تبلیغی علمائے کرام! مولانا فہیم کو روکئے-

رائے ونڈ مرکزمیں حاجی عبدالوہاب صاحب کی ساری نقل وحرکت، انکے خادم مولانا فہیم صاحب کے کنٹرول میں ہے- مخالف دھڑے کا الزام ہے کہ مولانا نے حاجی صاحب کو یرغمال بنا رکھا ہے- ہمیں انکی اندرونی سیاست سےغرض نہیں مگر موصوف سے متعلق ایک دینی ایشو بارے تبلیغی علماء سے مداخلت کی اپیل کرنا ہے-

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رائے ونڈ مرکزمیں بعدِ فجر، مولانا یوسف مرحوم کے پرانے بیانات سنانے کا معمول ہے (آجکل یہ مولانا فہیم صاحب کی ڈیوٹی ہے)- تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر(حضرت جی مولانا یوسف کاندھلوی) گذشتہ صدی کے ایک بہت بڑے عالمِ دین تھے- (بلکہ مرحوم کو اگر”سیرتِ صحابہ” پر اتھارٹی قراردیا جائے توغلط نہ ہوگا)- انکے بیانات کا مجموعہ (جوحاجی عبدالوہاب صاحب کی ڈائری میں محفوظ ہے)ایک بہت بڑا علمی اثاثہ ہے (مگراسے کاپی کرنے کی اجازت نہیں ہے اگرچہ کسی زمانے میں خاکسارکے ہاتھ ایک کاپی لگ گئی تھی)-

مولانا یوسف صاحب سے منسوب جو بیانات آجکل مولانا فہیم صاحب سناتے رہتے ہیں، اس پہ مجھے تشویش ہے-مشرقی پاکستان میں 1960ء میں کیا گیا ایک بیان جسے” 7اضلاع کے پرانے ساتھیوں کو بیان” کا نام دیا گیا ہے، مرکز میں بارہا دہرایا گیا ہے- حال ہی میں ( 27 اگست 2018ء) جب کہ گجرات وغیرہ مراکز کا حلقہ وارجوڑ شروع تھا، ایکبار پھر یہی بیان منبر سے پڑھا گیا- دیگر باتوں کے علاوہ ،اس میں پردہ کی آیت کا شانِ نزول بھی بیان کیا گیا ہے- مگرمجھے یقین ہے کہ مولانا یوسف کاندھلوی جیسا متبحرعالم ایسی نامعقول بات نہیں کرسکتا-

لیجئے، اسکا اقتباس ملاحظہ کیجئے:

فرمایاکہ حضرت عمر فاروق پرعورتوں کو پردہ کرانے کا تقاضہ سوار تھا اور وہ چاہتے تھے کہ اس بارے خدا کی طرف سے وحی نازل ہوجائے –اب وحی تو صرف رسول اللہ پہ نازل ہوسکتی تھی تو حضرت عمر نے سوچا کہ جب رسولِ خدا پریشان ہوتے ہیں، تب وحی نازل ہوتی ہے-پس انہوں نے رسول کریم کو اس بارے پریشان کرنے کی ایک ترکیب سوچی- اس زمانے کی عورتیں، قضائے حاجت کیلئے صبح کاذب کے وقت آبادی سے دور جنگل میں جایا کرتی تھیں- جس راستہ پر حضور کی بیویاں جاتی تھیں، اس راستہ میں حضرت عمررض منہ اندھیرے ہی ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے- جب حضور کریم کی دو ازواج مطہرات ،حضرت سودہ اور حضرت عائشہ تقاضہ کرنے گھر سے نکلیں تو حضرت عمر نے آواز بدل کر جملہ بولا کہ میں نے آپ کو پہچان لیا ہے-یہ لمبی والی "سودہ” ہے- اس پر دوںوں گھبرا کرشرم کے مارے واپس گھر کو گئیں اور حضور کو بات سنائ جس پر حضور پریشان ہوئے اور اسی وقت حضرت جبرائیل، پردے کے متعلق آیت لے کر نازل ہوئے-

برادران کرام!

خاکسار کی رائے میں عورتوں کا مروجہ پردہ اوراسکے مسائل، فقط فقہاء کے ذہن کی پیداوار ہیں ورنہ شرعا” اس رائج پردہ بارے کوئ امرموجود نہیں ہے- اپنی اس رائےپر دلائل بھی رکھتا ہوں- مولانا فہیم صاحب کے بیان کردہ واقعہ کو اپنے موقف کیلئے بطورمضبوط دلیل پیش کرسکتا ہوں مگر نہیں کروں گا- اس لئے کہ مذکورہ واقعہ تو دین کی گویا اصل پہ ہی کلہاڑا چلاتا ہے- اس”شانِ نزول” سےقرآن کی حقانیت پہ حرف آتا ہے اوریہ واقعہ ، ملحدین کومواد فراہم کرتا ہے-

اس سے تو گویا یہ ثابت ہوتا ہے کہ "فرمائشی” طور پرخدا سے وحی نازل کرائ جاسکتی ہے-

اس واقعہ کو لےکر، کوئ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ کسی صحابی کے دل میں کوئ سکیم آتی تھی اور وہ اسے جبرائیل کے ذریعہ وحی کی صورت نازل کرانا چاہتا تو آسان ٹکنیک یہی تھی کہ جناب رسول کریم کونعوذ باللہ ٹنشن دے کرآسمان سے حسبِ طلب وحی نازل کرالی جائے-

میں یہ بھی نہیں مان سکتا کہ حضرت عمر جیسا سنجیدہ اور باوقارشخص ایسے ناٹک کرتا پھرے کہ نبی کی بیویوں پر معاذاللہ آوازے کستا ہو-

چنانچہ، تبلیغی جماعت کے علمائے کرام سے اپیل ہے کہ اس بیان کی تحقیق کی جائے اور مولانا فہیم سے بازپرس کی جائے-جماعت پرشخصیات کو فوقیت دینے سے اور ادب وتقدیس کے نام پر نظام احتساب کا گلہ گھونٹنے سے تحریک کی جان نکل جایا کرتی ہے-

تبلیغی جماعت کی خوش قسمتی ہے کہ انکو صم” بکم” مجمع میسر ہے جنکوبیانات سننے سمجھنے سے غرض نہیں ہوتی مگر آجکل بات بڑی جلدی باہرنکل جاتی ہے(اور نکلنی بھی چاہیئے)، پھرباہر بیٹھے صاحبانِ علم اتنی آسانی سے معاملے کو اگنور نہیں کیا کرتے-

اس سے قبل، ہمارے احتجاج کے باوجود، مولانا سعد صاحب(موجودہ تبلیغی امیر) بھی ایسی متنازعہ باتیں کرتے رہے ہیں حتی کہ مدرسہ دیوبند سے ان پر کفرکا فتوی لگ گیا- اگرچہ انکی طرف سےمعافی تلافی کےبعد، وہ فتوی واپس لے لیا گیا ہے مگر مدرسہ دیوبند میں تبلیغی جماعت پہ مکمل پابندی لگ چکی ہے-

عرض یہ ہے کہ تبلیغ کا کام، خدا کے غیبی نظام پریقین بنانے کی محنت ہے جسکے لئے ایک مخصوص ماحول مہیا کیا جاتا ہے اور چند مخصوص کلمات کی تکرارکرائ جاتی ہے- بہتر تو یہی ہے کہ رائے ونڈ کے علماء، تاریخ وفلسفہ کو چھیڑنے کی بجائے، اپنے”چھ نمبر”تک محدود رہیں (جیسا کہ پہلے تھے) تو یہ انکے کام کیلئے زیادہ سودمند ہوگا-

دیکھئے، ہمارے جیسے معمولی فیس بکی رائٹر، جتنا بھی ٹاں ٹاں کرتے رہیں، اسکا اثرایک فرد پربھی نہیں پڑتا مگر رائے ونڈ کے منبر پر بیٹھے شخص کی لغزشِ زباں کی وجہ سے لاکھوں کارکنان کی برسہا برس کی محنت متاثر ہوسکتی ہے- سوشل میڈیا کا دور ہے-یاد رکھئے کہ اگر اپنے لوگوں کی بات کی پرواہ نہ کی گئی توپرائے لوگ کوئ رعایت دینے کو تیار نہیں ہونگے-والسلام

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے