محبتوں اور نفرتوں کے درمیان

کسی بھی عوامی شخصیت کے مقام اور منصب کا ایک پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ کتنے لوگ اس سے ایک ذاتی اور جذباتی تعلق محسوس کرتے ہیں۔ پیروں اور مریدوں کے رشتے کا ایک روحانی زاویہ بھی ہوتا ہے لیکن سماجی اور سیاسی دائروں میں محبتوں اور مخاصمتوں کے انداز مختلف اور پیچیدہ بلکہ نرالے ہوتے ہیں۔ یوں تو ہر خاندان، ہر محلے، ہر قبیلے اور بستی کے اپنے اپنے ہیرو ہوتے ہیں مگرقومی سطح پر ہمارے جیسے الجھے اور ناآسودہ معاشروں کو ایسی قیادت کی طلب ہوتی ہے جسے ہم کرشماتی کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی قیادت ہوتی ہے کہ جو اپنے پیچھے چلنےوالوں کی زندگی میں رچ بس جاتی ہے۔ اور اس قیادت کے دکھ بے شمار زندگیوںکا غم بن جاتے ہیں۔

ارے۔۔۔ یہ بات تو لمبی ہوتی جا رہی ہے اور میرا مقصد تو صرف یہ ہے کہ میں اس لرزش اور اضطراب کا ذکر کروں کہ جو بیگم کلثوم نواز کے انتقال نے پاکستان کی موجودہ سیاست میں پیدا کی ہے۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ اس سانحے نے کئی پرانے اور حالیہ واقعات کو تازہ کر دیا ہے۔ دو کرشماتی حوالوں کے درمیان پلنے والی بازاری قسم کی کم ظرفی نے ایسے ایسےگل کھلائے کہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو بھی متنازع بنا دیا گیا۔ سو میں نےایک ٹوئٹ یہ بھی پڑھا کہ ’’بیگم کلثوم نواز ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی تھیں جہاں اپنی بیماری کایقین دلانے کے لئے مرنا پڑتا ہے ۔ ‘‘ اور اب یہ دیکھنے کی بات ہے کہ اس انتقال کے نتیجے میں کتنی دوسری باتوں کی صداقت واضح ہو سکتی ہے۔

سیاست کے اسٹیج پر ایک ہلچل کا سا سماں ہے۔ سب سے اہم سرگرمی تدفین اور تعزیت کے مراحل میں نواز شریف اور مریم نواز کی شرکت ہے۔ ان دونوںکو اڈیالہ جیل سے پیرول پر رہا کیا گیا ہے۔ پورے پس منظر کو آپ ذہن میںرکھیں تو یہ ایک خاندان اورایک ملک کی زندگی کے کتنے حیرت انگیز اور ڈرامائی لمحات ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ایسے مقامات سے کئی بار گزر چکے ہیں۔ سب سے لرزہ خیز اور دلخراش واقعہ وہ تھا جب ایک فوجی ڈکٹیٹر نے ایک سابق وزیر اعظم اور پاکستان کے قیام کے بعد کی سیاست کے سب سے بڑے کرشمہ ساز رہنما کو پھانسی پر لٹکایا اور اس کی تدفین میں اس کی بیوہ اور بیٹی کو شرکت کی اجازت بھی نہ دی۔ پھر یہ سانحہ ہم نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کی شکل میں برداشت کیا، اس کی بھی کوئی مثال نہیں ہے۔ بھٹو خاندان نے کتنے دکھ سہے ہیں اور یہ دکھ کیسے عوام کی ایک بڑی تعداد نے محسوس کئے ہیں اس کا تعلق بھی سیاست کے طوفانی اتار چڑھائو سے ہے۔ نہرو، گاندھی خاندان کی کہانی بہت مختلف نہیں ہے۔

امریکہ میں جان کینیڈی ایک کرشماتی رہنما بن کر ابھرا تھا۔ اس کے خاندان نے بھی کئی المیے برداشت کئے۔ ڈھونڈنے سے کئی اور مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔ شریف خاندان کو شاید اس صف میں ابھی شامل نہیں کیا جا سکتا ویسے بھی نواز شریف کی شخصیت اور انداز میں کبھی بجلی کی کڑک اور شعلوں کی تپش نمایاں نہیں رہی۔ ہاں، گزرے ہوئے سال میں نواز شریف نے جیسے ایک نیا روپ دھارا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ وزیر اعظم تو وہ تین دفعہ بن چکے تھے۔ لیڈر وہ اب بن رہے ہیں۔ یا شاید قیادت کا ہالہ مریم نواز کے چہرے کے گرد بن رہا ہے۔

جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کلثوم نواز کے انتقال کے سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ کئی باتیں ایک ساتھ ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ عدالت کے کئی اہم فیصلے بھی جلد متوقع ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے درمیان جو سیاسی جنگ جاری ہے اور جس کا گہرا تعلق انتخابات سے پہلے کی کھلی اور درپردہ کارروائیوں سے تھا اس کے جاری رہنے سے کئی نئے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہماری سیاست میںچھوٹا یا بڑا ایک موڑ تو ہے۔ یہ ایک اضافی تعجب کی بات ہے کہ یہ انتقال 11ستمبر کے اہم دن کو ہوا۔ دنیا میں یہ دن 2001میں دہشت گردی کے ایک ناقابل تصور واقعہ سے منسوب ہے۔

ہمارے لیے یہ قائد اعظم کا یوم وفات ہے۔ کسی نے کہا کہ نواز شریف اور قائداعظم کی پیدائش کا دن ایک ہی ہے۔ اب ان کی بیگم کا انتقال 11ستمبر کو ہوا ہے۔ یوں، یہ ایک اداس کرنے والا دن تھا لیکن اس دن کا تعلق ہماری اپنی تاریخ کے ایک بڑے سانحے سے بھی ہے۔ چھ سال پہلے، اسی دن، کراچی میں بلدیہ کی آتش زدگی میں ڈھائی سو سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں کہ اتنے بڑے المیے نے بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑا۔

مطلب یہ ہے کہ اس جرم کی سزا ابھی کسی کو نہیں ملی اور فیکٹریوں میں احتیاطی تدابیر کے حوالے سے کوئی جامع تبدیلیاں نافذ نہ کی جا سکیں۔ کسی زندہ معاشرے میں ایسا حادثہ پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیتا۔ اور ہاں 11ستمبر کا ایک اور تاریخی واقعہ بھی ایسا ہے کہ جس کی نائن الیون کے واقعہ سے کچھ مماثلت ہے۔ اس دن 1973 میں ، لاطینی امریکہ کے ملک چلی کے صدر آیندے کے محل پر ہوائی جہازوں سے بمباری کی گئی اور اس طرح امریکہ کی مدد سے فوج نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا، یہ چلی کی اور سرد جنگ کی تاریخ کا ایک سنگ میل تھا۔

جیسا کہ میں نے کہا، بیگم کلثوم نواز کے انتقال کا موجودہ سیاسی صورت حال پر کوئی اثر ضرور پڑ سکتا ہے۔ قومی انتخابات نے جو کہرام برپا کیا تھا اس کی دھمک کسی حد تک اب بھی سنی جا رہی ہے۔ خاص طور پر نواز شریف اور مریم نواز کے منظر پر نمودار ہونے سے ان کی جماعت کے ہمدردوں میں حرکت پیدا ہو سکتی ہے۔ عمران خان کی نئی حکومت نے ابھی اپنے قدم پوری طرح جمائے نہیں ہیں۔ عمران خان کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں تین مہینے دو، اس کے بعد ہماری کارکردگی پر تنقید کر لینا۔ لیکن ایک نئی جمہوری حکومت کے قیام کے ساتھ ہی جس تبدیلی کو ضروری سمجھا جاتا ہے اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی جمہوری نظام کی بنیاد فکر اور اظہار کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ پر رکھی جاتی ہے۔

ہمارا معاملہ یہ ہے کہ خوف کی وہ فضا جو انتخابات سے پہلے ہم پر طاری تھی اب بھی اسی طرح قائم ہے۔ پاکستان کا میڈیا جس مشکل دور سےگزر رہا ہے اس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں اگر سیاسی کشمکش میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر نئی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت تو ایک تذبذب کا عالم ہے کہ کیا ہم ایک نئے پاکستان میں داخل ہونے والے ہیں یا پرانا پاکستان ہمیں اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کے انتقال نے شریف خاندان کی قسمت اور اس کی سیاست پر لوگوں کی توجہ مرکوز کر دی ہے۔ کئی سوال پوچھے جا سکتے ہیں۔ وہ کونسی کہانیاں ہیں جو ختم ہو رہی ہیں اور وہ کیسے رشتے ہیں جو استوار کئے جا سکتے ہیں؟ جمعہ کی شام کی تدفین کے بعد، کئی معاملات پر نئے سرے سے غور کرنے کی مہلت ملے گی۔ یہ سوال ایک بار پھر سوچ کا عنوان بن گیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست کا مستقبل کیا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے