چھاتہ بردار سیاست اور کلدیپ نیئر کی راکھ

5 اکتوبر 2018کی سہ پہر برصغیر پاک و ہند میں امن کے استعارے کلدیپ نیئر کی راکھ لاہور میں دریائے راوی کے سپرد کر دی گئی۔ درد مندوں کی ایک مختصر سی ٹولی واہگہ بارڈر سے راوی کے کنارے پہنچی۔ آئی اے رحمان کو کون نہیں جانتا، فاروق طارق اور تنویر جہاں پیادے کا دستہ ہیں مگر عمر عزیز کے ابتدائی برسوں میں جہاں جھنڈا گاڑا تھا وہاں سے قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔ از ما بجز حکایت مہر و وفا مپرس۔ سیاست دانوں میں صرف اعتزاز احسن نظر آئے۔ مسلم لیگ ن اور اے این پی کے کوئی صاحب دکھائی نہ دیئے۔ کلدیپ نیئر کی پوتی مندرا نیئر نے وہ برتن اٹھا رکھا تھا جس میں کلدیپ نیئر کی راکھ تھی۔ ان کی آخری خواہش تھی کہ ان کی راکھ لاہور میں دریائے راوی کی لہروں کے سپرد کی جائے۔

راوی کے پاٹ میں جہاں لہروں میں روانی کا گمان گزرا، لاہور کی یہ امانت لاہور کو سونپ دی گئی۔ کلدیپ نیئر اگست 1923میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن نوجوانی لاہور میں گزاری۔ یہیں ایف سی کالج کے گیان استھان سے تعلیم پائی۔ اسی شہر میں قانون پڑھا۔ تقسیم کے ہنگام لاہور سے نکلنا پڑا لیکن لاہور کلدیپ نیئر کے دل سے نہیں نکلا- ثبوت یہ کہ ایک صدی کے سفر کے بعد کلدیپ کے پھول لاہور لائے گئے- دائرہ مکمل ہوا۔ بڑے انسانوں کا نشان یہ ہے کہ سانس کا دائرہ مکمل کرتے ہیں تو انسانیت گویا کچھ قدم اوپر کی طرف اٹھ جاتی ہے۔ یہ جو مسلم لیگ (نواز) اور عوامی نیشنل پارٹی کے احباب کی عدم حاضری کا ذکر کیا گیا، اسے شکوہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ اس میں سیاسی تسلسل کی ایک رمز پنہاں ہے۔ آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے پس پشت ایک طویل تاریخ کارفرما تھی۔ ایک معاشی پس منظر تھا۔ ایک تمدنی تناظر تھا۔ غیر ملکی حکمرانوں کی چیرہ دستیاں تھیں۔ اپنوں کی کوتاہیاں تھیں۔ مختصریہ کہ متحدہ ہندوستان کی سیاسی قیادت ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے آئینی اور معاشی تحفظات دور کرنے میں ناکام رہی۔ سیاست سمجھوتہ کرنے کا ہنر ہے۔ سمجھوتہ نہ کیا جائے تو سنگت ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ سب ہوا لیکن کلکتہ سے راولپنڈی تک اور بہار سے لاہور تک فسادات کے شعلے تو تقسیم کے منصوبے کا حصہ نہیں تھے۔

لاکھوں انسانوں کے لہو کی ارزانی تو مسودے میں شامل نہیں تھی۔ بھرے پُرے گھر چھوڑ کر اجنبی زمینوں کا سفر تو قائد اعظم اور گاندھی جی نے منظور نہیں کیا تھا۔ پاکستان کے بانی قائد نے تو امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات کی خواہش کی تھی۔ بے وطنی کا گھاؤ اور نسل در نسل دشمنی کی روایت تو ہمارے رہنماؤں کا وژن نہیں تھی۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے پچپن کروڑ روپے نہ دئیے جانے پر گاندھی جی نے مرن بھرت رکھا تھا جس کے ردعمل میں تیس جنوری 1948 کو ایک انتہا پسند ہندو کی گولی انہیں چاٹ گئی۔

جنوری 1948ہی کا پہلا ہفتہ تھا جب کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح نے ریڈیو پر پیغام نشر کیا تھا کہ ’اپنے ہندو ہمسایوں کو بچاؤ‘۔ کراچی کے فسادات کی کچھ تفصیل اس وقت کے سیکریٹری دفاع اسکندرمرزا کے سینے میں دفن تھی جسے انہوں نے اے ایچ اصفہانی صاحب کے سامنے اپنی یاد داشتوں میں بیان کر دیا۔ اس حکایت کا کچھ حصہ جنرل(ر) گل حسن نے اپنی خود نوشت میں بیان کیا ہے۔

کبھی موقع ملے تو اس پر نظر ڈالئے گا۔ ایک حاصل کلام جملہ درویش کو یاد ہے۔ قائد اعظم نے اپنے نوجوان اے ڈی سی گل حسن سے کہا کہ ’پاکستان کے لوگ تکلیف میں ہوں تو ان کی مدد کرنی چاہئے‘۔ قائد اعظم نے ہندو یا مسلم کا امتیاز نہیں کیا، انہیں ’پاکستان کے لوگ‘ کہا۔ ہندوستان اور پاکستان کے معمار اس تعصب سے خالی تھے جو اب سرحد کے دونوں طرف بہت بڑا روزگار بن چکا ہے۔ بھارت میں نفرت کے اس مسلک کی مزاحمت کرنے والوں میں کلدیپ نئیر کا نام بہت بلند ہے۔

وہ کبیر پنتھی روایت کا تسلسل تھے۔ سرحد کے اس طرف پاکستان میں بھی ایسے ناموں کی فہرست موجود ہے جو پاکستان اور بھارت میں امن دوستی اور تعاون کو ڈیڑھ ارب انسانوں کے لئے اچھے مستقبل کی امید سمجھتے ہیں۔ جمہوریت، شہری آزادیوں اور رواداری کا پرچم اٹھانے والے یہ عاشقان خوش طینت ہی صوفیا کی میراث ہیں۔ ہجوم کے اشتعال اور اکثریت کی رعونت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے والے امیر خسرو کا دوہا ہیں۔ برصغیر میں امن کی بات کرنے والے میرا بائی کا بھجن ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں امن قائم کئے بغیر جنوبی ایشیا میں جمہوریت کی تصویر ادھوری ہے۔ امن کی بجائے دشمنی کی بین بجانے والوں ہی نے اس خطے میں جمہوریت کی جڑیں کاٹی ہیں۔

2018 اپنی آخری سہ ماہی میں داخل ہو چکا۔ یہ سال خوشگوار نہیں رہا۔ فروری میں عاصمہ جہانگیر رخصت ہوئیں۔ امن کی ایک طاقتور آواز مدیحہ گوہر خاموش ہو گئیں۔ اپریل میں جسٹس راجندر سچر سورگباشی ہوئے۔ اسی برس پاکستان میں شفاف انتخابات ہوئے۔ چند مہینے بعد بھارت میں بھی شفاف انتخابات ہوں گے اگرچہ بیانیہ غیرشفاف ہو گا۔ بیانیے کی الجھن سلجھانے والے کلدیپ نیئر اس برس 24 اگست کو رخصت ہو گئے۔ ان سے ایک ہفتہ پہلے اٹل بہاری واجپائی کا دیہانت ہوا۔ اٹل بہاری فروری 1999میں لاہور آئے تو مختصر قیام کے آخری اجتماع میں اپنی بات اس جملے سے شروع کی کہ ’’کل آئے تھے، آج جا رہے ہیں۔‘‘ بات آدھی مگر اثر دونا۔ شیکسپیئر نے کہا تھا ، Ripeness is all.

انسانوں کے آنے اور جانے میں معنی تب پیدا ہوتا ہے جب نیکی اور محبت کا خواب زندہ رہے۔ نفرت پھیلانے والے تو چھاتہ بردار لوگ ہیں۔ رات کی تاریکی میں تباہی کا پیغام لے کر زمین پر اترتے ہیں۔ نہ عقب میں رسد ہوتی ہے اور نہ آگے کا راستہ سجھائی دیتا ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب اور کوئی تہذیب ناانصافی کا درس نہیں دیتے۔ نفرت جزیروں میں بٹی ہوئی لاتعلقی کا نام ہے۔ محبت وہ دریا ہے جو تسلسل سے بہتا ہوا پہاڑوں اور میدانوں کو سیراب کرتا ہے۔

رخصت ہونے والوں کا احترام کرتا ہے۔ آنے والوں کی آنکھ میں خوشی کا خواب بوتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین سے آئی اے رحمان تک اور سروجنی نائیڈو سے لے کر نرملا دیش پانڈے تک امن، دوستی اور مکالمے کا ایک ہی دریا بہتا ہے۔

نفرت کے تالاب سوکھ جاتے ہیں۔ تفرقے کے شعلے بجھ جاتے ہیں کیونکہ ان کا مٹی سے تعلق نہیں ہوتا۔ مٹی سفر کرتی ہے، دلّی سے امرتسر کے راستے لاہور تک آتی ہے۔ ماضی کو آج سے اور آج کو آنے والے کل سے جوڑتی ہے۔ بائبل مقدس میں اس مٹی کو زمین کا نمک کہا گیا ہے۔ مٹی قدم کریندی یار…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے