عرض ہنر

ترک تعلقات پہ رویا نہ تُو نہ میں

لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تُو نہ میں

یہ تھا وہ شعر جس نے ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں اردو کی شعری فضا میں نہ صرف ہلچل مچا دی بلکہ اس کی وساطت سے خالد احمد ادبی حلقوں کی حد تک ایک مقبول اور معروف نام بھی بن گیا۔ میری اس سے پہلی ملاقات مرحوم بشیر منذر کے مینار آرٹ پریس میں ہوئی جو ان دنوں ایک باقاعدہ ادبی بیٹھک کی شکل اختیار کرگیا تھا کہ وہاں ہم جیسے یونیورسٹی کے ادب دوست طالب علموں کے علاوہ کئی جانے مانے ہوئے لکھاری بھی پابندی سے آیا کرتے تھے۔

اختر حسین جعفری، حفیظ تائب اور گوہر ہوشیار پوری سے اولین تعارف بھی یہیں ہوا۔ خالد احمد اس زمانے میں اپنے پرانے نسبت روڈ والے اس مکان میں رہا کرتا تھا جہاں احمد ندیم قاسمی بھی اپنی فیملی کے ساتھ کئی برس مقیم رہے کہ وہ اس لکھنؤ سے ہجرت کرکے آنے والی فیملی کے منہ بولے بڑے بھائی تھے۔ جس میں خالد احمد کی وہ دو بڑی بہنیں بھی تھیں جن کو دنیا خدیجہ مستور اور حاجرہ مسرور کے نام سے جانتی ہے۔

خالد احمد سائنس میں گریجویشن کے بعد میڈیکل ریپ کے طور پر ملازمت کررہا تھا مگر اس کا زیادہ وقت شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کے ساتھ گزرتا تھا۔ وہ ادب کا ایک بہت عمدہ شعور اور مطالعہ رکھنے کے ساتھ ساتھ بلا کا جملے باز بھی تھا، سو اس کی محفل بیک وقت دانش اور طنزو مزاح کا مجموعہ ہوا کرتی تھی اس نے حلقۂ ارباب ذوق کی طرز پر ایک حلقہ ارباب غالب بھی بنا رکھا تھا۔

جس کے سارے انتظامی اخراجات وہ خود برداشت کرتا تھا۔ اب یہ اس کی ’’بندہ جائے جملہ نہ جائے‘‘ ٹائپ طبیعت کا کمال تھا کہ اس حلقے پر سب سے زیادہ جملے بھی وہ خود کستا تھا۔ ایک بار کسی اجلاس میں ایک شاعر کے ساتھ شام منائی جارہی تھی اور صاحب شام کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے تھے۔ خالد ان دنوں بھی بے تحاشا سگریٹ پیا کرتا تھا۔ سو وہ چلتے اجلاس سے اٹھ کر باہر برآمدے میں آکر سگریٹ پی رہا تھا کہ کسی نے اس سے پوچھا کہ اندر یعنی حلقے کے اجلاس میں کیا ہورہا ہے؟ خالد نے ایک لمبا کش لیا اور بہت پکا سا منہ بناکر بولا ،

’’اندر چوہے کو شراب پلائی جا رہی ہے‘‘

اس کی اس جملے بازی، طبیعت کی غیر سنجیدگی اور کھلنڈرے پن کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ وہ شعر کا کیسا اچھا قاری اور پارکھ ہے۔ الفاظ و تراکیب اور فنی رموز پر دسترس کے ساتھ ساتھ اس کا ذخیرہ الفاظ اور تمثال نگاری کا وسیع کینوس بھی اپنی مثال آپ تھا۔ الفاظ و تراکیب کی معنوی اور صوتی باریکیوں کا اس جیسا علم رکھنے والے شاعر اگر نایاب نہیں تو بے حد کمیاب ضرور ہیں۔ وہ خالص اہل زبان تھا مگر پنجابی، ہندی اور فارسی الفاظ کی اندرونی موسیقیت کا بھر پور اور برمحل استعمال اس کی ایک ایسی خوبی تھی جس کے ہم لوگ اس وقت بھی معترف تھے جب ہم سب ابھی اپنی اپنی مشق سخن کی مختلف منازل میں تھے۔

اس کے مزاج میں درویشی، تصوف اور روحانیت کا رنگ اس اعتبار سے بہت حیران کن تھا کہ اپنی عام بول چال اور طرز حیات کے حوالے سے وہ ایک انتہائی بے ترتیب انسان نظر آتا تھا سو جب اس کا پہلا مجموعہ کلام ’’تشبیب‘‘ (جو حمد و نعت کے مضامین اور عقائد پر مشتمل تھا) شایع ہوا تو ہم جیسے اس کے قریبی دوستوں کو بھی زبان و بیان پر اس کی قدرت اور نعتیہ مضامین کے حوالے سے مطالعے کی وسعت دیکھ کر باقاعدہ حیرت ہوئی یہ گویا اس خالد احمد کا پہلا تعارف تھا جو اس کی ہر اگلی کتاب کے ساتھ زیادہ محکم اور استوار ہوتا چلا گیا اور یوں ’’ہتھیلیوں پر چراغ،

پہلی صدا پرندے کی، ایک مٹھی ہوا، دراز پلکوں کے سائے سائے، غم گرفتہ‘‘ اور اب اس کی وفات کے بعد شایع ہونے والی کتاب ’’پہلی پَو، پہلی پروائی‘‘ کے توسط سے اردو دنیا اس خالد احمد سے متعارف اور متاثر ہوئی جو اب یک جا ہوکر اس کے شعری کلیات ’’عرض ہنر‘‘ کے نام سے سامنے آئی ہیں اور جس کی تدوین اشاعت کا سارا کریڈٹ ہماری بھابھی ربانہ خالد کے بے مثال بھائی عمران منظور کوجاتا ہے جس نے خالد کی زندگی اور اس کے بعد بھی نہ صرف جس کے نام اور کام کو زندہ اور محفوظ رکھا بلکہ اس کے جاری کردہ ادبی ماہنامے ’’بیاض‘‘ کو بھی اس کی یادگار کے طور پر ایک زندہ روایت کی شکل دے دی ہے۔

سالے اور بہنوئی کا رشتہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر ایک Awkward رشتے کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر جس طرح سے عمران منظور نے اپنے بہنوئی خالد احمد کا زندگی بھر ساتھ دیا اور نبھایا ہے اس نے اس خاردار صحرا کو ایک مہکتے ہوئے گلشن کی صورت دے دی ہے۔ 1230 صفحات پر مشتمل اس بڑے سائز کے خوبصورت کلیات میں خالد احمد کا سارا کلام جس سلیقے اور خوبصورتی سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس نے اسے ایک ایسی ادبی دستاویز کی شکل دے دی ہے جس سے آنے والی نسلیں خالد احمد کے کام اور مقام سے نہ صرف واقف اور بہرہ مند ہوسکیں گی بلکہ یہ اپنے کمالات فن اور خالد احمد کی تخلیقی صلاحیت کے حوالے سے ہماری شعری روایت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ بھی ہوجائے گی۔

اس مجموعے میں اس کی مختلف کتابوں میں شامل دیباچوں اور تعارفی تحریروں کو بھی جوں کا توں رکھا گیا ہے۔ ان میں سے احمد ندیم قاسمی، حمید نسیم، محمد کاظم اور حفیظ تائب کی تحریریں اس اعتبار سے بے حد وقیع ہیں کہ ان میں اس خالد احمد کے فکر و فن کی بات بے حد عمدہ انداز میں کی گئی ہے جو اب جسمانی طور پر آسودۂ خاک ہونے کے بعد اپنے لکھے ہوئے لفظوں میں زندہ اور تابندہ رہے گا۔ بلاشبہ ’’عرض ہنر‘‘ جدید شعری روایت کا ایک ایسا سنگ منزل ہے جو اپنی جگہ پر خود ایک منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔

خالد احمد نے اپنی کسی غزل کے مصرعے میں کہا تھا کہ ’’مرے مولا مجھے حیران رکھنا‘‘ اس کی یہ دعا قبولیت سے سرفراز ہوئی، اس کتاب ’’عرض ہنر‘‘ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ واقعی ایک بڑا اور حیران کن شاعر تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے