓ کی بند گلیوں کا گداگر کر دیا

تُو نے یہ کس کام پر مجھ کو مقرر کر دیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے