اسددرانی کی نئی کتاب سے کچھ واقعات

15فروری1989سوویت فوج کے افغانستان سے انخلا کی آخری تاریخ تھی۔ اس سے چند ہفتے قبل سوویت یونین کے پاکستان میں متعین سفیر وکٹر یاکونین نے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ وکٹر یا کونین کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ سوویت یونین کے آخری اور اس کے بعد روس کے پاکستان میں پہلے سفیر رہے۔ ایسی ملاقاتوں میں ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ بھی موجود ہوتے ہیں۔ جنرل اسد درانی کی نئی کتاب

[pullquote]Pakistan Adrift: Navigating Troubled Waters[/pullquote]

ان کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ جو اس وقت ایم آئی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ، سوویت یونین کے سفیر پاکستان سے اپنی فوج کی واپسی کو شکست سے بچانے کی غرض سے مدد لینے آئے تھے کیونکہ کوہ ہندو کش کے شمال میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد سوویت فوج کی واپسی یقینی بنانے کے لیے پوزیشنیں لیے کھڑی تھی۔ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ سوویت فوج شاید واپس جانے کی بجائےاردگرد اپنے حامیوں کے زیر انتظام علاقوں میں چلی جائے گی اور افغانستان کو شمال اور جنوب میں تقسیم کرنے کے اپنے کم ازکم ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت سفیر نے پاکستان کو دھمکی میں لپٹی ایک پیشکش کی۔ اس وقت افغانستان میں سوویت یونین کی مدد سے قائم حکومت کے سربراہ جنرل نجیب اللہ تھے۔ سوویت سفیر نے کہا کہ” نجیب اللہ آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے امید ہے کہ یہ ہاتھ مکے میں نہیں بدلے گا”۔

ظاہر ہے یہ ہاتھ سوویت یونین کے سفیر کا تھا۔ نہیں معلوم یہ تحقیر آمیز انداز روسی خاصہ تھا جس کے باعث وہ اپنی بات نرم انداز میں نہیں کرپایا یا پھر یہ ایک بڑی طاقت کا غرور تھا۔ یوکینن کو یقین دلا دیا گیا کہ مزاحمتی قوتیں روسی واپسی میں رخنہ نہیں ڈالیں گی۔ آنکھوں دیکھے واقعات اور براہ راست تجربات و واقعات پر مبنی یہ کتاب لکھ کر اسد درانی ایم آئی اور آئی ایس آئی کے وہ پہلے سربراہ بن گئے ہیں کہ جو اپنے تجربات کتابی شکل میں سامنےلائے ہیں۔اس سے پہلے چند ماہ قبل بھی وہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را” کے سابق سربراہ اے۔ ایس دلت کے ساتھ مل کرایک متنازع کتاب لکھ چکے ہیں۔ پہلی کتاب کے تجربے کو پاکستان میں اتنی پذیرائی نہ مل سکی مگر اسد درانی اب دوسری کتاب بھی لے آئے ہیں ۔

میرا مشاہدہ ہے کہ اپنے تجربات پر مبنی کتب دو طرح کی ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ واقعات کواسطرح بیان کیا جاتا ہے جس میں کھل کر اپنے کردار اور احساسات کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ دوسری قسم میں واقعات کو احتیاط کیساتھ معروضی انداز میں بیان کردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کتابیں لکھنے والے عام طور پر دوسری قسم ہی کی کتابیں لکھتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسددرانی نے بھی یہ کتاب احتیاط سے ہی لکھی ہے مگر بہت سے واقعات سے پردہ بھی اٹھایا ہے۔

درانی نے کتاب میں سیاست میں پہلی بار اپنے کردار کا تفصیل سے تو نہیں تاہم سرسری ذکر ضرورکیا ہے اور بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے پس منظر میں لکھا ہے کہ دراصل جنرل اسلم بیگ اور ایم کیو ایم قائد نے بظاہر بے نظیر سے راستے الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اسی لیے ایم کیو ایم نے اس وقت پیپلز پارٹی کی حمایت ختم کردی جس سے حکومت کی اکثریت کو بارہ ارکان کی کمی کا سامنا کرنا پڑا اور غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ بھی کیا۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب درانی پہلی بار سیاست میں ملوث ہوئے۔ ظاہر ہے یہ سب انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی ہدایت پر کیا۔

اسد درانی نے اپنی کتاب میں یہ بھی بتایا ہے کہ جب انہوں نے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی ٹیم میں شمولیت اختیار کی تو جہانگیر کرامت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے۔ جن کے ساتھ مل کر انہوں نے پاک افغان پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے سمیت متعدد منصوبوں پر کام کیا۔ درانی نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ انہوں نے جہانگیر کرامت سے مل کر ملک کے بنیادی سیکورٹی مسائل کے حل کے تناظر میں ،” نیشنل سیکورٹی ایڈوائزری گروپ” کے عنوان سے پیپر بھی لکھا۔

یہ وہی پیپر ہے جس میں پیش کیے گئے تصور کی بنیاد پر کچھ سالوں بعد جنرل جہانگیر کرامت نے نیول اسٹاف کالج میں بات کی تو انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ مجھ پر یہ انکشاف کتاب پڑھ کر ہی ہوا کہ جنرل جہانگیر کرامت کی گفتگو کا پس منظر کیا تھا۔ اسد درانی نےیہ بھی لکھا ہے کہ جنرل وحید کاکڑ حکومت کا تختہ الٹنے کی سوچ کے حامی نہیں تھے تاہم سمجھتے تھے کہ بطور آرمی چیف سیاست میں ان کا ایک کردار ہے۔

اسد درانی نے کتاب میں اصغر خان کیس کے بارے میں تو کوئی خاص انکشاف نہیں کیا تاہم اس بات پر افسوس کا اظہار ضرور کیا ہے کہ انہوں نے اس کیس کی بنیاد بننے والا بیان حلفی رحمان ملک یا اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت کو کیوں دے دیا تھا۔ اس کتاب کے اکثرواقعات میرے لیے بالکل نئے ہیں۔اس کتاب میں آپکو بے نظیر بھٹو، نوازشریف، جنرل ضیا الحق ، جنرل اسلم بیگ، جنرل آصف نواز جنجوعہ، جنرل عبد الوحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف سے متعلق براہ راست واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جو اس وقت کے ہی نہیں بلکہ آج کے حالات کو سمجھنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

پوری دنیا میں اہم عہدوں پر فائز افراد فراغت کے بعد اپنے زندگی بھر کے تجربات کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے کتابیں لکھتے اور لیکچر دیتے ہیں۔ اہم عہدوں پرفائز افراد سے بعض اوقات اپنے ہرکام کا دفاع ممکن نہیں ہوتا تاہم کسی بھی صورت میں ان کے تجربات کسی سبق سے کم نہیں ہوتے۔ یہ سبق صرف افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ اداروں ، ریاستوں اور قوموں کے لیے بھی ہوتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسی ہی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے، آپ کو موقع ملے تو یہ کتاب ضرور پڑھیں کیوںکہ اس میں ایسی بھی بہت سی باتیں ہیں جن کا یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے