’’خاندانی‘‘ گھرانے میں پیدا ہونا نصیب کی بات ہے

پاکستان یقینا مملکت خداداد ہے اور اس کے شہریوں پر قدرت بہت مہربان۔ برسوں کی جدوجہد،ہزاروں افراد کی عقوبت خانوں میں ہلاکت اور انقلابیوں کی طویل جدوجہد کے بعد فروری1979میں ایران شہنشایت سے آزاد ہوکر اسلامی جمہوریہ بنا۔ اپنے حقوق حاصل کرلینے کی خوشی میں ایرانیوں نے شاہی محلوں کو عجائب گھروں میں تبدیل کردیا۔ وہاں جانے کے بعد شاہی خاندانوں کے حیران کن رہن سہن سے زیادہ تماشائی گھروں کو یہ سوچتے ہوئے لوٹتے کہ دور حاضر کے حکمران فرعون بن کرلوگوں کو کیڑے مکوڑے جان کر ریاستی جبر تلے کچلنے سے پرہیز کریں تو بہتر ہے۔

فلپائن کے مارکوس اور اس کے خاندان کے ساتھ بھی عوامی تحریک کے ذریعے بحال ہوئی جمہوریت کی بدولت ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے تھے اور بہت ہی حالیہ تاریخ میں ایسا سلوک عراقی صدر صدام حسین کے ساتھ ہوا جس کا دہشت طاری کرتا ایک مجسمہ بغداد کے مرکزی چوک میں زمین بوس ہوتا میںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

پاکستان میں 2002سے جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ مرکزاور صوبوں میں عوام کی منتخب کردہ اسمبلیاں اور وہاں ہوتے جاندار مباحثوں کے علاوہ ہمارے ہاں 24/7چینل بھی آگئے۔ ان دونوں نے باہم مل کر اس ملک کے ہر طاقت ور ادارے کو عوام کے ذہنوں میں اُٹھے سوالوں کے جواب فراہم کرنے کا گمان پیدا کیا۔2010سے ہماری عدلیہ بھی مکمل طورپر آزاد ہوگئی۔

ایوب،یحییٰ ،ضیاء اور جنرل مشرف کے مارشل لاء ادوار میں بھی ہمیں اگرچہ ویسا جبر دیکھنے کو نہیں ملا جو شہنشاہ ایران،صدر مارکوس اور صدام حسین نے اپنے ملکوں پر مسلط کررکھا تھا۔

جنرل ضیاء کے دنوں میں کئی غیر ملکی صحافی اسلام آباد آکر مجھے ملتے تو بہت دیانتداری سے یہ جاننے کی کوش کرتے کہ کیا پاکستان واقعی فوجی آمریت کے بوجھ تلے سسک رہا ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کو ذہنوں پر حاوی ہوئے کنٹرول کی باریکیاں سمجھانے میں بہت دِقت پیش آتی۔ بسا اوقات مخاطب کے چہرے پر صاف لکھا ہوتا کہ اسے ہماری جانب سے بتائی ریاستی جبر کی کہانیوں پر اعتبار نہیں آرہا۔

آج کے مصراور ترکی یا کئی برادر اسلامی ممالک کے مقابلے میں پاکستان سیاسی حوالوں سے ایک کھلاڈلا ملک ہے۔ہمارے ہاں بہت گرم جوش مہم کے بعد انتخابات بھی ہوتے ہیں۔ آخری انتخاب 25جولائی 2018کے دن ہوا۔ اس کے نتیجے میں عمران خان کی تحریک انصاف کو خیبرپختونخواہ کے علاوہ کسی اور صوبے میں واضح اکثریت نہیں ملی۔ مرکز میں وہ واحد اکثریتی جماعت کے طورپر ابھری ۔ اس کے بعد مگر آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اراکین جہانگیر ترین کے طیارے میں بیٹھ کر بنی گالہ حاضر ہونا شروع ہوگئے۔ ایم کیو ایم جیسی جماعت نے بھی تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اختر مینگل کی حمایت بھی میسر ہوگئی۔ بالآخر اِدھر کی اینٹ اور اُدھر کے روڑے کو ملاکر عمران خان صاحب پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔

ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد فضا مگر کچھ ایسی بنانے کی ہورہی ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ پاکستان میں ایران جیسا ’’انقلاب‘‘ برپا ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نے سادگی اختیار کرلی ہے اور وزیر اعظم ہائوس کا جو حصہ ماضی کے وزرائے اعظم اپنی رہائش کے لئے استعمال کررہے تھے اسے ٹی وی کیمروں کے ذریعے لوگوں کے سامنے لایا جارہا ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ نواز شریف وغیرہ کس انداز میں اکبر اعظم کی طرح ’’شاہی محل‘‘ میں رہ رہے تھے۔

لاہور کے گورنر ہائوس کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔ حکمرانوں کے شاہی رہن سہن کے بارے میں برسوں سے چراغ پا ہوئے عوام نے جنونیوں کی طرح ’’سامراج کی نشانی‘‘ ٹھہرائی اس عمارت پر دھاوا بول دیا۔ اس کے باغوں کو شاپنگ بیگس سے بھردیا۔ درختوں سے کچے پھل توڑکر انہیں ویران کردیا اور وہاں بنائی مصنوعی جھیل کا پل رش تلے دب گیا۔

گورنر سرور مگر اب بھی مصر ہیں کہ ہمارے شہری بہت ذمہ دار ہیں۔ اتوار کے دن گورنر ہائوس عوام کے لئے کھلا رہے گا۔پنجاب کے وزیر اطلاعات جناب فیاض الحسن چوہان صاحب نے یہ کالم لکھنے سے تھوڑی دیر قبل انقلابی رعونت سے ایک ٹی وی چینل کو یہ بتایا ہے کہ گورنر ہائوس ’’خدانخواستہ مقاماتِ مقدسہ‘‘‘ میں سے ایک نہیں۔ عوام کے لئے کھلا اور انہوں نے وہاں کے باغوں اور جھیل کا ستیاناس کردیا تو پریشانی کیوں۔ ’’عوام کے دئیے‘‘ اربوں اور کروڑوں سے بنی پرتعیش عمارتوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا کرتا ہے۔ 25جولائی 2018کے دن فقط ووٹ دے کر انقلابوں کے ذریعے برپا ہوئے تاج اچھالنے اور تخت گرائے جانے والے مناظر دیکھنا بہت نصیب کی بات ہے۔ پاکستان کے عوام اس حوالے سے یقینا بہت ہی خوش نصیب ٹھہرے۔

’’سامراج کی نشانیوں‘‘ کا ذکر ہوتو میرے ذہن میں لاہور کی کئی عمارتیں آجاتی ہیں جہاں ذلتوں کے مارے لوگ پر بھی نہیں مارسکتے۔ان میں سے چند عمارتوں کی نشاندہی میرے لئے ممکن نہیں۔ اپنی اوقات خوب پہچانتا ہوں۔ Safeکھیلتے ہوئے یہ کہنے میں البتہ کوئی حرج نہیں کہ کسی روز لاہور کے جمخانہ کلب کو بھی عوام کے لئے کھول دیا جائے۔

سامراج کی لاہور کے مال روڈ پر چھوڑی نشانیوں میں سے ایک وسیع وعریض عمارت ایچی سن کالج بھی ہے۔ کسی زمانے میں اسے چیفس کالج کہا جاتا تھا۔ پنجاب پر قبضے کے بعد انگریزوں نے اس صوبے میں نہری نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کی بدولت آباد ہوئے رقبوں کو بندوبست دوامی کے تحت وفاشعار افراد کو بخش کر انہیں ’’خاندانی جاگیردار‘‘ بنایا۔ ان کی اولادوں کو اشرافیہ کا چال چلن سکھلانے کے لئے چیفس کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1857کی جنگ آزادی کو کچلنے کے لئے جن سرداروں، مخدوموں اور خان بہادروں نے نفری اور گھوڑے فراہم کئے تھے ان کی اولادوں کو اس کالج میں داخلہ پیدائشی حق کی بنیاد پر ملتا۔ ہمیں آزاد ہوئے 70برس گزرچکے ہیں۔ مذکورہ کالج مگر اب بھی فقط خاندانی اشرافیہ کے بچوں کے لئے مختص ہے۔ اگرچہ بینکوں سے لئے قرضوں کی بنیاد پر صنعت کار معروف ہوئے کئی نودولتیے بھی اپنی اولاد کو اب اس کالج بھیج سکتے ہیں۔

میری شدید خواہش ہے کہ کسی روز جناب فیاض الحسن چوہان صاحب ایک بس لے کر لاہور کے بارہ دروازوں میں سے کسی ایک کی گلی میں موجود کسی سکول جائیں۔ ایسے سکولوں میں ’’پہلی جماعت ہی سے انگریزی اور اسلامیات کو لازمی ‘‘ پڑھانے کا وعدہ ہوتا ہے۔ان میں سے کسی سکول کے بچوں کے لئے ’’آدھی چھٹی ساری‘‘ کا بندوبست ہو اور انہیں بس میں لادکر ایچی سن کالج لایا جائے۔ ایسا ہوا تو غریب کا بچہ جان لے گا کہ ’’خاندانی رئیس‘‘ بچوں کی کلاسیں ’’کتنی سادہ‘‘ہوتی ہیں۔ وہاں ٹاٹ نہیں ہوتے۔ استاد کے ہاتھ میں ڈنڈا نہیں ہوتا۔ طوطوں کی طرح سرہلاہلا کر رٹا نہیں لگایا جاتا ۔

ایچی سن کالج کے بچوں کے لئے شاہی اہتمام مگر جائز شمار ہوگا کیونکہ ان کے آباء ’’خاندانی‘‘ تھے۔ انہوں نے برطانوی سرکار کو 1857کی جنگ آزادی کچلنے کے لئے نفری اور گھوڑے فراہم کئے تھے۔ ’’خاندانی‘‘ گھرانے میں پیدا ہونا نصیب کی بات ہے۔ عمران خان کی انقلابی حکومت اس دنیا میں آنے والے ہر بچے کے لئے یہ بندوبست کرہی نہیں سکتی کہ وہ ہر صورت ’’خاندانی‘‘ گھرانے میں پیدا ہو۔ یہ شرف فقط خوش نصیبوں کو حاصل ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے