کاروبارِ حکومت

کوئی جائے اور جا کر وزیراعظم کو بتائے کہ الجھے ہوئے معاملات کو سنوارنے کیلئے عرق ریزی کی ضرورت ہوتی ہے‘ گھڑسواروں کے سے جوش و جنوں کی نہیں۔

ایک وفاقی وزیر سے پوچھا کہ فلاں صاحب سے اب تک آپ لوگوں نے مشورہ کیوں نہیں کیا۔ کاروبار حکومت کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ خان صاحب کے دوست ہیں۔ امانت و دیانت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ملاقات ہو گئی۔ اس کے بعد وہ انتظار کرتے رہے کہ انہیں وزیراعظم نے ایک اہم ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پیغام انہوں نے چھوڑا مگر جواب نہ ملا۔ بارِ دگر انہی سے رابطہ کیا۔ وہ پریشان تھے۔ کہا کہ وہ منصب تو کسی اور کے سپرد کر دیا گیا۔ مراد یہ تھی کہ اب کس منہ سے‘ ان کے ساتھ بات کروں۔

کہا جاتا ہے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے سوال کیا: آپ کے دور میں خرابی کیوں ہے۔ فرمایا: پہلوں کے مشیر ہم تھے‘ہمارے مشیر تم ہو۔

قرآن کریم کی اس آیتِ مبارکہ پہ ان دنوں بہت غور کیا ”وامرھم شوریٰ بینہم‘‘۔ اہل ایمان کے معاملات باہم مشورے سے طے پاتے ہیں۔ جیسا کہ کئی بار عرض کیا: لائق اور مخلص ماہرین سے مشورہ۔ نیک نیّتی کے ساتھ‘ ریاضت کے ساتھ۔ کوئی حکمران ناکام نہیں ہو سکتا‘ اگر اس بنیادی اصول ‘اس قاعدے پر گامزن رہے۔

جہاندیدہ اور مدبرّ افسر کو نظرانداز کر کے‘ جن دوسرے صاحب کو قابل اعتنا سمجھا گیا‘ پچھلے دنوں اخبار نویسوں کو مشاورت کیلئے انہوں نے مدعو کیا۔ ایک تجربہ کار اور قدرے منہ پھٹ صحافی نے کہا: افسروں کے ایک ٹولے نے وزیراعظم کو گھیر لیا ہے۔ ایوان وزیراعظم پر فواد حسن فواد نے کشمیری افسر مسلّط کر دئیے تھے۔ اب ایک اور صوبے کے لوگ ہیں۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ جواب ملا: پرنسپل سیکرٹری نہیں‘ ان لوگوں کا انتخاب میں نے کیا ہے۔ معلوم نہیں کسی نے اس مصرع پر ”سبحان اللہ‘‘ کہا یا نہیں۔

پرنسپل سیکرٹری کے بارے میں شکایت یہ تھی کہ غیر متعلق اور ناپسندیدہ لوگوں میں گھرے رہتے ہیں۔ اپنا وقت رائیگاں کرتے ہیں اور سرکاری رازوں کے افشا کا اندیشہ رہتا ہے۔ معلوم نہیں‘ ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے یا تھم گیا۔ اسلام آباد میں اس پر چہ میگوئیاں بہت تھیں۔

سیدنا عمر ابن خطابؓ کو ایک دن پریشان دیکھا گیا۔ عراق‘ ایران اور شام کی مفتوحہ زمینیں فاتح لشکروں میں بانٹ دی گئی تھیں۔ قرآن کریم کی ایک آیت سے آپ نے استنباط کیا کہ حکومتِ وقت پہ آنے والی نسلوں کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ان کا طریق تھا‘ مجلس مشاورت برپا ہوئی اور تین دن جاری رہی۔ سیدنا بلالؓ حبشی کا استدلال یہ تھا کہ عطا کردہ غنیمت واپس نہیں لی جا سکتی ۔ فاروق اعظم ؓ دلائل دیتے رہے اور سیدنا بلالؓ کہ محترم میں سے محترم ترین تھے‘ اپنی بات پہ اڑے رہے۔ وہ سچّے کھرے اور بے تکلف لوگ تھے۔ لفظ چباتے نہیں تھے ۔زچ ہو کر امیر المومنینؓ نے کہا:یااللہ مجھے بلال (کے اس رویّے) سے نجات دے۔ کوئی بگڑتا نہ تھا‘ کان اور آنکھیں ہی نہیں‘ دل و دماغ کے سب دروازے بھی کھلے رکھتے ۔ آخرکار جناب عمرؓ کا موقف مان لیا گیا۔ جاگیریں واپس لے لی گئیں۔فتنے کا دروازہ بند کر دیا گیا۔

دوسری بار یہ عمل جناب عمر بن عبدالعزیزؒ نے دہرایا۔ اموی خاندان کے شہزادوں کی جاگیریں واپس لے لی گئیں۔ سب سے پہلے حکمران نے خود اپنی زرعی اراضی حکومت وقت کے حوالے کی۔غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ سبھی سے سرزد ہوتی ہیں۔ مگر جو دانا ہیں‘ وہ اپنی تصحیح کرتے ہیں۔

وزیراعظم کے اس اعلان نے حیرت زدہ کر دیا کہ جب تک تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے‘ عثمان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہیں گے۔ کاروبارِ حکومت کا فہم رکھنے والوں کا خیال یہ ہے کہ ایسا ممکن نہ ہوگا۔ آخرکار ایک دن یہ فیصلہ واپس لینا ہوگا۔ استحکام ہی مطلوب تھا تو اس قدر کہنا کافی ہوتا : عثمان بزدار کا تقرر میں نے کیا ہے۔ میری تائید انہیں حاصل ہے۔ قوّت فیصلہ سے وزیراعلیٰ محروم ہیں۔ کاروبارِ سرکار کا تجربہ نہیںرکھتے۔ نظام حکومت کی پیچیدگیوں پہ شاید آپ نے کبھی غور ہی نہیں فرمایا۔ اپنا مافی الضمیر تک بیان نہیں کر سکتے۔ ایسے مشکل حالات میں‘ ایسا آدمی اپنی ٹیم کی قیادت کیسے کرے گا۔اعتماد کا پہلے ہی فقدان تھا۔ رہی سہی کسر چیف جسٹس کے تازہ ریمارکس نے پوری کر دی ہے۔

یہ توآشکار ہے کہ کوئی جامع منصوبہ حکمران ٹیم کے سامنے نہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ وزیراعظم نے اچھّے مشیروں کا انتخاب نہیں کیا ۔ کوئی دن جاتا ہے کہ نظرثانی کرنا ہوگی‘ نئے لوگوں پہ اعتماد کرنا ہوگا۔ حکومت اور اس کے حلیف متحمّل نہیں کہ دھڑام سے سب کچھ نیچے آ گرے۔

دکھائی دیتا ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔ چین اب تک دو تین ارب ڈالر دے چکا۔ اطلاعات ہیں کہ کچھ اور بھی دے گا۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے کچھ مالی امداد کی امید بھی ہے‘ادھار تیل کی بھی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے دستِ تعاون دراز کرنے کے باوجود‘ بظاہر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ دوست ممالک کی عنایات سے پورا نہیں ہوسکتا۔ آئی ایم ایف بروئے کار آئے گا تو دوسرے مالیاتی اداروں اور انتظار کرتی دوسری مالدار حکومتوں کا طرز عمل بھی تبدیل ہوگا۔ گاڑی شاید پٹڑی پہ چڑھ جائے۔

سوال یہ ہے کہ یہی کرنا تھا تو اس قدر تاخیر کی ضرورت کیا تھی۔ سٹاک مارکیٹ 53000 پوائنٹ سے 38400 پہ آ پہنچی۔ آپس کی بات یہ ہے کہ اتوار کو وزیراعظم کی پریس کانفرنس نے بے یقینی میں اضافہ کیا۔ بازارِحصص پہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اب وہ اپوزیشن لیڈر نہیں کہ کچھ بھی کہہ ڈالیں۔ ایک ایک لفظ ماحول پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک ایک لفظ نتیجہ خیز ہوتا ہے ۔شہباز شریف کے بارے میں اس وضاحت سے اظہار خیال کی ضرورت نہیں تھی۔ اس ارشاد کی کیا ضرورت تھی: میرے بس میں ہوتا تو اب تک پچاس آدمیوں کو جیل میں ڈال چکا ہوتا۔ حکمران کو اپنی زبان بند اور ذہن کے در وا رکھنے چاہئیں۔سلطان محمد فاتح نے کہا تھا:میری داڑھی کے بالوں کو بھی اگر معلوم ہو جائے کہ میں کیا چاہتا ہوں تو میں قصوروار ہوں۔ ذوقؔ ‘غالبؔ اور حسرت موہانی نے میر تقی میر کا اعتراف بے سبب نہ کیا تھا۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

اوّل دن سے‘ سوچ سمجھ کر فیصلے کئے ہوتے تو بے یقینی کا یہ ماحول جنم نہ لیتا۔ روپے کے سرمایے کے فرار کا اندیشہ ‘جس میں بڑھتا جا رہا ہے۔ سرمایہ بہت حسّاس ہوتا ہے۔ صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کا فروغ تو الگ ‘ لوگ جائیداد میں سرمایہ کاری سے بھی گریزاں ہیں۔ اتوار کی شام جس انداز میں وزیراعظم نے مخالفین کو چیلنج کیا‘ پچھاڑ دینے کا اعلان کیا‘ اس میں انتقام کی بو تھی‘خواہ ان کی نیّت یہ نہ ہو۔ احتساب اس طرح نہیں ہوتا۔ ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا‘ بیتے ہوئے دنوں پہ رونے اور خطابت کے جوہر دکھانے سے کچھ حاصل نہیں۔ حکمران کو مستقبل کی صورت گری کرنا ہوتی ہے۔

سینکڑوں اور ہزاروں کو نہیں‘ چند افراد کو سزا دے کر حکومت کا رعب قائم کرنا ہوتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہئے‘ ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔ کوئی دانا آدمی قریب ہوتا تو انہیں بتاتا کہ سب سے پہلے‘ اپنی پارٹی کے کسی غلط کار کو پکڑنا چاہئے۔ کوئی اور نہیں تو کسی کرامت کھوکھری ہی کو۔ زبیدہ جلال اور فہمیدہ مرزا کو وزارتیں دے کر‘ آپ دھاڑ نہیں سکتے۔

وزیراعظم کی خوش بختی یہ ہے کہ ان کے حریف بدنام ہیں۔ عسکری قیادت سے مفاہمت ہے اور پرجوش حامیوں کی ایک بڑی تعداد پشت پہ کھڑی ہے ۔مہلت ابھی موجود ہے لیکن مہلت کبھی لامحدود نہیں ہوتی۔

کوئی جائے اور جا کر وزیراعظم کو بتائے کہ الجھے ہوئے معاملات کو سنوارنے کیلئے عرق ریزی کی ضرورت ہوتی ہے‘ گھڑسواروں کے سے جوش و جنوں کی نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے