دوکروڑ لیکر ریٹائر ہونے والا شخص کیسے ارب پتی بنا

قانون ہر شخص کیلئے برابر سہی ۔

کو ن ہے وہ شخص جسے ریٹائرمنٹ پر دو کروڑ روپے ملے اور وہ اربوں کا مالک بن گیا ۔۔!!

شہباز شریف بھی پکڑا گیا ۔پی ۔ٹی ۔آئی نعرہ زن ہے کہ احتساب کا وعدہ بر گ وبار لا رہا ہے ۔دلیل یہ ہے کہ’’ قانون ہر شخص کیلئے برابر ہے ‘‘۔صدیوں سے یہی سنتے چلے آرہے ہیں لیکن صدیوں کا تجربہ یہ بھی ہے کہ قانون بھلے ہر شخص کیلئے برابر ہو ، ہر شخص قانون کیلئے ایک برابر نہیں ہوتا ۔سو چیخنے والے چیختے رہیں ۔ کہتے رہیں کہ آشیانہ اقبال میں تو سرکاری خزانے کی ایک پائی تک نہیں گئی ۔ سرکاری زمین کا ایک انچ بھی کسی کو نہیں دیا گیا ۔ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ شہباز شریف نامی’’ شخص ‘‘پکڑا گیا ہے اور دس دن تک نیب کی چکی کے آہنی پاٹوں میں پستا رہے گا ۔

ایک ’’شخص‘‘ کے ساتھ قانون کے اس ’’بے لاگ ‘‘برتاؤ نے ایک اور ’’شخص ‘‘کی یا د تازہ کردی ہے ۔کیا عجب کہانی ہے اُس شخص کی ۔ 23اپریل 2016کو مستند انگریزی اخبار ’’دی نیوز ‘‘میں ایک تحقیقی رپورٹ ، خبر کی شکل میں شائع ہوئی ۔ یہ سٹوری (گولیوں کا نشانہ بننے اور بچ نکلنے والے )جری رپورٹر احمد نورانی نے فائل کی تھی ۔ سٹوری کا عنوان تھا ۔
"Musharraf got Rs 20 Million on retirement, bought Rs 400 Million flats in London and UAE.”
’’ریٹائرمنٹ کے بعد 2کروڑ پانے والے مشرف نے لندن اور متحدہ عرب امارات میں 40کروڑ روپے کے فلیٹس خرید لیے ‘‘

خبر میں برطانیہ کی سرکاری لینڈ رجسٹر ی کے تصدیق شدہ ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پرویز مشرف کو ریٹائرمنٹ کے بعد واجبات کی شکل میں 2کروڑ روپے ملے لیکن نو سال تک مطلق العنان اقتدار سے علیحدگی کے فوراََ بعد کمانڈو نے 13مئی 2009کو ’’ کیسل پارک ، کریسنٹ لندن میں فلیٹ نمبر 28خریدا جس کے لیے 13لاکھ 50ہزار پاؤنڈ (20 کروڑ پاکستانی روپوں ) سے زیادہ ادائیگی کی ۔انہی دنوں اُس نے اتنی ہی مالیت (20کروڑ روپے سے زیادہ )کا ایک فلیٹ نمبر 3902، ساؤتھ رج ٹاور دبئی میں خریدا ۔مشرف ان دونوں جائیدادوں کو اب اپنے گوشواروں میں ظاہر کر چکاہے لیکن نہ اُس نے بتایا ، نہ آج تک کسی نے اُس ’’شخص ‘‘سے پوچھنے کی جرات کی کہ عزت مآب! یہ چالیس کروڑ روپے آپ کے پاس کہاں سے آئے ۔مذکورہ سٹوری میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان فلیٹس کی خریداری کیلئے کمانڈو نے پاکستان میں اپنی کوئی جائیداد فروخت نہیں کی ۔ اور یہ بھی کہ اُس وقت تک کمانڈو کے حکمت آموز لیکچرز کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا ۔ یہ لیکچرز 2010کے بعد شروع ہوئے ۔ایک اصطلاح پانامہ جے ۔آئی ۔ٹی کے دنوں میں بہت مشہور ہوئی ۔MLA۔(Mutual Legal Assistance)۔ملکوں کے مابین اس معاہدے کے تحت بہ و قتِ ضرورت، قانونی اعانت فراہم کی جاتی ہے ۔ نوازشریف اور ان کے خاندان کے بارے میں MLAکے تحت درجن بھر ممالک کو کئی کئی خطوط لکھے گئے ۔ احمد نورانی کی اسی سٹوری میں چار ٹیوٹالینڈ کروزرز سمیت سات پُر تعیش گاڑیوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے جو کمانڈواور ان کی اہلیہ کے نام نکلیں ۔ مختلف پاکستانی بینکوں میں اس ’’شخص‘‘ کے آٹھ کھاتوں کا ذکر بھی ہے جن میں کروڑوں روپے پڑے تھے۔

’’د ی نیوز ‘‘ میں ہی ایک اور سٹوری ، کہنہ مشق صحافی فخر درانی نے 6اپریل 2016کو فائل کی ۔ اس کا ٹائٹل تھا :
"How does Musharraf own Rs 2 Billion deposits?”
’’مشرف 2ارب روپے کی جمع پونجی کا مالک کیسے بن گیا ؟‘‘
اس سٹوری میں کمانڈو اور اس کی اہلیہ کے بیرونِ پاکستان واقع آٹھ بنک کھاتوں کی تمام تفصیلات ، یعنی بنک کا نام ، اکاؤنٹ نمبر اور اس میں جمع رقو م کی تفصیلات دی گئی ہیں ۔ پانچ کھاتے امارتی درہم اور تین کھاتے امریکی ڈالرز کے ملے ۔ان بنک کھاتوں میں جمع رقوم ، 2ارب روپے سے کہیں زیادہ ہیں ۔ فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل ،انعام الرحیم پانچ برس سے کوشاں ہیں کہ سیاستدانوں کی گردنیں ماپنے والا ’’نیب ‘‘،اس شخص کی طرف بھی آنکھ اُٹھا کر دیکھے ، کیونکہ ’’قانون ہرشخص کیلئے یکساں ہے‘‘، لیکن مشکل وہی کہ ’’ ہرشخص قانون کیلئے یکساں نہیں ‘‘۔ بار بار کی درخواستوں پر نیب نے کرنل (ر)انعام الرحیم کو بتایا کہ مشرف کا تعلق فوج سے ہے اس لئے نیب ان کے احتساب کا اختیار نہیں رکھتا ۔انعام الرحیم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ اسی سال فروری میں اسلا م آباد ہائیکورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے فیصلہ دیا کہ مشرف ریٹائر ہو چکا ہے ۔ وہ طویل عرصہ ایک عوامی عہدے پر فائز رہا ۔ نیب کا قانون اس پر لاگو ہوتا ہے ۔اس فیصلے کو بھی نو ماہ ہو چلے ۔۔۔وہ ’’شخص‘‘محفوظ و مامون ہے ۔ کمانڈو کی اندرونِ ملک جائیدادوں کی فہرست طویل ہے ۔ ان میں چک شہزاد اسلام آباد میں واقع 40کینال پر محیط ایک عظیم الشان فارم ہاؤس بھی ہے ۔ یہ 18اپریل 2013کا ذکر ہے ۔ مشرف اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش تھا کہ اُس کی ضمانت کی منسوخی اور فوری گرفتاری کا حکم صادر ہوا ۔اُس کے مسلح محافظین اُسے گاڑی میں بٹھا کر بھگا لے گئے ۔ اگلے دن گرفتاری نا گزیر ٹھہری تو اُسے کسی اڈیالہ ، کسی اٹک ، کسی کوٹ لکھپت یا کسی لانڈھی جیل میں نہیں ، اُسی پُر تعیش فارم ہاؤس میں ٹھہرا دیا گیا ۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ وہ ’’سب جیل ‘‘ہے ۔جس دن اُس پر سنگین غداری کی فردِ جرم عائد ہونا تھی ، وہ برق رفتار گاڑیوں کے جلومیں سیدھا راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں پہنچ گیا ۔ وہ کامل تین ماہ تک و ہاں محوِ استرا حت رہا یہ پتھر کے اُس قدیم زمانے کا ذکر ہے جب عالی مرتبت، میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس آف پاکستان کا منصبِ جلیلیہ نہیں سنبھالا تھا ۔اِ ن دنوں حیلہ تراش اور بہانہ ساز ملزموں کا ناطقہ بند کرنے کی رسم بھی نہیں چلی تھی ۔ اگر وہ اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ کسی روز اچانک چک شہزاد کے تقدس مآب فارم ہاؤس پر چھاپہ زن ہوتے اور پوچھتے کہ’’ اس شخص میں ایسے کونسے سرخاب کے پَر لگے ہیں کہ تم لوگوں نے اِ سے اڈیالہ کی بجائے یہاں ڈال رکھا ہے ؟اگر وہاں سے شہد اور روغنِ زیتون کی کوئی بوتل بھی بر آمد ہوتی تو اِ س کا تجزیہ بھی وہ اپنی ذاتی نگرانی میں کرواتے ۔ ’’قانون ہرشخص کیلئے یکساں ہے‘‘کے اصول کی بنیاد پر کمانڈو کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا جاتا جو شرجیل میمن اور کچھ دوسروں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے ۔ اسی طرح وہ عدالت کو جُل دے کر فوجی ہسپتال جا چھپنے والے ملزم کے تعاقب میں کسی دن آرمڈ فورسز انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی پر بھی چھاپہ مارتے ۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود مسلح با وردی اہلکار وں اور افسروں کو ڈانٹتے ہوئے مردانہ وار آگے بڑھتے اور مریض کے کمرے میں پہنچ کر بہ آوازِ بلند کہتے ۔۔۔’’ اُٹھو میں خود تمہار ا طبی معائنہ کرواتا ہوں ۔قانون اور انصاف کے ساتھ یہ ڈرامے مت کرو ‘‘۔قوم کی کم نصیبی اور کمانڈو کی خوش بختی کہ اُس وقت لائقِ صد احترام ، مسٹر جسٹس ثاقب نثار ، پاکستان کے چیف جسٹس نہ تھے ورنہ کمانڈو کو پتہ چل جاتا کہ قانون کیا ہوتا ہے اور انصاف کسے کہتے ہیں ؟

’’قانون ہر شخص کے لئے برابر ہے ‘‘لیکن ’’ ہر شخص ، قانون کیلئے برابر نہیں ‘‘کی ایک کہانی کمانڈو کے اثاثوں کے بارے میں بھی ہے ۔ پچھلے دِنوں اسحاق ڈار کے بارے میں ایک حکم جاری ہوا اور اس پر عمل شروع ہو چکاہے ۔ ایک دوسرے’’ شخص‘‘کا نام پرویز مشرف ہے ۔ 29اپریل 2010کو پشاور کے ڈسٹرکٹ ایک سیشن جج نے کمانڈو کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم جاری کیا ۔14مئی 2010کو پشاورہائیکورٹ نے اس کی توثیق کی ۔28مئی 2011کو انسدادِ دہشتگردی عدالت ، 17ستمبر 2016کو بحوالہ لال مسجد کیس ، 22دسمبر 2016کو اور پھر 9مارچ 2018کو مختلف عدالتوں نے اس کی جائیداد کی ضبطی کے احکامات جاری کئے ۔ آٹھ برس سے کوئی اُس کے فارم ہاؤس میں رکھے گملے کوبھی ہاتھ نہیں لگا سکا ۔ اس لئے کہ ہر شخص کے لئے قانون کا اطلاق یکساں نہیں ہوتا ۔ ایک طرف قانون کو ہ قاف کی جناتی قوت کے ساتھ بھیانک جبڑے کھولے غراّرہا ہے اور دوسری طرف ایسی بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے جو کھمبا بھی نہیں نوچ سکتی ۔

نواز شریف ،خواہش کے باوجود یہ سب کچھ نہ کرسکا۔’ نئے پاکستان‘ کے احتساب کی تلوار بھی نواز ، شہباز اور ڈار ہی کی گردنیں کاٹ سکتی ہے ۔نہ کل قانون سب کیلئے برابر تھا ، نہ آج ہے ۔ قانون کے امتیازی برتاؤ اور نا انصافی کی طویل رات نہ جانے کب ڈھلے گی ۔
جسٹس میاں ثاقب نثار سے میری پُرانی یاد اللہ ہے ۔آخری بار اُس دن اُنہیں ملا تھا جس دن اُنھوں نے چیف جسٹس کے منصبِ بلند کا حلف اُٹھا یا تھا۔ ایوانِ عدل سے رخصت ہوں گے تو انشااللہ پھراُن کی خدمت میں حاضری دوں گا ۔فی الحال اُن سے دست بستہ التماس ہے کہ وہ خدارا ، ’’ جری کمانڈو ‘‘یعنی پرویز مشرف نامی ’’شخص ‘‘ کو نہ چھڑیں ۔ہزار دعووٰں کے باوجود قانون ، ہر’’ شخص ‘‘کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرسکتا ۔ تسلیم کے تنہا اُس کے اثاثے ، ڈیم فنڈ کو مالا مال کر سکتے ہیں لیکن اُس سے باز پُرس کرنا ، اُس کی آمدن اور اثاثوں کے بارے میں کوئی سوال اُٹھانا ، اُسے وطن واپس لانا اور اس کے اثاثے ضبط کر نا ، خود بھاشا ڈیم کی تعمیر سے کہیں زیادہ کٹھن کام ہے ۔جنابِ چیف جسٹس !اپنے عہدِ منصفیِ کی اس ڈھلتی شام کی عافیت طلب گھڑیوں میں ، اُس جادو نگری کا طلسم توڑنے کی سخت جاں مہم پر نہ نکلےئے، جہاں قدم رکھتے ہی بڑے بڑے جانباز شہزادے بھی پتھر کے ہو جاتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے