یہود و نصاریٰ اور مثنوی مولانا روم

پوری دنیا یہود و نصاریٰ کی عقلمندی، سمجھداری اور عیاری سے پوری طرح واقف ہے۔ ان دونوں نے شروع ہی سے اسلام اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے اور تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی ہے۔ انکی سازشیں عیاں ہوتی ہیں مگر اس وقت جب یہ اپنا مقصد حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔ ان کی عیاریوں اور سازشوں کی وجہ سے ہی ہمارے پیارے رسولؐ نے ان کو مکّہ، مدینہ سے دور کردیا تھا۔ کلام مجید میں سورہ المائدہ (5آیت 51)میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف حکم دیا ہے کہ، ’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بنائو۔یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا (یعنی کافر و مشرک)۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم (گنہگار) لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

حضرت عمرؓ کے دور کا مشہور واقعہ ہے کہ لوگوں نے ان کو شکایت بھیجی کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک یہودی کو مالیات کا سربراہ لگا دیا ہےوہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ آپؓ نے فوراً ہدایت بھیجی کہ اس کو ہٹا کر کوئی مسلمان تعینات کردیا جائے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا خط آیا کہ انھوں نے تلاش کیا مگر کوئی اچھا آدمی نہ ملا اس لئے اُس کو ہی کام کرنے دے رہے ہیں۔ یہ خط پڑھ کر حضرت عمرؓ غصّہ میں آگئے اور لکھا کہ اب لوگوں کی جرأت ہو گئی ہے کہ وہ امیرالمومنین کے احکامات کو نظرانداز کرکے اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں اور آگے لکھ دیا کہ یہودی فوت ہوگیا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو اب جرأت نہ ہوئی کہ حکم عدولی کرسکیں۔

یہودی کو ہٹا کر ایک مسلمان لگادیا اور اس نے بہت اچھے طریقےسے فرائض ادا کئے اور عوام بے حد خوش ہوگئے۔

دیکھئے اس دوستی میں ہم نے ترکی حکومت کو نقصان پہنچایا اور عرب دنیا اب تک ان کی غلام بنی ہوئی ہے اور فلسطین اور کشمیر وغیرہ کے تنازعات کے شکار ہیں۔ پچھلے 24 سال میں تین امریکی صدور کے ادوار میں 9 مسلم ممالک پر حملے ہوئے اور 11 ملین مسلمان شہید کردیئے گئے۔ ابھی حالیہ مثا ل شام کی ہے۔ آپ سوچئے کہ ہزاروں کلومیٹر دور ممالک امریکہ، فرانس اور انگلستان کو شام کی اندرونی سیاست سے کیا خطرہ ہے؟ خطرہ ان کو نہیں بلکہ ان کا پروردہ اور حواری اسرائیل چاہتا ہے کہ اسکے تمام پڑوسی اس کے غلام رہیں اور کمزور رہیں۔ انہی پالیسیوں کی وجہ سے ہم نے وسط ایشیا کے ممالک کھوئے، ہم نے اسپین کی حکومت کھوئی اور اس وقت جتنے مسلم ممالک ہیں (سوائے ایران، ترکی کے) وہ کم و بیشتر انہی کے غلام ہیں۔ جتنے اہم مالیاتی ادارے ہیں وہ ان کے قبضہ میں ہیں، ذرائع ابلاغ اور تعلیمی اداروں پر وہ پوری طرح مسلط ہیں ۔ اور اللہ کا عتاب ایسےلوگوں پر ہے اور اس کا یہ فرمان ہے۔

’’بہرے، گونگے اور اندھے ہیں پس یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آسکتے، بہرے گونگے اندھے ہیں پس یہ دیکھ نہیں سکتے، بہرے اندھے ہیں پس یہ سمجھتے نہیں، اور ہم نے ان کے آگے ایک دیوار بنا دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے پھر اوپر سے ان کو ڈھانک دیا ہے پس وہ کچھ دیکھ ہی نہیں سکتے‘‘۔

لوگوں نے ہٹلر سے ایک بیان منسوب کیا ہے کہ ’’اگر میں چاہتا تو ایک یہودی کو زندہ نہ چھوڑتا مگر میںکچھ کو چھوڑ رہا ہوں کہ لوگ ان کی حرکات، اعمال دیکھ کر جان لیں کہ میں نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ہے‘‘۔

ایسی اہم بات مولانا جلال الدین رومیؒ سے کس طرح پوشیدہ رہ سکتی تھی۔ آپ نے اپنی مشہور زمانہ مثنوی میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح ایک یہودی وزیر نے عیسائیوں کے سرداروں میں پھوٹ ڈال کر ہزاروں لوگ مَر وادیئے۔ کچھ لوگ مثنوی مولانا روم کو فارسی زبان میں (نعوذ باللہ) قرآن مجید کہتے ہیں اور اسے الہامی کتاب کا درجہ دیتے ہیں جو بالکل مناسب نہیں۔ ہمارے پیارے رسولؐ خاتم النبیین تھے اور قرآن مجید آخری الہامی کتاب نازل کی گئی تھی ۔ آپ اس کو صوفیانہ کلام کہہ سکتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کے علامہ اقبالؒ کا کلام ہے۔ اب یہودی وزیر کا واقعہ تحریر کرتا ہوں۔ یہ میں نے بشکریہ ’’سُبک سیل مثنوی‘‘ از اسکواڈرن لیڈر (ر) ولی الدین المعروف بہ حضرت والی بھائی (والد محترم ایئرمارشل علی الدین صاحب) سے مستعار لی ہے۔

’’یہودیوں کے وزیر کا حسد۔ حاسد اپنے زہر سے دوسرے کی روح کو برباد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بالآخر ذلیل ہوتا ہے۔ حاسد بوئے دوست سے محروم رہتا ہے۔ (البتہ) وہ وزیر تو ایسا تھا کہ اس کے خمیر میں حسد بھرا پڑا تھا۔ اور باطل سے اس کی آنکھیں اور کان بھرے پڑے تھے یہاں تک کہ اس امید سے کہ اس کے حسد ڈنک سے آخر کا زہر مسکینوں کی جان میں پہنچے اور ان کی روح تک کو برباد کردے۔ لیکن بات یہ ہے کہ جو کوئی حسد سے دیکھنے کی عادت ڈال لے تو اس کے ناک اور کان ضرور کٹتے ہیں۔

ناک تو ایسی ہونی چاہئے جو محبوب کی بو سونگھ کر اس خوشبو کے ساتھ اسکے کوچے تک پہنچ جائے اور جس میں یہ بو سونگھنے کی صلاحیت نہ ہو وہ تو ایسا ہے کہ جیسے اس کی ناک ہی نہیں اور بو تو وہ بو ہے کہ وہی محبوب سے لگائو اور دین عشق کی بنیاد ہو جس نے بھی یہ بوئے پیرہن یوسف سونگھی اور اس کا شکر نہ کیا تو یہی کفران نعمت ہو کر محبوب سے بے بہرہ ہو کر اس کی ناک لے گیا۔ شکر کر اور شاکروں کا غلام ہوجا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو خود محبوب ہوتے ہیں یا محبوب کی بو خود بن جاتے ہیں ایسے زندۂ جاوید اور انوار حق سے پُر لوگوں کے آگے مرکر فدا ہو کر عمر جاوداں پاجا۔

نصاریٰ کا وزیر کے مکر کو سمجھ لینا۔ بدطینت کی بات بھی بد ہوتی ہے، حلوے میں لہسن، قند میں زہر یا خباثت اور گندگی سے آلودہ ہے۔ دین میں خود پرستی جمعیت کی بربادی کا باعث ہوتی ہے۔ مکار وزیر کی طرح رہزنی کا دم حکمت بھر کہ ہر مکرو غرور کا سر بالآخر نیچا ہوتا ہے تو لوگوں کو نماز اور نیکی سے مت روک ۔وہ کافر وزیر دین کا ناصح بن کر اپنامکر چلا رہا تھا کہ گویا فریب سے حلوے میں لہسن ملا رہا تھا جو صاحب ذوق لوگ تھے وہ اس کی باتوں میں لذت تو دیکھتے تھے لیکن تلخی سی بھی معلوم ہوتی تھی۔

وہ ایسے ملا ملا کردے رہا تھا ،نکتے بیان کرتا تھا کہ جیسے قند میں زہر ملا ملا کر دے رہا تھا تم ایسی باتوں پر مغرور اورنازاں نہ ہو جن کے پس پردہ سینکڑوں برائیاں ہوں جو بری طینت والا شخص ہو اس کی باتوں کو بھی برا مانو۔ وہ جو بھی کہتا ہے ایسا ہے جیسے کہ مردہ کی باتیں مگر مردے کی باتوں میں کیا زندگی ہو۔انسان کی بات تو ایسی نوعیت رکھتی ہے جیسے کہ اسکے ہی جسم کا حصہ ہو یا جیسے کہ روٹی کا ٹکڑا اسی مزے کا ہوتا ہے جیسا کہ پوری روٹی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ جاہل کی بات سے بھاگو یہ ایسے ہے کہ جیسے گھوڑے کے اوپر سبزہ۔ اب جو کوئی اس سبزہ پر بیٹھے گا تو یقینا وہ نجاست پر بیٹھا۔ لہٰذا اس کو اپنے فریب کی جاہلانہ بات کی گندگی سے پاک کرنا چاہئے تاکہ اس کی (محبت و خلوص کی) فرض نماز ضائع نہ ہو۔

[pullquote] (جاری ہے)[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے