انصاف کی بینائی تیزہوئی جاتی ہے

جی الیون جوڈیشنل کمپلیکس میں چار سے پانچ عدالتیں لگتی ہیں، اسی عمارت میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ریفرنسز کی سماعت ہو رہی ہے.

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف نیب نے ریفرنسز دائر کر رکھے ہیں جن کی سماعت احتساب عدالت روزانہ کی بنیادوں پر کر رہی ہے ، موجودہ وزیراعظم عمران خان پر پی ٹی وی پارلیمنٹ حملہ کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کوثر زیدی کر رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے دو ہزار چودہ کے دھرنے میں پی ٹی وی پر مبینہ حملے میں عمران خان، موجودہ صدر عارف علوی، اسد عمر، جہانگیر ترین، حلیم خان اور دیگر شامل ہیں

آج جوڈیشنل کمپلیکس کی اس بلڈنگ میں دونوں کیسز کی سماعت ہو رہی تھی ، انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پُکارا لگا ”سرکار بنام عمران خان وغیرہ” مگر نامزد ملزمان میں سے ایک بھی عدالت میں حاضر نہیں تھا ، عدالت نے عمران خان کو مستقل استثنیٰ دے رکھاہے، صدر عارف علوی کو صدراتی استثنیٰ ہے مگر دوسرے نامزد ملزمان پچھلی دو سماعتوں سے عدالت حاضر نہیں ہو رہے ، ملزمان کے معاون وکیل عدالت آتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں ، منصف بھی انھیں ایک ماہ کے وقفے کی تاریخ دے دیتے ہیں.

دوسری طرف فلیگ شپ ریفرنس میں پکارا لگا ”سرکار بنام میاں نواز شریف وغیرہ” تو عدالت میں اتفاق سے میاں نواز شریف اور ان کی وکلاء کی ٹیم موجود نہیں تھی ، معاون وکیل منور دوگل موجود تھے ، انھوں نے عدالت کو بتایا کہ کچھ کنفویزن کی وجہ سے میاں نواز شریف آج عدالت پیش نہیں ہو سکے ، اس پر جج نے شدید برہمی کا اظہار کیا.

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم میاں نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں، ان کے وکلاء عدالت کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں. جج نے کہا کہ اس کیس کی خاطر باقی سارے کیسز ملتوی کیے ہیں ، میں آپ کا سارا دن انتظار کرتا رہوں، وکیل صفائی کو پانچ منٹ کا وقت دیتا ہوں ، رابطہ کر کے مجھے اطلاع کریں، کیوں نہ میاں نواز شریف کی آج غیر حاضری لگائی جائے.حقیقت یہ ہے حقیقت وہ ہے یہاں کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں.

اس پر معاون وکیل نے کہا میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں پانچ منٹ کے وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو معاون وکیل نے کہا میاں نواز شریف سے میرا رابطہ ہوا ہے. وہ کہہ رہے ہیں کہ جج صاحب حکم کریں تو میں لاہور سے ابھی عازم سفر ہوتا ہوں اور تین گھنٹوں میں جناب کی عدالت میں پہنچ جاتا ہوں، اس پر جج صاحب کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور انھوں نے سماعت چار اکتوبر تک بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کر دی.

کہا جاتا ہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے یعنی سب کے لیے یکساں مگر لگتا یہ ہے کہ یہاں انصاف نے اپنا مخصوص پیمانہ مقرر کر رکھا ہے ، ایک سابق وزیراعظم اور ایک حاضر سروس وزیراعظم انصاف ہے مگر عدالتی پیمانہ دونوں کے لیے الگ الگ ہے، ایک روزانہ کی بنیادوں پر سماعت بھگت رہا ہے ، عدالت حاضر نہ ہو تو جھڑکیں کھانی پڑتی ہیں اور دوسرا عدالت حاضر نہ بھی ہو تو کچھ نہیں کہا جاتا، چار سال سے کیس زیر التواء ہے ، تاریخ پر تاریخ مل رہی ہے.

انصاف نے آنکھوں سے پٹی اتار لی ہے اور فیصلہ کر لیا ہے کہ سابق کی منجھی ٹھوکنی ہے اور حاضر سروس کی جی حضوری کرنی ہے . ملزم وہ بھی ہے اور یہ بھی لیکن کَسا صرف اُس کو جاتا ہے. یہ کیا ہے اور کیوں ہے؟ سوال تو اٹھتا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے