عمران خان کا مودی کو ٹرمپیانہ ٹویٹ….مگر

اس کالم کے آغاز ہی میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ وزیراعظم عمران خان صاحب بھارتی وزارتِ خارجہ کے بے نام ترجمان کے ذریعے آئی پریس ریلیز میں اپنی ذات پر بے وجہ ہوئے حملے کے جواب میں اپنے ہاتھ سے ”ٹرمپیانہ“ ٹویٹ لکھ کر نریندر مودی کی بے عزتی نہ کرتے تو مجھ جیسے لوگ انہیں ”بکری“ ہوجانے کے طعنے دیتے۔

عمران خان صاحب نیازی پٹھان ہیں۔ ان کے ننھیال والے وزیرستان سے چل کر جالندھرآباد ہوئے تھے۔غصہ، غیض وغضب ان کا نسلی ورثہ اور پہچان ہے۔کرکٹ کے فاسٹ باﺅلر بن کر دوآتشہ ہوگئے۔ سیاست میں غیض وغضب والے روئیے کے ساتھ انہوں نے ”باریاں لینے والے چور اور لٹیرے سیاستدانوں“ سے اس ملک کو نجات دلانے کا عہد کیا۔ پارلیمان کے سامنے کنٹینر لگاکر حکمرانِ وقت کو ”اوئے“ کہہ کر پکارتے رہے۔ اپنے کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے وزیروں اور افسروںکے نام لے کر انہیں ”چھوڑوں گا نہیں“ کی دھمکیاں دیتے رہے۔اس ”تاریخ“ کے ساتھ عمران خان کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے پاکستانی وزیرخارجہ سے اپنی وزیر کی نیویارک میں ملاقات کو رد کرتے اعلان میں اپنی ذات کے بارے میں کہے الفاظ کو نظرانداز کردیتے۔ انہیں ”ٹرمپ جیسا“ ٹویٹ لکھنے پر مجبور کیا گیا۔

شاید Post Internet Worldمیں ”سفارت کاری“ اب اسی زبان میں ہوگی جو دُنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کے صدر نے متعارف کروائی ہے۔ ہاتھی کے پاﺅں میں سب کے پاﺅں والی بات۔ پاکستان کے وزیراعظم ٹرمپیانہ انداز میں بھارتی وزیراعظم کو ایک بڑے عہدے پر بیٹھا چھوٹا ذہن نہ بھی پکارتے تو کم از کم مجھے چین نہ آتا۔ جمعرات کے روز اپنا کالم لکھ کر دفتر بھیج بیٹھا تو چند گھنٹوں بعد خبر آئی کہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے ”پاکستان کی درخواست“ مانتے ہوئے سشما سوراج کی مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی تجویز سے اتفاق کرلیا ہے۔ یہ ملاقات مگر ملاقات ہی سمجھی جائے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل کا احیاءنہیں۔ سارک تنظیم کی بحالی بھی اس ملاقات کے ذریعے ممکن ہی نہیں ہوگی۔ دو وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات بس ملاقات ہی رہے گی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی معاملات کو کئی دہائیوں تک بطور رپورٹر Followکرنے کے تجربے کی بنیاد پر مجھے بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کرنے والے اعلان کی زبان نے حیران کیا۔ ”پاکستان کی درخواست“ والے دعویٰ کو ایک حوالے سے ”دستاویزی شہادت“ فراہم کرنے کے لئے وہ خط بھی منظر عام پر لایا گیا جو پاکستانی وزیراعظم نے بھارتی وزیراعظم کو لکھا تھا میں نے اس خط کو کئی بار غور سے پڑھا ہے۔ ایک بات عیاں ہے کہ اسے کسی ماہر سفارت کار نے عمران خان صاحب کے لئے تیار نہیں کیا تھا۔ اس کی زبان کافی اجڈتھی۔ لہجہ اگرچہ دوستانہ تھا۔

اس خط پر دستخط کرنے سے پہلے عمران خان صاحب نے 14ستمبر کی تاریخ ڈالی ہوئی تھی۔ ان کے ہاتھ سے ڈالی تاریخ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ وزیراعظم پاکستان کے لئے یہ خط وزارتِ خارجہ میں نہیں ”کہیں اور“ تیار کیا گیا تھا۔ اس کا مسودہ اگر کسی ریاستی ادارے میں نہیں تو بنی گالہ میں موجود کسی ”بسمارک“ نے لکھا تھا۔ وزیراعظم نے اس خط پر دستخط کرنے میں چند روز لگائے۔ سوال میرے ذہن میں فوری یہ اٹھا کہ 14ستمبر کو مذکورہ خط ہندوستان کے وزیراعظم کو بھیج دینے کے بعد ہماری وزارتِ خارجہ یا وزیراعظم کے دفتر سے ازخود اس کا اعلان کیوں نہیں ہوا۔

شاید یہ خط بھیج دینے کے بعد بھی ہمیں یقین نہیں تھا کہ ”وہ کیا لکھیں گے جواب میں“سفارت کاری میں ایسی بے خبری کی اجازت نہیں ہوتی ۔ غیر ملکی سربراہان کو خط لکھنے سے پہلے بیک ڈور رابطوں کے ذریعے اس امر کی یقین دہانی حاصل کی جاتی ہے کہ لکھے ہوئے خط کا مثبت جواب آئے گا۔ مناسب ہوم ورک کئے بغیر دو ممالک کے درمیان یک طرفہ محبت نامے ہرگز نہیں لکھے جاتے۔مزید حیرانی یہ سوچ کو بھی ہوئی کہ بھارتی حکومت نے 14ستمبر کے دن لکھے خط کو پورے 6 دن گزرنے کے بعد 20 ستمبر کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ یہ خط پرانے زمانے کے قاصدوں کے ذریعے بھیجا گیا ہوتا تو تاخیر کی وجہ سمجھی جا سکتی تھی۔ انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز کے دو ر میں لیکن قاصدوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اس خط کا پرنٹ آﺅٹ صاف بتارہا تھا کہ اسے Scanکرکے انٹرنیٹ کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔

اسے خفیہ رکھنے کی صورت بھی ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعے یہ خط دلی میں مقیم ہمارے سفارت کاروں تک اسی روز پہنچ گیا ہوگا جس دن اس پر دستخط ہوئے تھے۔ دلی میں موجود ہمارے سفارت خانے سے اسے بھارتی وزیراعظم کے دفتر پہنچانے میں 60 سے زیادہ منٹ درکار نہیں تھے۔20 ستمبر کو 14ستمبر کے روز لکھے خط کی بھارتی حکومت کی جانب سے جاری ہوئی وصولی کی رسید اس امر کا پتہ دیتی ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ سے بھارتی وزیر خارجہ کی نیویارک میں ”محض ملاقات“ کا فیصلہ کرنے میں بھی 6 دن لگائے گئے۔ چھ دنوں تک غور وغوض کے بعد کہی ”ہاں“ کو عین ایک دن بعد انکار میں بدلنے کی وجوہات میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔

24گھنٹوں میں اقرار کو انکار میں تبدیل کرتے ہوئے مگر جو وجوہات بتائی گئیں وہ بدترازگناہ نوعیت کے عذرتھے۔یہ عذر تراشتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کی ذات کو طعنوں سے نوازنا ہر حوالے سے پنجابی والا Moreover تھا۔ عمران خان صاحب کی سیاست کے بار ے میں ہزار ہا تحفظات رکھنے کے باوجود میں بھی اس کے بارے میں چراغ پا ہوگیا تھا۔ شاید بہتر ہوتا کہ ہمارے وزیراعظم مجھ ایسے لوگوں کی جانب سے آئے دفاع پر ہی انحصار کرتے۔ مشہور جرمن فلاسفر ہیگل نے مگر ”تاریخی جبر“ کی حقیقت دریافت کر رکھی ہے۔ بنیاد اس حقیقت کی ابنِ خلدون کے دریافت کردہ ”عصبیت“ کے تصور میں پوشیدہ ہے۔ نواز شریف کی بھارت کے ساتھ بردبار سفارت کاری کو عمران خان صاحب اور ان کے ساتھی 2013سے مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

پاکستان کے تین بار منتخب ہوئے وزیراعظم کو ”مودی کا یار“ ٹھہرادیا گیا۔ پاکستان کے مفادات سے مبینہ طورپر لاغرض وزیراعظم نواز شریف جن پر تہمت یہ بھی لگائی گئی کہ وہ فقط سجن جندل جیسے کاروباری شخص کے ساتھ ملکر افغانستان سے لوہا نکال کر اسے بھارتی فیکٹریوں میں فولاد بنانے کے دھندے کی خاطر کشمیر کا ذکر نظرانداز کررہے ہیں۔ کلبھوشن جیسے خونی جاسوس کی گرفتاری کے بارے میں بھی خاموش رہتے ہیں۔نواز شریف کو 5برسوں تک مسلسل ”مودی کا یار“ ٹھہراتے عمران خان صاحب کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ پاکستانی وزیر خارجہ سے نیویارک میں ملاقات کے فیصلے سے مکرنے والی تردید میں اپنی ذات کے بارے میں استعمال ہوئے الفاظ کونظرانداز کردیتے۔ ان کے رویے نے ”تاریخی جبر“ اور ”’عصبیت“ کی حقیقتوں کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ۔

میں لیکن ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہوں کہ شاہ محمود قریشی کو سشما سوراج سے نیویارک میں ملاقات کو یقینی بنانے کے لئے وزیراعظم پاکستان کو اپنے بھارتی ہم منصب کو چٹھی لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اس چٹھی کی زبان ”غیر سفارت کارانہ“ کیوں تھی۔ عمران خان صاحب کو پہلے سے تیار شدہ خط پر اپنے ہاتھ سے 14ستمبر کی تاریخ ڈال کر اپنے دستخط پر کس نے مجبور کیا۔ شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کے درمیان نیویارک میں ”محض ملاقات“ کو بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے بھی ممکن بنایاجاسکتا تھا۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کو ان کاوشوں میں شامل کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں ذاتی طورپر Involve ہونے پر کس نے کن وجوہات کی بنا پر مجبور کیا۔ اس سوال کا جواب ضروری ہے وگرنہ دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے