کیا فقہ اسلامی عورت کو انسان تسلیم کر سکتی ہے؟

​بدلتے حالات اور ارتقاء پذیر اجتماعی شعور دو ایسے عوامل ہیں جو ہر قوم اور ہر معاشرے کو اپنے قانونی ضابطوں پر نظر ثانی اور ترمیم و تجدید پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔ ترمیم اور تجدید کا یہ عمل دراصل ایک جاری مشق ہے جو اگر زمانے کے کسی بھی موڑ پر رک جائے یا اس کی رفتار زمانے کی رفتار سے کم ہو جائے تو پوری قوم تنزل کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس تناظر میں اٹھارویں صدی عیسوی کو بڑی تبدیلیوں کے آغاز کی صدی مانا جاتا ہے کیونکہ 1760 میں صنعتی انقلاب کی ابتدا کے ساتھ ہی زرعی سماج کے اخلاقی و قانونی ضابطے ٹوٹنے لگے تھے۔ آقا و رعایا، حاکم و محکوم اور مالک اور غلام جیسی اصطلاحات اور ان کے پس پردہ کارفرما نظریات فرسودہ اور ناقابل عمل قرار پائے تھے۔ انسانیت کا اجتماعی شعور نئے افکار کی بہار تازہ لے کر آیا تھا۔ جس کی روشنی میں اقوام عالم نے آہستہ آہستہ فرد کی آزادی اور مرد و زن کی برابری کو تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا۔ سیاسی، سماجی، تجارتی اور عائلی الغرض ہر معاملے میں عورت کی برابر حیثیت کو تسلیم کیا جانے لگا تھا۔ یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے عورت نے مرد کی بالادستی کو زندگی کے ہر شعبے میں چیلنج کرتے ہوئے اپنے حق میں قانون سازی کی کامیاب جدوجہد بھی شروع کر دی جس کے نتیجے میں ان معاشروں نے جن میں عورتوں کو حقوق ملے، نہ صرف یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں حیرت انگیز ترقی کی بلکہ ایک بہتر عائلی نظام بھی کھڑا کر دیا۔ بدقسمتی سے مسلمان معاشرے تبدیلی کے اس سفر میں دیگر اقوام کا ساتھ نہیں دے پائے چنانچہ آج اکیسویں صدی بھی مسلمان بالعموم سماجی و عائلی مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نکاح اور طلاق کا معاملہ اس تناظر میں بطور مثال سامنے رکھا جا سکتا ہے۔

​مہذب معاشروں میں نکاح یا شادی کو دو باشعور انسانوں کے مابین طے پانے والے سماجی معاہدے کی حیثیت حاصل ہے جبکہ مسلمان معاشروں میں نکاح مذہبی حدود و قیود کے ساتھ طے پانے والا ایک تجارتی معاہدہ ہے۔ مہذب دنیا میں نکاح و طلاق کے باب میں مرد و عورت دونوں کو برابر حقوق حاصل ہیں جبکہ مسلمانوں کے ہاں اس باب میں تمام تر اختیارات کا مالک فقط مرد ہے۔ مسلمان معاشرے میں عورت کو، جو نکاح جیسے اہم سماجی معاہدے میں باقاعدہ فریق ہے، فقط (Property) کی حیثیت سے برتا جاتا ہے۔ اور اس کی وجہ صدیوں پرانا ہمارا فقہی ڈھانچہ ہے۔ مسلمان اہل علم بدلتے حالات اور ارتقاء پذیر اجتماعی شعور کا ساتھ دینے کی بجائے اسی پرانے فریم ورک پر عملدرآمد کو ترجیح دیتے ہیں، جو زرعی و جاگیری سماج کی دین ہے۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ قوموں کی عزت اسی میں ہے کہ وہ اپنے علمی ماضی سے ناتا جوڑے رکھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ماضی کے ساتھ ناتا برقرار رکھنے اور ماضی پرستی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ماضی کے ساتھ ایک جاوداں رشتہ اگر قوموں کو سرفراز بناتا ہے تو ماضی کی پرستش زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دینے والا وہ راستہ ہے جس کا انجام مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ قرون وسطی کے زرعی سماج میں تشکیل پانے والا فقہی فریم ورک (Islamic Jurisprudence) بلاشبہ مسلمان اہل علم کی ایک اہم علمی و فکری کاوش ہے مگر کیا ہمیں آج بھی قانون سازی کا عمل اسی فریم ورک کے اندر رہ کر کرنا چاہیے یا اس میں ضروری ترمیم و تجدید کی طرف جانا چاہیے، ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب جاننے سے پہلے وہ فلسفیانہ بنیادیں مدنظر رکھنی ہوں گی جن کے زیر اثر فقہ اسلامی کی تشکیل ہوئی تھی۔
​نکاح کو بطور مثال لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ فقہ کی کتابوں میں نکاح کے عمل کو (Proprietary Approach) کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔

نکاح کے معاہدے میں فقہاء نے عورت کو (Property) سمجھا ہے اور جس طرح کسی بھی تجارتی لین دین میں فروخت ہونے والی اشیاء کی خوبیاں اور خامیاں گنوائی جاتی ہیں بالکل اسی طرح عورت کے (Attributes) نکاح نامے میں ذکر کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں عورت کی ایک اہم عامل ہے۔ مسلمان فقہاء نے عورت کی دوشیزگی کے بیان کے لیے مخصوص اصطلاحات بھی وضع کی ہیں۔ مثال کے طور پر لڑکی کی پہلی شادی کے وقت نکاح نامے میں دوشیزگی کے بیان کے لیے لکھا جاتا تھا کہ وہ "بکر فی الحجر” (Virgin under Guardianship) ہے یعنی لڑکی والد یا کسی دوسرے سرپرست کی زیر نگرانی رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی دوشیزگی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایسے نکاح کے بعد اگر لڑکی کی دوشیزگی میں کوئی نقص سامنے آ جائے یعنی شادی کے اگلے روز شوہر یہ دعوی کرے کہ لڑکی Virginنہیں ہے تو اسے تجارتی مال میں نقص کی طرح "عیب” (Defect) سمجھا جائے گا۔ جس کی وجہ سے عورت کی مہر میں کمی کرنے کے ساتھ ساتھ شوہر کو اس بات کا حق بھی حاصل ہو جائے گا کہ وہ چاہے تو نکاح کو جاری رکھے اور اگر چاہے تو ختم کر دے۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، فقہاء نے دوشیزگی کے عدم اور وجود کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ اگر شوہر شادی کے اگلے دن دعوی کرے کہ اس کی بیوی کی دوشیزگی (Virginity) پہلے سے زائل تھی جبکہ عورت کہے کہ اس نے شادی سے پہلے کسی کے ساتھ ہمبستری نہیں کی تو قاضی فیصلہ کرنے کے لیے تجربہ کار عورتوں یا دائیوں کی مدد لیتے تھے جو لڑکی کا فزیکل چیک اپ کر کے حقائق بتاتی تھیں۔

کیا کوئی بھی انسان اس امر کی وضاحت کر سکتا ہے کہ مزعومہ جسمانی جانچ پڑتال کیونکر یہ ثابت کر سکتی تھی کہ آیا شوہر سچ بول رہا ہے یا بیوی؟ لیکن شوہر کو اس سب کے باوجود یہ حق حاصل ہو جاتا تھا کہ وہ نہ صرف یہ کہ عورت کے مقررہ مہر میں کمی کر دے بلکہ چاہے تو نکاح کو جاری رکھے اور چاہے تو اسے ختم کر دے۔

​یہ بعینہ وہی صورت ہے جو ہم مارکیٹ سے کسی بھی قسم کی خریداری کے دوران اختیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آئی ٹی مارکیٹ سے لیپ ٹاپ خریدنا اور نکاح کرنا ایک جیسا عمل ہے۔ اگر ایک دکاندار نے لیپ ٹاپ فوخت کرتے وقت بتایا کہ اس میں Core i7 پروسیسر لگا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کا پروسیسر تو Core i3 ہے تو لازم ہو گا کہ دکاندار قیمت فروخت میں کمی کرے اور اگر خریدار چاہے تو اسے لیپ ٹاپ واپس کرنے کا حق بھی حاصل ہو گا۔ اسی طرح نکاح کا عمل بھی دراصل لڑکی کی دوشیزگی نان نفقہ اور مہر کے عوض شوہر کو بیچنے کا عمل ہے۔ جس میں کہیں بھی کسی بھی جگہ عورت کا، اس کے حقوق کا بلکہ اس کو بطور انسان برتنے کا ہلکا سا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ مسلمان فقہاء کے نزدیک عورت فقط ملک (Property) کی حیثیت رکھتی ہے نہ اس سے زیادہ اور نہ ہی کم۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء شوہر کو "مالک بضعۃ” کہتے ہیں۔ اسی بنا پر عورت کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے کہ وہ شوہر کو "خوش” رکھے اور اس کے "جنسی مطالبات” سے کبھی انکار نہ کرے۔ کتاب الام میں امام شافعی لکھتے ہیں:

"شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو نان نفقہ دے اور شوہر کا حق ہے کہ وہ بدلے میں اس سے تمتع (Deriving Pleasure) کرے”۔

بیوی کے لیے شوہر کے جنسی مطالبات پورے کرنا کس قدر ضروری ہے، یہ جاننے کے لیے مشہور حنفی فقیہ امام احمد بن عمرو الخصاف کے یہ الفاظ لکھنا کافی ہو گا۔ ان سے پوچھا گیا کہ اگر عورت کے پاس نوکر نہ ہو اور اس کا گزران شوہر کے نان نفقے پر ہوتا ہو تو کیا اپنے لیے کھانا خود بنانا بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہو گا؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ "اگر عورت نہ کرنا چاہے تو اسے مجبور نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو شوہر کے جنسی مطالبات (تمکین علی النفس) کے لیے میسر بنائے کیونکہ نکاح کے ذریعے شوہر کا بیوی پر جو دعوی قائم ہوتا ہے وہ اس کام (جنسی تسکین) سے متعلق ہے نہ کہ کھانا بنانے سے”۔

​واضح ہوا کہ نکاح و طلاق کے باب میں عورت مرد کی ملکیت ہے اور شادی کے بعد عورت کی اولین ذمہ داری مرد کو جنسی تسکین فراہم کرنا ہے، یہ وہ بنیادی فلسفہ ہے جو مسلمان معاشروں میں رائج عائلی قوانین کے پس پردہ کارفرما ہے۔ صدیوں سے یہی ہوتا چلا آیا ہے۔

Maya shatzmiller نے ان عدالتی اصول و ضوابط پر تحقیق کی ہے جو پندرہویں صدی کے غرناطہ میں بطور اسلامی قانون نافذ تھے۔ ان کی کتاب Harward Law School نے Her Day in Court کے نام سے شائع کی ہے۔ مایا لکھتی ہیں:

“From a legal perspective, the first act of intercourse between bride and groom, usually referred to as the consummation of the marriage, was more than a mere physical act: One can say without exaggeration that the whole regularization of the marriage is dominated by this idea of consummation”.

"قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے دولہا اور دلہن کی پہلی خلوت فقط جسمانی وجذباتی عمل نہیں بلکہ کچھ اور بھی ہے، عام طور پر اسے شادی کے اخراجات کے معاوضے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ نکاح و طلاق کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی کا پورا عمل شادی کے اخراجات اور ان کی تعویض کے ارد گرد گھوم رہا ہے”۔
​سوال یہ ہے کہ عائلی قوانین کی تشکیل میں یہی اپروچ آج بھی اپنائی جا سکتی ہے؟ کیا آج کی دنیا میں عورت کو پراپرٹی کے طور پر برتا جا سکتا ہے؟ کیا ایسا کرنا عورت کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ یا کیا مسلمان معاشروں پر ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ عورت کو بھی انسان تسلیم کر سکیں؟ بدقسمتی سے ان سوالوں کا جواب ہمارے ہاں نفی میں ہے لیکن اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان کے معزز اراکین ان بنیادی نکات پر غور و فکر کرنے کی بجائے آج بھی طلاق کے مسائل کو فقہی اپروچ کے ذریعے ہی حل کرنا چاہتے ہیں۔

پچھلے دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک نشست میں تین طلاق دینے والے مرد کو سزا دینے کی سفارش تو پیش کی ہے لیکن عورت کے بارے میں یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ اس کی زندگی کے اس اہم ترین موڑ پر کسی بھی طرح کا فیصلہ کرنے میں خود اس کی پوزیشن کیا ہے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے چنانچہ اب عورت کو چاہیے کہ وہ خود یا عدالت کے ذریعے باقی ماندہ کارروائی مکمل کر کے شوہر سےالگ ہو جائے۔ لیکن کیا اس سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا اس طرح کی قانون سازی سے عورت کی دگرگوں حالت میں کوئی فرق پڑے گا؟ کیا مسلمان معاشروں کی عائلی زندگی میں بہتری آئے گی؟ ہرگز نہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے معزز اراکین کو اگر خود سے عورت کی خود مختاری کا احساس نہیں ہوا تو کیا بھارتی عدالت عظمی کا وہ فیصلہ بھی ان کے لیے تازیانہ عبرت نہیں بنا جس میں پانچ رکنی بینچ نے کہا ہے کہ
"عورت کو مرد کی ملکیت نہیں مانا جا سکتا ، آج کے دور میں اس طرح کے فرسودہ قانون کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ عورت اور مرد میں تفریق نہیں کی جا سکتی کیونکہ دونوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے