تحریک انصاف کی ”BASE “

”جبر یا قدر“ کا سوال بہت قدیمی ہے۔ اس موضوع پر ہوئے مباحث فلسفہ یونان سے لے کر خلافِت عباسیہ کے بغداد میں رچائے مناظرے کے بعد بھی کوئی واضح جواب فراہم نہ کر پائے۔ بالآخر جرمنی میں ایک نابغہ پیدا ہوا۔ نام تھا اس کا ہیگل(Hegel)۔ اس نے بہت صراحت سے یہ سمجھادیا کہ افراد خواہ کتنے ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں اپنے دور کی مسلط کردہ تاریخی اور ٹھوس حقیقتوں میں محدود رہتے ہوئے ہی کچھ ایسے فیصلے کرتے ہیں جنہیں بعدازاں”تاریخ ساز“ سمجھاجاتا تھا۔ حقیقت جبکہ یہ ہے کہ ”تاریخ ساز“ افراد کے پاس بلھے شاہ کی بتائی ”آئی صورت“ میں کوئی اور فیصلہ لینے کی گنجائش ہی موجود نہیںہوتی۔ اس کے فلسفے کو ”تاریخی اور مادی جبریت“ کہا جاتا ہے۔

عمران خان صاحب کو 25جولائی 2018کے دن بہت چاہت سے ووٹ دینے والے چند پڑھے لکھے افراد سے گزشتہ ہفتے کے آخری ایام میں چند دوستوں کی بے تکلیف محفلوں میں ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ بہت خلوص سے یہ سوچ رہے تھے کہ شہباز شریف صاحب کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری نے سیاسی صورتحال میں ہیجان برپا کردیا ہے۔ اس ہیجان کی ان کی دانست میں ہرگزکوئی ضرورت نہیں تھی۔

شہباز صاحب اور ان کی جماعت کے اراکین 25جولائی 2018کے انتخابات کے نتائج کے بارے میں تندوتیز سوالات اٹھانے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلف لینے پہنچ گئے۔ سپیکر اور وزیر اعظم کے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے موجودہ بندوبست سیاسی کو Legitimacyفراہم کردی۔

اہم ترین بات یہ بھی تھی کہ شاہد خاقان عباسی کے مفتاح اسماعیل کی جانب سے پیش ہوکر قومی اسمبلی سے پاس ہوئے بجٹ کو جب تحریک انصاف کے وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نے تبدیل کیا تو اس میں ہوئی تبدیلیوں پر قومی اسمبلی میں بہت ”مثبت“ بحث ہوئی۔ منی بجٹ پاس ہوگیا۔ اس کے بارے میں ہوئی رائے شماری کے روز شہباز صاحب بطور قائد حزب اختلاف ایوان میں کھڑے ہوکر حکومت کو یقین دلاتے رہے کہ عمران حکومت پاکستانی معیشت کے استحکام وبہتری کے لئے جو قدم بھی نیک نیتی کے ساتھ اٹھائے گی اسے ان کی جماعت دل وجان سے قبول کرے گی۔

وزیر اعظم عمران خان کے وہ چاہنے والے جن سے میری گفتگو ہوئی بہت فکر مندی سے تقاضہ کررہے تھے کہ ان کے ممدوح کو پارلیمان سے ملی معاونت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فی الحال اپنے سیاسی مخالفین کی احتساب کے نام پر پکڑدھکڑ کو بھول کر اپنے ”ایجنڈے“ پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے تھی۔ وہ مگر حزب مخالف کو ”اشتعال“ دلانے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔

عمران خان صاحب کے جن فکرمند مداحین سے میری گفتگوہوئی اپنی سادگی اور نیک طبیعت کی بناءپر یہ سمجھنے سے قاصر نظر ا ٓئے کہ وطنِ عزیز میں سیاست گزشتہ کئی برسوں سے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکی ہے۔یہ واقعہ فقط پاکستان ہی میں نہیں ہورہا۔ برطانیہ کے Brexitاور امریکہ میں ٹرمپ کی آمد نے فرانسس فوکویوما اور پرکاش مشرا جیسے جید دانشوروں کو مجبور کیا کہ وہ دورِ حاضر کی سیاست کو Politics of Rageکا نام دیں۔

بہت غور کے بعد دریافت یہ بھی ہورہا ہے کہ 2018کا انسان بہت تیزی سے ”قبائلی“ ہورہا ہے۔ سیاسی اور ریاستی امور کے حوالے سے Big Pictureپر نگاہ رکھتے ہوئے دوسروں کے مفادات اور نقطہ نظر کو سمجھے اور سنے بغیر فقط اپنے گروہ کی خواہشات اور ضروریات کے حصول کے جنون میں مبتلا۔ جنون کا یہ انداز ”قبائلی“ ہے جس میں ایک مخصوص قبیلہ صرف اپنی Territoryاور ”ہماری قدریں اور رواج“ کے تحفظ کے لئے اپنے سیاسی مخالفین کو ”متحارب قبلہ“ تصور کرتے ہوئے مرنے مارنے پر تل جاتا ہے۔

غلط یا صحیح کی بحث میں الجھے بغیر ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ عمران خان صاحب نے 2011کے اکتوبر سے اپنے لاہور والے جلسے کے ذریعے وطن عزیز میں Politics of Rageمتعارف کروائی۔ 2014کے دھرنے نے غصے پر مبنی سیاست کو جنون کی شکل عطا کی۔اس جنون کی بدولت ہی عمران خان صاحب بالآخر اس سال کے اگست میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔

ہر سیاست دان کی طرح عمران خان صاحب کی بھی ایک Baseہے۔ Core Constituency۔کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے ”جیالے“ ایسی ہی ایک Baseتصور کئے جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومتوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1993’1988اور 2008میں لیکن اس Baseکی تشفی کے لئے سیاسی مخالفین کے خلاف ”انقلابی“ اقدامات اٹھانے کے بجائے سمجھوتوں کی کوشش کی۔

نام نہاد "System”کے اندر رہتے ہوئے اپنے اہداف کے حصول کے امکانات تلاش کرنے کی کوشش۔ فلمی گانے والا ”سب کچھ الٹا کر بھی“ لیکن وہ لوگوں کی بے پناہ اکثریت کو مطمئن نہ کرپائی۔ اس کے ”جیالوں“ کوبلکہ ”نظریاتی سیاست“کو بھلادینے کا شکوہ ہوا۔اپنے جیالوں کی خواہشات کو نظراندازکرتے ہوئے دوسروں کے دل جیتنے کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔

نواز شریف صاحب کی خالصتاََ سیاسی حوالوں سے کوئی جنونی Baseنہیں ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے خود کو ایک ایسے منیجر کے طورپر لوگوں کے سامنے پیش کیا جو ملک میں کاروبار کے امکانات بڑھانے پر توجہ دیتا ہے۔ موٹرویز جیسے میگاپراجیکٹس کو متعارف کرواتا ہے۔ بازار (Market)اور دھندے کے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے۔

اپنی تیسری حکومت کے آخری ا یام میں نواز شریف اور ان کی جماعت کو بالآخریہ احساس ہوا کہ وطنِ عزیز میں سیاست دان اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کامل اختیارات کے حامل نہیں ہیں۔ پاکستان کئی برسوں سے بنیادی طورپر نیشنل سکیورٹی سے جڑے چند سنگین سوالات کی گرفت میں ہے۔ ان سوالات سے مفر ممکن نہیں۔ معاشی ترقی اور استحکام کو اپنی ترجیح قرار دینے والا سیاست دان ان سوالات کا سامنا کرتے ہوئے جو اقدامات اٹھانا چاہتا ہے اسے قومی سلامتی کے بارے میں متفکر دائمی اداروں کے لئے قابل قبول بناناایک جاں گسل عمل ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت مگر اس عمل سے گزرنے کے قابل نہیں۔ ”ووٹ کو عزت دو“ والے نعرے کو سمجھانا کافی دِقت طلب فریضہ ہے۔

عمران خان صاحب نے لیکن ”کرپشن“ کو اس ملک کا بنیادی مسئلہ ٹھہراتے ہوئے اپنا بیانیہ مرتب کیا ہے۔ اس بیانیے کو Do or Dieانداز میں پھیلاتے ہوئے وہ وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے ہیں۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہیں احساس ہورہا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا ہوںگی۔ IMFسے کسی Bail out Packageکے لئے رجوع کرنا ہوگا۔ یہ سب اقدامات اٹھائے بغیر ریاست کا کاروبار چلایا نہیں جاسکتا۔ ریاست کا کاروبار چلانے کے لئے وہ جو اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوئے اس نے مگر ان کی Baseکو شرمندہ کیا۔خلقِ خدا کی اکثریت مہنگائی کی لہر اور اس کے مزید ناقابل برداشت ہونے کے امکانات سے گھبراگئی۔

ایسے حالات میں عمران حکومت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں بچا کہ اس کی Baseکی دانست میں ”کرپٹ“ ٹھہرائے افراد کو حوالاتوں میں بند کرے۔ ”قوم کی لوٹی ہوئی دولت“ کو سعودی عرب کے پرنس سلمان کی طرح نام نہاد ”انسانی حقوق“ کے تناظر میں ”وحشیانہ“ نظر آتے اقدامات کے ذریعے واپس لائے۔

عمران خان صاحب اپنے ہی مرتب کردہ بیانیے کے جبر کے تحت شہباز شریف کی گرفتاری سے پریشان نہیں ہیں۔ وزارتِ داخلہ انہوں نے اپنے پاس رکھی ہے۔ مقصد اس کا ”تمام کرپٹ افراد“ کو ”عبرت کا نشان“بنانا ہے۔ انجام ان کی اس سوچ کا جو بھی ہوفی الوقت تحریک انصاف کی Baseاپنے سیاسی مخالفین کی گرفتاریوں سے بہت خوش ہے اور یہ بات عمران خان صاحب کے لئے باعثِ فخرواطمینان ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے