مؤرخ اسلام مولانا سید سلیمان ندوی ….ایک علامہ نابغہ روزگار شخصیت

ہندوستان کے مشہور دینی ادارے” جامعہ ندوة العلماء” کا عظیم الشان جلسہ تقریب اسناد، پہلی بار مارچ 1907ء میں طے پایا تھا ۔اس میں ہندوستان کے طول وعرض سے علوم و فنون کی ماہر، ممتاز دینی و سماجی شخصیات تشریف لا چکی تھیں ۔حضرت مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ کے حکم پر ایک طالب علم "جدید و قدیم علوم” کے عنوان پر دلفریب تقریر کرنے لگا ۔وہ ابھی خطاب کررہاتھا کہ مجمع عام میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اگر یہی طالب علم ،عربی زبان میں بیان کرے تو ہمیں ندوہ کی شاندار کار کردگی پر یقین آجائے گا ۔پاس بیٹھے ان کے استاد مولانا عبد الحیئ لکھنوی رحمہ اللہ اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ عربی میں تقریر کرسکتے ہو..؟ تو اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے عربی میں بیان شروع کردیا ۔آپ کی فصیح ،بلیغ عربی میں برجستہ تقریر سے جلسہ پر سماں چھاگیا ،مجمع پر سناٹا طاری ہوگیا ۔تو استادِ محترم قریب آ کر کہتے ہیں کہ اگر آپ کو ابھی کسی اور موضوع پر اظہارِ سخن کا کہا جائے تو ….تو وہ کہنا لگا کہ جی ان شاء اللہ بالکل آپ کے تجویز کردہ عنوان پر بیان کروں گا ۔استادِ محترم مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمانے لگے اس طالب علم نے جو تقریر کی ہے ،اس کے متعلق بعض لوگ بدگمانی کرسکتے ہیں کہ یہ گھر سے اسی موضوع پر تیاری کرکے آیا ہے ..آپ اس سے جس عنوان پر بھی لب کشائی کرنے کا کہیں گے یہ اسی پر فی البدیہہ تقریر کرے گا ۔یہ سننا تھا کہ مجمع میں کھلبلی سی مچ گئی ،چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ۔ہر کوئی اس طالب علم کا کمال و ہنر دیکھنے کا منتظر نظر آنے لگا ۔اس جلسہ میں لکھنؤ کے مشہور وکیل خواجہ غلام الثقلین بھی موجود تھے ،لوگوں نے انہیں کہا کہ آپ کسی موضوع کا انتخاب کریں ۔انہوں نے یہ موضوع مقرر کیا کہ” ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کیوں کر ہوئی …؟” تو اس طالب علم نے بغیر کسی قسم کی دیر کے مسلسل فصیح اور صحیح عربی زبان میں خیالات ظاہر کرنا شروع کردیے ۔دلکش اندازِ خطاب ، حیرت انگیز معلومات ،ہر طرف سے خوب ،خوب، بہت خوب اور آفریں کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔استاد محترم کھڑے ہوئے اور اپنے سر سے عمامہ اتارا اور ان کے سر پہ باندھ دیا ۔
انکے استاد محترم علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے 1912ء میں منعقدہ ندوہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے برملا فرمایا :کہ” ندوہ نے کیا کیا ..؟ کچھ نہیں کیا ،صرف ایک سلیمان کو پیدا کیا تو یہی کا فی ہے "۔

ندوة العلماء میں علم کلام اور جدید عربی کے ایک قابل اور اعلی استاد کی ضرورت پیش آئی تو علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی نگاہِ انتخاب، ٹہوس اور پختہ علمی استعداد کے مالک 25 سالہ نوجوان پر پڑی ،اور وہ اہم ترین مسندِ درس انہی کے سپرد کردی .بعد میں آنے والےوقت نے ثابت کردیا کہ وہ انتخاب لاجواب تھا ۔وہ شاب صالح ،علامہ نعمانی کی عزت و افتخار میں اضافہ کا سببب بنا ۔

تو وادئ گل سے ایسے پھول چن
دنیا داد دے تیرے حسن انتخاب کو
حضرت علامہ صاحب رحمہ اللہ کو جب زندگی کے آخری ایام میں دنیا سے چل چلاؤ کا احساس ہوا تو انہیں اپنی شہرہ آفاق کتاب” سیرة النبی "کی ناتمامی کا دکھ کھائے جانے لگا ۔انہوں اپنی وفات سے تین روز قبل انہی کو طلب کیا اور اس کا ہاتھ ،اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمایا کہ ” سیرت میری تمام عمر کی کمائی ہے ۔سب کام چھوڑ کر سیرت تیار کردو” ۔اس پر انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ضرور ،ضرور …. پھر انہوں نے اس عظیم کتاب کو شاندار پیمانہ پر پورا کیا ۔

جب وہ درسیات سے فارغ ہوئے تو انہیں” الندوہ” جیسے بلند پایہ خالص علمی رسالہ کا نائب مدیر بنادیا گیا ۔آپ کی تحریریں بڑے ذوق سے پڑھی جاتیں ۔آپ نے حساس موضوعات پر تحقیقی قلم اٹھایا ۔ان کے ہم عصر مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں کہ "نگاہیں جس شوق اور بے تابی سے مولانا شبلی کی تحریروں کی منتظر رہتی تہیں ،اس سے کچھ کم اشتیاق ،حضرت سلیمان کے علمی اِفادات کا بھی نہیں رہتا تھا ۔جن دنوں امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ نے "الہلال "نکالا ،تو انہوں آپ کے تعاون کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ،اس کے ادارہ تحریر میں شامل ہونے پر زور دیا ۔تو خود علامہ شبلی نعمانی نے حضرت آزاد کی خواہش مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ،وہاں کام کرنے کی اجازت دیدی ۔پھر آپ دلجمعی کے ساتھ اہم ترین مضامین لکھتے رہے ،علمی ،ادبی اور سیاسی خدمات سرانجام دیتے رہے ۔کچھ عرصہ کے بعد آپ "پونے علاقہ ” میں تدریس کے لیے تشریف لے گے ۔وہاں آپ "پونا کالج” میں لیکچر دیتے رہے حتی کہ جب نومبر 1914ء علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ بہت بیمار ہوگے تو انہیں اپنے پاس بلالیا۔18 نومبر 1914ء میں جب علامہ صاحب کا انتقال ہوا تو انہیں کے سر پر آپ کے ارادت مندوں نے متفقہ طور پر جانشینی کا تاج رکھ دیا ۔یہاں انہوں نے اپنے استاد محترم کی خواہش و حسرت کے مطابق "دارالمصنفین "کی داغ بیل ڈالی ۔اور اپنی ساری صلاحیتیں اس پر صرف کر ڈالیں ۔یہ آپ کی جدو و جہد کا ثمرہ تھا کہ دار المصنفین کی علمی خدمات کا اطرافِ عالم میں شہرہ ہوگیا ۔

انہوں نے اپنا اصلاحی تعلق حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے جوڑا ۔اور ان سے تصوف و سلوک کے سارے مراحل طے کرلیے ۔ان کی خدمت عالیہ میں رہ کر خوب علمی اور روحانی فیض حاصل کیا۔حضرت تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے چاہا کہ آپ کو خلافت سے نوازدیا جائے ،تو آپ نے ان کے نام خط لکھا کہ” میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کو خلافت دوں ،میں نے اس سلسلہ میں استخارہ بھی کرلیا ہے ۔اب کیا مشورہ ہے ..؟؟” تو انہوں نے جوابی مکتوب لکھنے کے بجائے خود وہیں حاضری دی ۔لیکن کچھ کہہ نہ سکے ۔آخر ایک دن ،خود حضرت تھانوی نے لکھا کہ” آپ نے میرے استشارہ کا جواب نہیں دیا ..؟؟ "اس پر انہوں نے جوابا تحریر کیا کہ ” حضرت والا کا مکتوب گرامی پڑھ کر قدموں تلے سے زمین نکل گئی ،کہاں میں اور کہاں یہ ذمہ داری ..؟؟ جب حضرت کے پاس جواب پہنچا کہ تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ الحمد للہ .! وہی جواب آیا، جس کی توقع تھی ۔اس کے بعد حضرت نے آپ کے کاندھوں پر بارِ خلافت ڈال دیا ۔

یہ دلفریب و دلکش حالات و واقعات ،مایہ ناز ادیب ،مؤرخ ،مفسر ،محقق ،مفکر ،مقرر ،مدرس ،مبلغ اور مصنف علامہ سید سلیمان ندوی صاحب رحمہ اللہ کے ہیں ،جنہوں نے 23 صفر 1306ھ مطابق 22 نومبر 1884ء بروز جمعہ المبارک اس جہان رنگ و بو میں آنکھ کھولی ۔آپ کا نام دادا حکیم محمدی صاحب نے انیس الحسن رکھا ۔آپ کی کنیت ابو النجیب تھی ۔بعد میں آپ کے اہل خانہ نے رنگون کے ایک نیک دل اور سمجھدار تاجر سے متاثر ہوکر” سلیمان” نام رکھ دیا ۔پھر آپ اسی نام سے مشہور ہوگے ۔آپ دادہیال کی طرف سے حُسینی ہیں ۔آپ کے والد مولانا سید ابوالحسن صاحب رحمہ اللہ ممتاز عالم دین اور شیخ طریقت تھے ۔وہ ریاست اسلام پور میں طبیب تھے ۔آپ کی والدہ ماجدہ بھی زہد و تقوی میں اپنی مثال آپ تہیں ۔آپ نے ابتدائی کتابیں مولانا سید ابوحبیب سے پڑہیں اور بنیادی تربیت، والدِ بزرگوار سے حاصل کی ۔1901ء میں ندوة العلماء میں داخل کرائے گے ،جہاں آپ نے پانچ سال رہ کر علوم و فنون میں مقامِ بلند حاصل کیا ۔

آپ کے گہر بار اور سیال قلم نے بہت سی کتابوں کو وجود بخشا ۔آپ کی متعدد کتب کو اللہ تعالی نے قبولِ عام نصیب فرمایا جیسے” سیرت النبی ،سیرت عائشہ ،ارض القرآن ،عرب و ہند کے تعلقات ،خیام ،حیات شبلی ،خطبات مدراس ،اور مضامین و مقالات وخطبات” ۔آپ نے اس کے ساتھ ساتھ شعر و سخن میں طبع آزمائی بھی کی ہے ۔اور آپ کے اشعار زبان زد عام ہیں ۔روضہ مبارک پر حاضری دی تو آپ کی طبیعت میں ان ولولہ انگیز اشعار میں ڈھلتی گئی ۔

اے زائرِ بیتِ نبوی یاد رہے یہ
بے قاعدہ یاں جنبشِ لب، بے ادبی ہے

آہستہ قدم، نیچی نگہ ،پست ہو آواز
خوابیدہ یہاں ،روحِ برسول عربی ہے

گج بجھ جائے ترے چھینٹوں سے ابرِ کرم آج
جو مرے سینہ میں مدت سے دبی ہے
اس نامور محقق اور مدبر نے 14 ربیع الاول 1373ھ مطابق 22 نومبر 1953ء بروز اتوار وفات پائی ….انا للہ و انا الیہ راجعون

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے