سی پیک ۔۔۔ کیا عمران خان کی پالیسی درست ہے؟

کیا عمران خان کی حکومت سی پیک پر درست فیصلے کر رہی ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ نا تجربہ کاری یا نا دانستگی میں وہ کچھ ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے جو پاک چین دوستی پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں ؟ کیا پاکستان نے چین سے مشاورت کیے بغیر سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کر لیا ہے اور کیا چین ہمارے اس یک طرفہ قدم سے کچھ خفا تو نہیں ہو گیا ؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کی ان پالیسیوں کی وجہ سے سی پیک کا مستقبل مخدوش ہوتا جا رہا ہے اور امکانات کا ایک در جو پاکستان کے لیے کھلا تھا وہ بند ہو نے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہو ؟ گذشتہ چند روز سے یہ سوالات سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھے جا رہے ہیں اور یہ سرگوشیاں اب دھیرے دھیرے بلند ہوتی جا رہی ہیں ۔ مناسب ہو گا ہم ان تمام سوالات کا ٹھنڈے دل سے ، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ، صرف ایک پاکستانی کے طور پر جائزہ لیں۔

نواز شریف صاحب کے دور حکومت میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا سی پیک کی تفصیلات کیا ہیں ۔ ایک ابہام رکھا گیا ۔ اب خدا جانے یہ ابہام بد نیتی پر مبنی تھا یا نہیں لیکن یہ طے ہے کہ خود اراکین پارلیمان سے سی پیک کے بارے میں کچھ پوچھا جاتا تو وہ بے بسی سے کہتے کہ آپ کو کیا بتائیں حکومت خود ہمیں کچھ نہیں بتاتی ۔ سی پیک ایک اکنامک کاریڈور تھا ، یہ اکنامک کو آپریشن نہیں تھا ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت جو بھی ہونا ہے اس کا مرکزو محور وہی کاریڈور ہی ہونا تھا ۔ لیکن ہوا کیا ۔ کاریڈور سے کہیں دور لاہور میں اورنج ٹرین شروع کروا دی گئی ۔ اس پر شور اٹھا تو غلط بیانی کی گئی کہ اس پر پاکستان کا تو کچھ خرچ نہیں آ رہا یہ تو چین کا خرچہ آ رہا ہے ۔ حقائق مگر اس کے بر عکس تھے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس پراجیکٹ کا ابتدائی تخمینہ لاگت 1 ہزار 600 ملین ڈالر ہے اور اس میں سے 1 ہزار 300 ملین ڈالر کا قرض چین سے لیا گیا ہے ۔ یہاں مت بھولیے کہ ایک ملین میں دس لاکھ ہوتے ہیں ۔ ایک ہزار تین سو ملین کو دس لاکھ سے ضرب دیجیے۔ یہ ایک ارب تیس کروڑ ڈالر بنتے ہیں۔اس وقت ڈالر کی قیمت 127 روپے ہے تو گویا یہ ایک کھرب پینسٹھ ارب اور دس کروڑ روپے کا قرض ہو گیا ۔ ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کے اس قرض پر چین کو کتنا سود دینا ہہو گا کہیں پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال مل جائیں تو ان سے یہ بھی معلوم کر لیجیے اور پھر بیٹھ کر سوچیے کہ یہ اورنج ٹرین قوم کو کتنے میں پڑی ۔

اب آگے بڑھیے۔ سی پیک میں پاکستان میں چین کے ساتھ معاہدہ کیا کہ چین پہلے سے موجود ریلوے ٹریک کو بہتر یعنی اپ گریڈ کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ ایک نیا ٹریک بھی بنائے گا ۔ یہ کام فی سبیل اللہ نہیں ہونا تھا ۔ قرض کی شکل میں ہمیں یہ سب مع سود لوٹانا تھا ۔ اب عمران کی حکومت آتی ہے۔ چین بہت اچھا دوست ہے لیکن یاد رکھیے قوموں کی دوستی لیلی مجنوں کی کہانی نہیں ہوتی ۔

یہ باہمی مفادات پر مبنی ہوتی ہے۔ ابھی ہماری معاشی حالت سب کے سامنے ہے۔ کیا چین نے ہمیں کہا کہ سی پیک کی وجہ سے امریکہ اور آئی ایم ایف ناراض ہیں تو چلیے یہ دس ارب ڈالر ہم سے لے لیں ۔ نہیں کہا اور ہمیں کوئی شکوہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن معاملے کو سمجھنے کے لیے حقائق کا علم ضرور ہونا چاہیے۔ اب حکومت نے چین سے کہا کہ پہلے مرحلے میں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اپ ریلوے کا پرانا ٹریک اپ گریڈ کر دیں ۔ نیا ٹریک فی الحال نہ بنائیں کیونکہ ہم ملک پر قرض کا مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ دوسرے مرحلے میں ضرورت پڑی تو اس پر کام کیا جا سکتا ہے۔ زمینی حقائق کی روشنی مین ایک سادہ سی بات تھی ، اس میں نہ کوئی الجھاؤ تھا نہ کوئی جھگڑا نہ ہی ناراضی ۔

کل کو قرض کے بلا وجہ کے بوجھ تلے دب کر چین سے تناؤ پیدا کر لینے سے بہتر تھا آج اس سے باوقار انداز میں جائز تحفظات شیئر کیے جائیں ۔ یہ کام صرف ہم نے نہیں کیا ۔ مہاتیر محمد بھی اپنے انداز سے یہ کام کر چکے۔ قرض کے باب میں بے احتیاطی کا ایک نتیجہ ہم پہلے ہی بھگت رہے ہیں دوسرا سری لنکا کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ چنانچہ چین سے بات کی گئی اور اطلاعات یہ ہیں کہ چین نے پاکستان کی ان باتوں کو تسلیم کر لیا ۔ چین کے جائز مفادات کو نقصان پہنچائے بغیر پاکستان اپنے جائز مفاد کی بات کرے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ یہ معاہدے ابتدائی مرحلے ہی میں نظر ثانی کے عمل سے گزر جائیں تو کیا غلط ہے۔

یاد رہے کہ بعد میں یہ گلے پڑ جاتے ہیں جیسے قطر کے ساتھ کیا گیا خفیہ معاہدہ یوں گلے پڑا ہے کہ اسے منظر عام پر بھی نہیں لایا جا سکتا ۔ قطر نے صرف اتنی گنجائش دی ہے کہ پاکستان کے جائز تحفظات پر بات کر لیتے ہیں ۔ گویا یہ بات قطر بھی مان رہا ہے کہ اس خفیہ معاہدے میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن پر پاکستان کو جائز تحفظات ہو سکتے ہیں ۔ تماشا دیکھیے آج کوئی اس بات پر شرمندہ نہیں کہ اس نے ایک ملک سے ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا بلکہ عمران پر فقرے اچھالے جا رہے ہیں کہ ہم نے جو خفیہ معاہدہ کیا تھا ذرا ااسے منظر عام پر لا کر تو دکھاؤ ۔ قطر ناراض نہ ہو جائے تو کہنا۔

چینی وزیر خارجہ پاکستان آئے اور پھر یہ خبر آ گئی کہ پاکستان سی پیک میں اب ایک تیسرے ملک کو بھی شامل کر رہا ہے اور وہ سعودی عرب ہے ۔ یہاں احسن اقبال نے سوال اٹھا دیا کہ کیا چین کو اعتماد میں لیا گیا ہے ؟ احسن اقبال صاحب کی بصیرت اور معاملہ فہمی اس بچگانہ سوال سے ہی عیاں ہو جاتی ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سی پیک میں سعودی عرب کا شامل کرنے کا فیصلہ چین کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا ہو؟ اس سوال سے گویا انہوں نے یہ تاثر دیا کہ چین اس پیش رفت سے ناراض ہے۔

سعودی عرب کا اس میں بلاو اسطہ یا بالواسطہ کسی بھی شکل میں شامل ہونا ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور چین کا سرکاری اخبار ’ چائنہ ڈیلی ‘ جو سٹیٹ کونسل انفارمیشن آفس اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی ملکیت ہے اس معاہدے کو غیر معمولی کامیابی قرار دے رہا ہے ۔ لیکن احسن اقبال یوں تاثر دے رہے تھے کہ سی پیک گویا مسلم لیگ ن کی ذیلی برانچ ہے اور ان سے پوچھے بغیر اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔

سعودی عرب اگر گوادر میں آئل سٹی پراجیکٹ میں شامل ہوتا ہے تو چین سے زیادہ کون خوش ہو گا ۔ چین کے لیے مزید راہیں کھلیں گی ۔ مت بھولیے کہ چین دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے ۔ یہ حیران کن فیصلہ سعودی عرب نے یونہی نہیں کر دیا کہ چین پٹرول خریدنا چاہے تو امریکی ڈالر میں ادائیگی ضروری نہیں چینی یوآن قابل قبول ہو گا ۔ یہ پٹرو ڈالر کے لیے معمولی دھچکہ نہیں ۔ دونوں ملک پہلے ہی معاشی قربت میں ہیں ۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ گوادر میں سعودی عرب کے آ جانے سے ایران ناراض ہو گا اور سی پیک کے لیے مقامی خطرات بڑھ جائیں گے۔ ایران میں چین کی سرمایہ کاری کا حجم غیر معمولی ہے ۔ ایران کے لیے ممکن ہی نہیں وہ کسی ایسے ایڈ ونچر کا ھصہ بنے جو چین کے مفادات کے لیے خطرہ بنے۔

اس وقت خطے میں غیر معمولی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ۔ کل تک روس ہمارا دشمن تھا آج ماحول بدل چکا ہے ۔ امکانات کی ایک دنیا پیدا ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی چیلنجز بھی غیر معمولی ہیں ۔ ہمیں قطر اور سعودی عرب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور پھر چین اور امریکہ کو ساتھ لے کر چلنا ہے ۔ ایران اسرائیل کا دشمن ہے اور بھارت اسرائیل کا دوست لیکن ایران چاہ بہار میں بھارت کو لا بٹھاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو ایک شور اٹھ جاتاہے گوادر میں سعودی عرب کے آنے سے ایران ناراض نہ ہو جائے، کیا کبھی ایرانی میڈیا میں بھی کسی نے کہا کہ چاہ بہار میں بھارت کے آنے سے پاکستان ناراض نہ ہو جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے