گزرے روز جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں ابر کھل کے برسا جس کی وجہ سے آج اسلام آباد کا موسم دلآویز تھا، احتساب عدالت اسلام آباد العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کا وقت ساڑھے گیارہ بجے تھا، معمول سے ہٹ کر میں گیارہ بجے کمرہ عدالت میں تھا، میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پہلی بار آئے.
سوچ رہا تھا کہ میاں نواز شریف کا چہرہ متفکر ہو گا مگر گیارہ بج کر چوبیس منٹ پر اپنے رفقاء کے ساتھ کمرہ عدالت پہنچے .
نواز شریف آسمانی رنگ کا سوٹ اور سرمئی رنگ کی ویسٹ کوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے ، میرے تمام تر اندازے غلط ثابت ہوئے، ان کے چہرے پر طمانیت تھی، کمرے میں موجود لوگوں سے مصافحہ کرنے کے بعد وہ اپنی نشست پر بیٹھ گئے، ان کے دائیں طرف انجنیئراقبال ظفر جھگڑا اور بائیں طرف بزرگ سیاست دان راجہ ظفر الحق براجمان تھے.
مجھ سمیت کمرہ عدالت میں ڈان کے رپورٹر اسد ملک، عمران نائنٹی ٹو کے فیاض اور پاکستان آبزرور کا رپورٹر موجود تھا، میں نے اسد ملک کو کہا کہ کوشش کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف آج اپنی خاموشی توڑیں اور کچھ گفتگو کریں ، اسد ملک نے پوچھا کہ غیر رسمی گفتگو کریں گے تو میاں نواز شریف نے جواب دیا کہ آپ لوگوں کو پہلے بتا چکا ہوں کہ کس کیفیت سے گزر رہا ہوں، آپ لوگ دعا کریں ، ابھی گفتگو جاری تھی کہ جج ارشد ملک کمرہ عدالت میں آ گئے.
عدالت کی تعظیم میں سب لوگ اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے ، میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سپریم کورٹ میں مصروف تھے ، ان کے معاون نے عدالت سے استدعا کی کہ خواجہ حارث سوا بارہ بجے آئیں گے. اس وقت تک سماعت ملتوی کی جائے ، عدالت نے معاون وکیل کی استدعا کو منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی.
وقت میسر ہو تو کوشش کرنی چاہیے کہ ملکی مفاد میں لیڈر سے کچھ نہ کچھ پوچھا جائے، سوال پوچھا گیا نیب کی کارروائی اور میاں شہباز شریف کی گرفتاری کا تو گویا ہوئے کہ میاں شہباز شریف نے اپنی بیماری کو پس پشت ڈال کر صوبہ پنجاب کی شرق سے لے کر غرب اور شمال سے جنوب تک بلاتخصیص ملک و قوم کی خدمت کی ، ان کی امانت و صداقت کی گواہی تو پنجاب کی عوام کیا بلکہ غیر ملکی این جی اوز بھی دیتی ہیں.
شبہاز شریف نے جس کمپنی کو پنجاب میں ٹھیکہ نہیں دیا اس کو کے پی کے میں ٹھیکہ دے دیا گیا اس پر کون تحقیق کرے گا ؟
یہ تو معمول کی باتیں ہیں، میرے ذہن میں سوال لپکا کیوں نہ ایسا سوال کیا جائے جس سے خبر نکل سکے، میاں نواز شریف نے اپنی گفتگو میں توقف کیا تو میں نے فوری سوال داغ دیا کہ آپ پانچ سال وزیراعظم رہے آپ نے نیب میں اصلاحات کیوں نہیں کیں؟
میاں نواز شریف نے میرے سوال کی تحیسن کی اور کہا کہ اپ نے بہت اچھا سوال کیا پھر بولے کہ مجھے افسوس ہے کہ ڈکٹیٹر کے کالے قانون کا میں خاتمہ نہیں کر سکا اور نہ اصلاحات لا سکا.
مشرف نے یہ قانون اپنے سیاسی مخالفین کی ناک میں دم کرنے کے لیے بنایا تھا، اس قانون میں اصلاحات لانی چاہییں تھیں، افسوس یہ کام ہم سے نہ ہو سکا.
پھر بولے ہم نے تو اقتدار میں آ کر نئی روایات قائم کیں، ہم نے کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا، ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو عفو و درگزر سے کام لینا ہو گا، احتساب کریں مگر بلاتخصیص سب کا کریں ، یہ نہیں کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے، انتقام کی آگ سب کچھ بھسم کر دیتی ہے
ابھی گفتگو جاری تھی کہ عدالتی اہلکار نے بتایا کہ کیس کی سماعت ہونی ہے لہذا ہمیں کمرہ عدالت خالی کرنا پڑا.