شیخ رشید یا تحریک انصاف

راولپنڈی تحریک انصاف نے اپنے قائد عمران خان کی خدمت میں ایک سوال رکھا ہے: شیخ رشید یا تحریک انصاف ؟ اس سوال کی ایک شرح یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شیخ راشد شفیق یا مصدق گھمن ؟ عمران خان کا جواب جو بھی ہو یہ بات طے ہے کہ اس کے اثرات صرف ایک حلقے تک محدود نہیں ہوں گے ۔ یہ ایک دور رس فیصلہ ہو گا ۔ عمران چاہیں تو اپنے کارکنان کو اپنے فیصلے سے آسودہ کر دیں اور چاہیں تو اسے کارکنان کے لیے ایک نفسیا تی گرہ بنا دیں جو آنے والے دنوں میں دانتوں سے بھی کھل نہ پائے ۔

راولپنڈی میں ضمنی انتخابات کے لیے میدان سج رہا ہے ۔ ایک طرف شیخ رشید ہیں ۔ دعوی ان کا یہ ہے کہ وہ عوامی سیاست کے علمبردار ہیں لیکن مطالبہ ان کا یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ٹکٹ ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو دیا جائے ۔ راولپنڈی کا سیاسی، سماجی ، فکری منظر نامہ شیخ راشد شفیق سے ناواقف ہے ۔

وہ کسی میدان کے شہسوار نہیں ۔ ان کا واحد تعارف یہ ہے کہ وہ شیخ رشید کے بھتیجے ہیں اور اس سے پہلے بھی اسی زادراہ کے بل بوتے پر الیکشن جیتنے کی ایک ناکام کوشش کر چکے ہیں ۔ اس ناکام کوشش کے بعد وہ منظر سے غائب ہو گئے۔ اب ضمنی انتخاب کا معرکہ درپیش ہوا تو وہ وہ پھر سامنے آ گئے ۔ تحریک انصاف کے کارکن شاید اسی لیے ان کے لیے ’ پردیسی بابو‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔ زاد راہ اب بھی ان کے پاس وہی ہے کہ میں چونکہ شیخ رشید کا بھتیجا ہوں اس لیے ٹکٹ مجھے دیا جائے ۔

تحریک انصاف کا کارکن اپنے ہی مزاج کا آدمی ہے ۔ اس کے لیے ممکن نہیں وہ بھیڑ بکریوں کی ریوڑ کی طرح وراثت میں تقسیم ہوتا رہے ۔ شیخ راشد شفیق کو ٹکٹ ملنے پر چنانچہ رد عمل آیا ہے اور شدید رد عمل ۔ پوری تحریک انصاف نے مل کر اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ تحریک انصاف کے کارکنان نے پہلے ہی بڑی مشکل سے شیخ رشید کو ووٹ دیا ۔ صرف عمران خان کے فیصلے کے احترام میں ۔ لیکن اب پورا راولپنڈی شیخ رشید کی جاگیر بنا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا جائے کہ لیجیے صاحب یہ شہر مال غنیمت میں آپ کو دیا جاتا ہے اس میں موروثی سیاست کا بیج کاشت کیجیے اور عوامی سیاست کے خطبے دیجیے ، تحریک انصاف کے کارکن کو یہ گوارا نہیں ۔

کسی ایک فرد کا معاملہ نہیں ، پوری تحریک انصاف شیخ راشد شفیق ، یعنی پردیسی بابو کے خلاف اکٹھی ہے ۔ تحریک انصاف کی جانب سے مصدق گھمن امیدوار ہیں ۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر رہ چکے ۔ پارٹی کے پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری انفارمیشن ہیں ۔ سیاست میں ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جن کا علم و تحقیق کی دنیا سے واسطہ ہے۔ مزاج کے اعتبار سے بھی شائستہ ہیں اور صاحب علم ہیں ۔ ایم کیو ایم کی سینیٹر نگہت مرزا کے ساتھ ایک ٹاک شو میں شریک ہوئے تو نگہت مرزا نے حیرت سے کہا تحریک انصاف میں ایسے شائستہ اور علمی ذوق والے لوگ بھی موجود ہیں ، میرا واسطہ تو ہمیشہ شور مچانے والوں ہی سے پڑا ۔

تحریک انصاف نے جب عام انتخابات میں شیخ رشید کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو شیخ رشید مصدق گھمن کے گھر آئے ۔ مصدق نے انہیں خوش آمدید کہا اور ان کا ساتھ دیا ۔ مصدق مگر اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں کہ اب پردیسی بابو کو صرف اس لیے ووٹ دیا جائے کہ وہ شیخ رشید کا بھتیجا ہے ۔ تحریک انصاف کی جانب سے سب سے متحرک امیدوار یہی ہیں اور پارٹی نے پہلی بار کھل کر شیخ رشید کی موروثیت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا ہے تو اس کی ایک وجہ مصدق گھمن ہیں ۔

دوسرے امیدوار عارف عباسی ہیں ۔ یہ تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے رہ چکے اور بطور ایم پی اے ان کا کردار بھر پور رہا ۔ آج تو ڈیموں کی ضرورت اور درختوں کی اہمیت زبان زد عام ہو چکی ۔ پچھلے دور حکومت میں یہ عارف عباسی تھے جو پنجاب اسمبلی میں چیختے رہے کہ جنگلات کی زمینوں پر ناجائز قبضے ختم کروائے جائیں اور ماحولیات کو بچایا جائے ۔ یہ عارف عباسی ہی تھے جنہوں نے اسمبلی میں سوال پوچھا صرف راولپنڈی میں محکمہ جنگلات کی کتنی زمین پر لوگ ناجائز قابض ہو چکے ہیں ۔ جواب ملا ایک ہزار آٹھ سو ستاون ایکڑ ۔ عارف عباسی کو اس دفعہ عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ اس لیے نہیں ملا کہ شیخ رشید ان کی جگہ کسی اور کو ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے ۔ گویا شیخ صاحب اتنے ناگزیر ہو چکے ہیں کہ ان کی خواہش پر صرف ان کے بھتیجے کو ہی ٹکٹ نہیں ملتا، نیچے ایم پی اے کے ٹکٹ پر بھی وہی اثر انداز ہوتے ہیں اور اس حد تک کہ جیتا ہو ایم پی اے ٹکٹ سے محروم ہو جاتا ہے۔

افتخار چودھری بھی ٹکٹ کے امیدوار ہیں ۔ تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات ہیں ۔ پارٹی کے دیرینہ کارکن ۔ جب شیخ رشید عمران خان پر فقرے اچھالا کرتے تھے ، تب سے افتخار چودھری عمران کے ساتھ ہیں ۔

گذشتہ انتخابات میں وہ ٹکٹ کے امیدوار تھے لیکن ٹکٹ شیخ رشید کو مل گیا تو پارٹی قیادت کے فیصلے پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے شیخ رشید کو اپنے گھر مدعو کیا اور کارکنان سے کہا قیادت کے فیصلے کو قبول کیا جائے اور شیخ رشید کا بھر پور ساتھ دیا جائے۔ اب وہ پھر ٹکٹ کے امیدوار ہیں ۔ ان جیسے نجیب آدمی کو نظر انداز کر کے شیخ رشید کے بھتیجے کو ٹکٹ دینا سمجھ سے باہر ہے۔

تحریک انصاف کے پاس اگر ڈھنگ کا کوئی امیدوار نہ ہو پھر تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے ۔ تحریک انصاف کی جانب سے بارہ امیدوار ٹکٹ کے لیے میدان میں ہیں ۔ اور ان سب میں اس بات پر اتفاق ہے کہ شیخ راشد شفیق کا ٹکٹ پر کوئی حق نہیں ۔ ٹکٹ پارٹی ہی کے کسی آدمی کو ملنا چاہیے۔ اس سوال میں جہان معنی پوشیدہ ہے کہ تحریک انصاف کے ان امیدواروں کو نظر انداز کر کے شیخ رشید کے بھتیجے کو ٹکٹ جاری کرنے پر قیادت تلی ہوئی ہے تو کس اصول کی بنیاد پر؟

سب کو معلوم ہے کہ گذشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے مقامی رہنما تو عمران خان کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے شیخ رشید کا ساتھ دے رہے تھے ، اور نہ صرف ساتھ دے رہے تھے بلکہ ان کے ساتھ ان کی انتخابی مہم میں شریک رہے لیکن شیخ رشید کا رویہ کیا تھا ؟ شیخ رشید نے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کی مخالفت کی ۔ پرانے زمانے کے کسی جاگیردار کی طرح وہ اس شہر میں کسی کو سر اٹھانے کی اجازت دینے کے قائل نہیں ۔ یہ راز اب سارے شہر کو معلوم ہے کہ شیخ رشید تحریک انصاف کے فیاض چوہان کی بجائے جماعت اسلامی کے امیدوار رضا شاہ کے ساتھ تھے ۔ دونوں کے مشترکہ بینرز تک شہر میں آویزاں رہے۔

شیخ رشید کی مقبولیت کے زمانے لد گئے ۔ اب ان کی جیت تحریک انصاف کی مرہون منت ہے ۔ خود ان کے پاس اتنا ووٹ بنک ہوتا تو فیاض الحسن چوہان کے مقابلے میں وہ جماعت اسلامی کے جس رضا شاہ کی حمایت کر رہے تھے وہ جیت جاتے۔ لیکن شیخ صاحب تحریک انصاف کے صدقے جیت کر اسی کے درپے ہو گئے ہیں ۔ وہ ایک بڑے شہر کے نسبتاً زیادہ با شعور ووٹر کو موروثیت کے ڈنڈے سے ہانکنا چاہتے ہیں ۔ تحریک انصاف کا کارکن اس رویے سے بے زار تھا ۔ مصدق گھمن نے ان جذبات کو زبان دے دی ۔

کارکنان نے اب عمران خان کی خدمت میں ایک سوال رکھ چھوڑا ہے: شیخ رشید یا تحریک انصاف ؟ اس سوال کی ایک شرح یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شیخ راشد شفیق یا مصدق گھمن ؟ عمران چاہیں تو اپنے کارکنان کو اپنے فیصلے سے آسودہ کر دیں اور چاہیں تو اسے کارکنان کے لیے ایک نفسیا تی گرہ بنا دیں جو آنے والے دنوں میں دانتوں سے بھی کھل نہ پائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے