ملک میں ریاستی اداروں کی جانب سے غیر اعلانیہ سینسرشپ کی وجہ سے آزادی اظہار شدید خطرے میں ہے۔پی ایف یو جے

پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے ایک بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ ملک میں ریاستی اداروں کی جانب سے غیر اعلانیہ سینسرشپ کی وجہ سے آزادی اظہار شدید خطرے میں ہے۔

ادھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بدھ کو قومی اسمبلی میں بحٹ پر اپنے خطاب میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ پی ایف یو جے نئے پاکستان میں میڈیا کی آزادی سلب کیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہمیں اختلاف رائے اور تعمیری تنقید برداشت کرنا سیکھنا چاہیے۔ جب ہم اختلاف کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑتے تو ہم ترقی کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑتے۔‘

بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں سوال اٹھایا کہ کیا حکومت آزادی اظہار کی ضمانت دے گی؟

پی ایف یو جے کی ایگزیکٹیو کونسل کے ایبٹ آباد میں تین روزہ اجلاس کے بعد جاری ایک تفصیلی اور سخت بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی نئی حکومت کا اس غیراعلانیہ سینسرشپ میں کوئی کردار نہیں لیکن اس کی خاموشی اس کے اس میں شامل ہونے کا اشارہ دیتی ہے۔ اس کے مطابق اس غیراعلانیہ سینسرشپ کے خلاف بیرون اور اندرون ملک احتجاج کے باوجود یہ خاموشی معنی خیز ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کے دستخط سے جاری اس بیان میں کہنا تھا کہ نئی حکومت اس مسئلے کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے اور ان اداروں سے اس پر بات نہیں کر رہی ہے جو ایک منصوبہ بندی کے تحت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دھونس، اشتہارات پر کنٹرول، ہراسیت اور یہاں تک کہ صحافیوں پر حملوں کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میڈیا ماہرین کے خیال میں یہ اب تک کا تنظیم کا اس موضوع پر سب سے زیادہ جامع بیان ہے۔

بیان کے مطابق ریاستی اداروں نے میڈیا کو قابو میں رکھنے کی خاطر اپنے ’فرنٹ مین‘ کے ذریعے کئی ریڈیو اور ٹی وی سٹیشن قائم کئے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نجی چینلوں اور اخبارات میں اپنے لوگ بھی بھرتی کروائے ہیں۔ یونین نے شکایت کی کہ چھاؤنی کے علاقوں میں قومی اخبارات کی تقسیم میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں جبکہ بڑے چینلوں کو کیبل آپریٹروں پر دباؤ کے ذریعے روکا جا رہا ہے جس کا مقصد میڈیا ہاؤسز کو ان ہتھکنڈوں کے ذریعے کنٹرول کرنا ہے۔

دو صفحات پر مبنی اس بیان میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ صحافیوں کو بلوچستان اور سابق قبائلی علاقوں میں آزادانہ طور پر رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے اور انھیں سکیورٹی کے نام پر تشدد کے شکار علاقوں سے دور رکھا جا رہا ہے۔

’پاکستان میں درجنوں صحافیوں پر حملے ہوئے ہیں، انہیں ہراساں اور کئی ایک کو قتل بھی کیا گیا ہے لیکن ان میں ملوث کسی بھی شخص کو خفیہ ادارے بھی تلاش یا گرفتار نہیں کرسکے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے پولیس حملوں کی تحقیقات سے انکار کر دیتی ہے۔‘

اجلاس نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ان حالات کی وجہ سے پاکستان میں مزاحمتی صحافت بھی دم توڑ رہی ہے کیونکہ صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز نے ریاستی اداروں کے غصے سے بچنے کی خاطر سیلف سینسرشپ شروع کر دی ہے۔ اجلاس نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کے کارپورٹائزیشن کی وجہ سے مالکان نے بطور ایڈیٹرز یا چیف ایڈیٹر کے نیوز رومز کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اس وجہ سے مدیر کا اہم عہدہ جو میڈیا کی آزادی میں اہم کردار ادا کرتا تھا اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

پی ایف یو جے نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں مزاحمت بھی بند ہوچکی ہے۔ اسی طرح پارلیمان نے جو سیاسی طور پر منقسم ہے بھی مزاحمت کرتے ہوئے آزادی اظہار کے دفاع میں حکومت پر دباؤ ڈالنا چھوڑ دیا ہے جس کی کمی نے جمہوریت کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ ’یہ پارلیمان کے اپنے فائدے میں ہے کہ وہ اپنی اجتماعی آواز اٹھائے۔‘

بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ صحافی خاص طور پر اور معاشرہ عمومی طور پر بندوق برداروں یا مذہبی جنونیوں سے خوفزدہ ہے اور عدلیہ سے امیدیں توڑ چکا ہے جس نے صحافتی برداری کو کوئی ریلیف نہیں دیا ہے۔

تنظیم کے مطابق ان وجوہات کی بنا پر معاشرے میں عدم برداشت، انتہا پسندی اور عسکریت پسندی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ایک صحافی کا کام مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

پی ایف یو جے کا اصرار تھا کہ آزادی اظہار محض صحافیوں کی جنگ نہیں بلکہ پورے معاشرہ کا مسئلہ ہے۔ پی ایف یو جے نے پارلیمان میں تمام موجود سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ میڈیا کو خطرات کا جامع جائزہ لینے کے لیے دونوں ایوانوں کے نمائندوں پر مشتنل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ یہ کمیٹی فریقن کو طلب کرکے ان کی شکایات سنے۔ یونین نے اس امید کا اظہار کیا کہ سیاسی جماعتیں اس مسلہ کو سنجیدگی سے لیں گی۔

یہ بیان بظاہر ایسے ریاستی اقدامات کے تناظر میں جاری کیا گیا ہے جن میں صحافیوں کے خلاف وارنٹ جاری کرنا اور ٹی وی چینلز پر پابندیاں شامل ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ نے ایک کیس میں روزنامہ ڈان کے صحافی سرل المیڈا کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انھیں بھی آٹھ اکتوبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں یہ الزام لگایا گیا عام انتخابات سے چند روز قبل روزنامہ ڈان کے نمائندے سرل المیڈا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف مبینہ طور پر ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے مرتکب ٹھہرے تھے۔

اس کے علاوہ عدالتِ عظمیٰ میں میڈیا کارکنوں کو نتخواہوں کی عدم ادایگی اور ٹی وی چیلنز کے حوالے سے جاری ہونے والی ریٹنگز کے معاملات پر بھی سماعت جاری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے