کیا عبدالعلیم خان پنجاب کے حقیقی وزیرِاعلیٰ ہیں؟

پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی اس کے ایک صوبے یعنی پنجاب میں آباد ہے اور ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کو مرکز میں حکومت بنانی ہو تو اسے پنجاب سے اچھی نمائندگی درکار ہوتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ پنجاب میں صوبائی سطح پر حکومت مل جائے تو نہ صرف مرکز میں حکومت کرنا آسان ہو جاتا ہے بلکہ ’اگلی باری‘ کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں سو پاکستان کے سیاسی نقشے پر پنجاب اس قدر اہم ہے۔

مسلسل دس برس اور حقیقی طور پر لگ بھگ 30 برس پنجاب پر پاکستان مسلم لیگ ن کا راج رہنے کے بعد صوبے کی حکومت اس مرتبہ عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف کو ملی ہے۔

پنجاب کے وزیرِ اعلٰی سردار عثمان بزدار صوبائی سیاست اور خصوصاً پاکستان تحریکِ انصاف میں نسبتاً نئے تصور کیے جاتے ہیں۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے ان کا انتخاب قدرے غیر متوقع تھا۔

ادھر صوبے کے سینیئر وزیر علیم خان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ وزیرِ اعظم عمران خان کے کافی قریب ہیں اور یہ کہ پنجاب میں حقیقی وزیرِ اعلی وہی ہیں۔

بعض سیاسی مبصرین کا بھی خیال ہے کہ عثمان بزدار کو محض سامنے رکھا گیا ہے جبکہ پسِ پردہ حقیقی طور پر تمام تر کام سینیئر وزیر علیم خان کر رہے ہیں۔

لاہور کی مال روڈ پر واقع وزیرِ اعلیٰ کے دفتر کے ایک کمرے ہی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر غلط ہے۔‘ تاہم انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس کئی اختیارات ضرور ہیں مگر وہ ’وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے مجھے دیے گئے ہیں۔‘

اس کی وضاحت انھوں نے ایک مثال سے کی۔ ’اگر میں آپ کو یہ ذمہ داری دے دوں کہ کل آپ وزارتِ بلدیات کے اجلاس کی صدارت کر لیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وزیر آپ بن گئے ہیں۔‘

اس لیے ان کا کہنا تھا کہ اگر ’وزیرِ اعلیٰ نے مجھے کہا کہ آپ ہنڈرڈ ڈے پلان (سو دن کا پلان) مانیٹر کر لیں یا آپ یہ جو محکمے ہیں ان کو بلا کر ان کی کارکردگی چیک کر لیں، یا یہ جو بیوٹیفیکیشن پراجیکٹ ہے یہ آپ کر لیں یا صاف ستھرا پنجاب جو ہے اس کی سر پرستی آپ کر لیں، تو یہ اختیارات تو مجھے وزیرِ اعلیٰ نے دیے ہیں، وہ مجھے نہ دیتے کسی اور کو دے دیتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جتنے اختیارات انھیں وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے منتقل ہوئے ہیں وہ وہی کر رہے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔

عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار اپنا کام کر رہے ہیں اور ’میں سمجھتا ہوں کہ نئے ہونے کے باوجود انھوں نے ایک ماہ کے اندر خود کو ایک اچھا منتظم ثابت کیا ہے۔‘

[pullquote]نیا بلدیاتی نظام[/pullquote]

تحریکِ انصاف کی حکومت کارکردگی دکھانے کے لیے بیتاب ہے تاہم حکومت کے ابتدائی دنوں میں زیادہ تر امور پر اس کی پالیسیاں تاحال واضح نہیں ہی۔ ہاں ایک معاملے پر اس کی سوچ کے خدوخال واضح طور پر سامنے آئے ہیں جو صوبہ پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام ہے۔

بی بی سی کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں پنجاب کی کابینہ کے سینیئر وزیر اور وزیرِ بلدیات عبدالعلیم خان نے بتایا کہ ان کی وزارت نے نئے نظام کے حوالے سے سفارشات کا مسودہ تیار کر لیا ہے جو رواں ہفتے منظوری کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان کو بھیج دیا جائے گا۔

سفارش کردہ طریقۂ کار کے مطابق نئے بلدیاتی نظام میں شہروں کے میئر مکمل بااختیار ہوں گے۔ دیہاتوں اور محلوں کے سطح پر کونسلیں قائم کی جائیں گی جبکہ ’بلدیاتی نمائندے انتظامی کے ساتھ ساتھ مالیاتی اختیارات بھی رکھیں گے۔‘

علیم خان نے بتایا کہ ’صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 30 فیصد بلدیاتی نظام کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کا بھی 33 فیصد دیہاتوں میں ویلج کونسل تو شہروں میں محلے کے سطح کی کونسل کو ملے گا۔‘

[pullquote]نئے بلدیاتی نظام کی ضرورت کیوں تھی؟[/pullquote]

عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کی ضرورت اس لیے تھی کہ گذشتہ حکومت نے ایک بلدیاتی نظام لاگو تو کر دیا تھا تاہم وہ خود اس پر یقین نہیں رکھتی تھی۔‘

’سابق وزیرِ اعلیٰ نے تمام تر اختیارات اپنے پاس رکھے۔ شہروں کے میئر مکمل طور پر بے اختیار تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کے بلدیاتی نظام میں ’بلدیاتی نمائندے انتظامی اور معاشی طور پر مکمل با اختیار ہوں گے۔ پہلی مرتبہ دیہات اور شہر میں محلے کی سطح پر کونسلیں قائم کی جائیں گی تا کہ عوام کو اپنے چھوٹے بڑے مسائل کے حل کے لیے دور نہ جانا پڑے۔

اس کے علاوہ میئر شہر کے تمام تر معاملات کا انچارج ہو گا اور تمام ادارے اس کے ماتحت کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میئر کو ووٹ کے ذریعے عوام خود منتخب کریں گے یعنی ’لاہور کے لوگ اپنا میئر خود منتخب کریں گے۔‘

[pullquote]ن لیگ کی برتری مٹانا مقصد ہے؟[/pullquote]

بعض سیاسی پنڈت مانتے ہیں کہ پنجاب میں پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے اسی چال کی توقع کی جا رہی تھی۔

پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت ن لیگ اور پی ٹی آئی کی نشستوں میں زیادہ فرق نہیں جو اس بات کا مظہر ہے کہ ن لیگ کو اب بھی کافی حد تک عوامی حمایت حاصل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ نیا بلدیاتی نظام لا کر اور بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈ دے کر تحریکِ انصاف نچلی سطح پر موجود ن لیگ کی اس پر برتری کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

اس پر عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ ’اگر چیئرمین یا میئر بااختیار ہوتا ہے تو یہ تو الٹا ان کے فائدے میں جاتا ہے۔ ہم ان سے کوئی اختیارات لینے تو نہیں لگے، ہم تو اپنے اختیارات ان کو دینے لگے ہیں۔ یہ تو ان کے فائدے کی چیز ہے، میرا نہیں خیال اس میں کسی کو بھی اعتراض ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کل کو جو میئر آئے گا وہ ن لیگ کا بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا تو نہیں کہ سارے میئر تحریکِ انصاف ہی کے ہوں گے۔‘

[pullquote]’اورنج لائن ٹرین چلے گی‘[/pullquote]

نئے بلدیاتی نظام کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور یہ کب تک لاگو ہو پائے گا، اس حوالے سے حکومتِ پنجاب تیار نظر آتی ہے تاہم کئی چند دیگر زیادہ گمبھیر معاملات ایسے ہیں جن پر کوئی جامع منصوبہ بندی تاحال سامنے نہیں آئی، جیسا کہ گذشتہ حکومت کے شروع کردہ منصوبے۔

لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین سمیت گذشتہ حکومت نے کئی بڑے منصوبوں کا آغاز کیا تھا جو اس کی مدت ختم ہونے سے قبل مکمل نہ پو پائے، ان کا مستقبل کیا ہو گا؟

صوبہ کو درپیش صاف پانی کے فراہمی جیسے دیگر مسائل پر پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

سابق حکومت کے شروع کیے گئے نامکمل منصوبوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ یہ منصوبے بند کیے جائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبے گذشتہ حکومت نے ’اپنی جیب سے نہیں، پنجاب کے عوام کے پیسوں سے شروع کیے تھے۔‘

لاہور میں اورنج لائن ٹرین پر زیادہ تر کام مکمل ہو چکا ہے تاہم جب سے ن لیگ کی حکومت کی مدت پوری ہوئی تب سے یہ منصوبہ جمود کا شکار ہے۔ علیم خان کا کہنا تھا کہ ’اورنج لائن ٹرین ضرور چلے گی‘ اور اس پر سواری کرنے والوں کو کرایے میں سبسڈی بھی دی جائے گی۔

’سبسڈی کے بغیر تو یہ چل ہی نہیں سکے گی۔ اب اس کا ٹکٹ اگر 500 روپے بنتا ہے تو عام آدمی تو وہ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ پر حکومت 300 ارب روپے کی مقروض ہے جبکہ دو سے تین ارب ماہانہ اس کو چلانے کا خرچ آئے گا۔

’اب مشکل یہ ہے کہ ہم اسے بند بھی نہیں کر سکتے جبکہ دوسری طرف اس کو چلانے کے لیے وسائل بھی نہیں۔ مگر ہم چلانے کے لیے مجبور ہیں۔‘

[pullquote]’چھوڑ بھی نہیں سکتے، مکمل کرنا بھی مشکل ہے‘[/pullquote]

پنجاب کی کابینہ کے سینیئر وزیر کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومت اس قدر منصوبے نامکمل اور قرض میں چھوڑ کر گئی ہے کہ اگر ان کی حکومت کوئی نیا منصوبہ شروع نہ بھی کرے تو صرف ان نامکمل منصوبوں کو مکمل کرنے میں انھیں چار سال لگ جائیں گے۔

انھوں نے بھکھی پاور پلانٹ کے منصوبے کی جانب اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لگ بھگ 100 ارب روپے کے اس منصوبے کے لیے 18 ارب حکومتِ پنجاب نے دینا تھا جبکہ 80 ارب مختلف بینکوں کی شراکت کی طرف سے آنا تھا۔

’60 ارب ہم پر قرض ہے، 14 ارب حکومت دے چکی ہے، چار ارب دینا ہے، مشینری بندرگاہ پر پڑی ہے، سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں۔‘

علیم خان کا کہنا تھا کہ ان میں زیادہ تر منصوبے غیر ضروری تھے جیسا کہ اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ۔ ان کا کہنا ہے کہ لاہور وہی شہر ہے جہاں کی 80 فیصد آبادی کو صاف پانی مہیا نہیں۔

’یہ وہی شہر ہے جس میں مریضوں کو ہسپتالوں میں بستر میسر نہیں۔ بچوں کی تعلیم ایک مسئلہ ہے، ایسے میں ہماری ترجیحات اورنج لائن جیسا منصوبہ نہیں ہو سکتا تھا۔‘

تاہم علیم خان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت اب مجبور ہے کہ وہ اورنج لائن جیسے منصوبے کو چلائے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس کو کس طرح ممکن بنایا جائے۔ کیا اس کے سٹیشنوں پر کوئی کاروباری سرگرمی کی جائے؟ اس حوالے سے منصوبہ بندی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کی حکومت اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ صرف گذشتہ حکومت پر سب ڈال دیا جائے تاہم عوام کے سامنے حقائق لانا بھی ضروری ہیں۔

ان کا دعوٰی تھا کہ جن معاشی حالات میں صوبہ انہیں دیا گیا ہے اس میں صوبے کی بقا بھی مشکل میں تھی۔ ’ہم جب آئے تو صوبائی حکومت کے 30 سے 36 ارب روپے کے چیک باؤنس ہوئے پڑے تھے۔ ایسی حالت میں ہمیں یہ صوبہ دیا گیا تھا۔‘

[pullquote]بشکریہ بی بی سی اردو[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے