امیر اور غریب میتیں

کسی بھی معاشرے یا قوم کے لوگوں کی ترقی یا پستی کا راز ان کے اجتماعی رویے میں چھپا ہوا ہوتا ہے لباس ،زبان، رہن سہن اور رسم و رواج کسی بھی قوم کی پہچان ہوا کرتے ہیں ، ہمارے پاکستان میں اجتماعی روئیے کی بات کی جائے تو ہم بٹے ہوئے لوگ ہیں.

ہم لوگ خوشی غمی میں شراکت داری پسند نا پسند خیش قبیلے اور خاندانوں میں صلاح مشورے سے چلاتے ہیں اچھی بات ہے صلاح مشورہ کرنا بھی چاہئیے اور اس سے سیانوں کی راہنمائی ملنے کا برابر چانس ملتا ہے.

خاتون اول بیگم کلثوم نواز اس جہان فانی سے کوچ فرما گئیں اللہ پاک اپنی رحمت کے صدقے انکی مغفرت فرمائیں مرحومہ نیک دل اور جمہوریت پسند خاتون تھیں نواز شریف کی جلا وطنی پر محترمہ نے ن لیگ کی بھاگ ڈور سنبھالی اور ن لیگ کو لے کر چلتی رہیں.

بلند ہمت و حوصلے والی کلثوم نواز بیماری سے ہار گئیں اور خالق حقیقی سے جا ملیں اسکے بعد شروع ہوا میڈیا منڈلی کا سٹیج شو جس میں ہر چینل نے اپنی بساط سے بڑھ کر اس خبر کو پذیرائی دی یہاں تک کے کچھ چینلز سے نواز شریف کے جنازہ پڑھتے بندھے ہاتھوں کا حوالہ بھی دیا کہ مجرم نواز شریف نے جنازہ پڑھتے ہوئے ہاتھ ٹھیک طرح سے نہیں باندھے تھے.

دوسرا شور اس خبر پر سوشل میڈیا پر چل رہا تھا جس میں دو گروپ اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق ایک دوسرے پر بیان بازی میں ہمہ تن گوش تھے کہ بی بی واقعی بیمار تھیں انکی بیماری پہ تنقید کرنے والے ڈوب مریں کچھ نے کہا اس معاشرے میں بیماری کا یقین دلانے کے لئے مرنا پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ

ہمارا اجتماعی رویہ بھی بکھرا ہوا ہے بجائے اسکے کہ محرم الحرام کے احترام میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے اجتناب کیا جاتا ہم نے محترمہ کی فوتگی کی اطلاع پر دانشوری جھاڑنے کے چکر میں ایک دوسرے کو خوب دھوبی پچھاڑ دئییے.

تمام تر میڈیا اور سوشل میڈیا محترمہ کلثوم نواز کی وفات سے انکی تدفین تک اس بحث میں رہا کہ حسن اور حسین نواز وطن واپس آئیں گے یا نہیں، آمروں کے سامنے کھڑی ہونی والی ایک اور بلند ہمت خاتون دم توڑ گئی، کچھ نے سوشل میڈیا پر نواز شریف کی محبت میں یہاں تک لکھ ڈالا کہ جناب آپکا رشتہ ہم اپنے خاندان میں کروانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.

سیاسی جماعتوں کے راہنماوں بشمول حکومتی جماعت شریف خاندان کے دکھ میں شرکت کی اور جنازے کے لئے بھی پہنچے یہاں تک سب ٹھیک تھا اس بیچ شانگلہ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے گیارہ مزدور کان میں دب جانے کے باعث دم توڑ گئے.

خود کو معاشرے کا آئینہ کہنے والے میڈیا چینلز پھر بھی کلثوم نواز کی خبر کو یوں بنا کر پیش کرتے رہے کہ جناب بس اس سے آگے کی خبر ہمارے پاس نہیں ہے.

یہاں ہمارے ملک میں میتیں بھی اپنا ایک مقام رکھتی ہیں بساط اور رتبے کے مطابق ہر میت ٹی وی چینلز سے اپنے حصے کی سکرین وصولتی ہے.

ماڈل ٹاون واقعہ سب کو یاد ہو گا وہاں جو ظلم و بربریت کا دور چلا سب نے دیکھا مگر آج تک ان ناحق مر جانے والوں کے ورثا کو انصاف نہ مل سکا ملالہ کی شان میں قصیدے پڑھنے والا میڈیا اب ماڈل ٹاون واقعے پر بھی چپ ہے.

ملک میں بے شمار مسائل ہیں جو غور طلب اور حل طلب ہیں مگر ٹی وی مالکان اور چینلز کے اینکرز اپنی اپنی دھن اور مفادات کے گھوڑے پر سوار اپنی ہی کسی منزل کی جانب رواں دواں ہیں.

شانگلہ کے مزدوروں کی میتیں غریب اور اچھوت تھیں جس کے باعث وہ مرنے والے شہ سرخیوں اور میڈیا سکرینوں تک رسائی حاصل نہ کر پائے بیگم کلثوم نواز کی موت کے بعد جو ڈرامہ چلا وہ بھی سب کے سامنے ہے.

ہمارا معاشرتی رویہ تعصب اور پسند نا پسند میں اس قدر الجھ چکا ہے کہ سوشل میڈیا پر لکھنے والوں نے یہاں تک لکھا کہ نواز شریف کے گناہوں کا بدلہ کلثوم نواز کو بیماری کی شکل میں ملا .

ہم کسی کے بھی دکھ میں شرک ہونے کی بجائے اس دکھ میں اپنے مطلب کی بات نکال کر خود کو ترم خان منوانے کی حتی الامکان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں.

بی بی کلثوم کا جنازہ اٹھنے پر سیاسی نعرے بازی بھی سب نے سنی محترمہ کی قبر کشائی پر سیلفیاں بنانے والے بھی موجود تھے.

میڈیا بجائے معاشرتی اور اخلاقی قدروں کی راہنمائی کے نمبر ایک بننے کی دوڑ میں سب گنواتا چلا جا رہا ہے.

ڈان نیوز اور دیگر اداروں میں جبری برطرفیاں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر بھی صحافی خاموش ہیں جو بولتے ہیں ان کی سنتا کوئی نہیں کسی سیانے نے کہا تھا احساس کی موت ہو جائے تو معاشرے زوال کا شکار ہونے لگتے ہیں.

خوف خدا اور احساس انسانیت سے لبریز ہمارا معاشرہ کس ڈگر پر چل رہا ہے اہل فکر و دانش بھی اس معاملے کا شاید حل نکالنے میں ناکام ہو چکے ہیں ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہے.

اور ہم خواہاں ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے مہذب معاشروں کے ہم رکاب ہو جائیں.

ان تمام معاملات پر میڈیا سمیت اہل فکر کو عملی اقدامات کی سخت ضرورت ہے ہی معاشرے کے ہر فرد کا فرض بھی ہے کہ غلط اور صحیح کی اپنی ذہنی تشریح کی بجائے احساس اور فکر سے اس معاشرے کی ازسر نو تشکیل کا کوئی حل نکالا جائے وگرنہ غریب اور امیر میتیں کسی دن اٹھ کر چوک چوراہوں میں ہماری بے حسی پر ماتم کریں گی تب تک ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہوں گے کہ احساس کا پرسہ وصولنے کا دم بھی نہیں رہے گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے