کیا اسد عمر کے پاس کوئی پروگرام ہے؟

ملکی معیشت اگر تباہ حال ہے تو کیا اس کے ذمہ دار عمران خان اور اسد عمر ہیں ؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے ۔ بے رحمی کے ساتھ جو لوٹ مار سابقہ ادوار میں کی گئی اس واردات کا ذمہ دار عمران خان اور اسد عمر کیسے ہو گئے ۔ تو کیا معیشت کے باب میں ساری تنقید سابقہ حکومتوں پر کی جانی چاہیے اور عمران خان اور اسد عمر پر کوئی تنقید نہیں کی جا سکتی ؟ میرے نزدیک اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے ۔

دوست سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ کیسا انصاف ہے ، جو عشروں اس ملک کو لوٹتے رہے ان کی بجائے عمران خان اور اسد عمر کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ انہیں حکومت میں آئے ابھی ڈیڑھ ماہ ہوا ہے ۔ یہ سوال اپنی جگہ درست ہے لیکن اس سوال کی ساری معنویت بھی تحریک انصاف کی حکومت کو تنقید سے نہیں بچا سکتی ۔ موجودہ حکومت پر تنقید کسی اور بات پر ہو رہی ہے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

سابقہ حکمرانوں نے لوٹ مار کی اور خوفناک ۔لیکن وہ آپ کی کسی غلطی ، بلکہ خوفناک غلطی کا جواز نہیں بن سکتی ۔ وہ اب قانون کے شکنجے میں ہیں ۔ ان کا بے رحم احتساب کیجیے ۔ ایسا کہ دنیا دیکھے ۔ لیکن وقت اسی ایک نکتے پر نہیں تھم سکتا ۔ وقت آگے بڑھتا ہے ۔ سابق حکمرانوں سے مایوسی تھی ، تبھی خلق خدا نے آپ کو ووٹ دیے ۔ سوال اب یہ نہیں وہ کرپٹ تھے یا نہیں سوال اب یہ ہے کہ آپ کی اہلیت کا عالم کیا ہے اور تباہ حال معیشت کو بہتری کی طرف لے جانے کے لیے جو صلاحیت درکار ہے کیا آپ اس کا مظاہرہ کر پائے؟

تحریک انصاف کے پاس حکومت آتی تو سارے ملک کو معلوم تھا اسد عمر وزیر خزانہ ہوں گے ۔ اسد عمر کو بخوبی معلوم ہونا چاہیے تھا کہ معیشت کی صورت حال کیا ہے، انہیں چیلنجز سے بھی آگاہی ہونی چاہیے تھی اور ان کے پاس ان چیلنجز سے نبٹنے کے لیے ایک پورا منصوبہ بھی پہلے سے تیار ہونا چاہیے تھا ۔آتے ہی انہیں اس پر کام شروع کر دینا چاہیے تھا ۔ لیکن یہاں محسوس ہوا کہ ان کی سرے سے کوئی تیاری ہی نہیں تھی ۔ اسد عمر سے کسی کا یہ مطالبہ نہیں تھا کہ وہ جادو کی چھڑی سے معیشت کو چند روز میں ٹھیک کر دیں گے ۔ ان سے صرف یہ توقع تھی کہ وہ اس کی سمت درست کرنے کے لیے کوئی ٹھوس پلان ضرور لے کر آئیں گے۔ یہ پلان کہاں ہے؟

جب سوال ہوا کہا گیا ہمیں تین ماہ دے دیجیے اس کے بعد کچھ پوچھیے ۔ چاہیے تو یہ تھا یہ ایک معاشی پروگرام قوم کے سامنے فوری طور پر رکھتے اور پھر کہتے اس کے ابتدائی نقوش واضح کرنے میں ہمیں تین ماہ دیجیے۔ انہوں نے کیا کیا ؟ کہا ابھی ہم سوچ رہے ہیں معیشت کو کیسے بہتر کرنا ہے بس ہمیں ذرا تین ماہ دے دیجیے۔ سوال یہ کہ اب تک آپ کیا کرتے رہے ؟ کیا تبدیلی ایسے آتی ہے؟ چند ماہ قبل اسمبلی میں اسد عمر جن خیالات کا اظہار کرتے رہے کیا وہ محض لہو گرم رکھنے کا بہانہ تھا ؟ وہ بصیرت جس کا کل بہت شہرہ تھا آج اچانک گمشدہ کیوں ہو گئی؟ ہم جیسوں نے تو کل آپ کے وہ خطبے سنجیدگی سے لیے کیا آپ محض تفنن طبع کی شوخی میں وعظ فرماتے رہے ؟

عمران خان نے جب قوم سے پہلا خطاب کیا تو دل کھول کر رکھ دیا اور بتا دیا وہ یہ کرنے جا رہے ہیں ۔ ان کے خطاب سے یہ تاثر ملا کہ اب دو چار روز بعد اسد عمر بھی اسی طرح ایک معاشی پروگرام لائیں گے اور قوم کو اعتماد میں لیں گے ۔ افسوس آج تک ایسا کچھ نہیں ہو سکا ۔ وہ اگر قوم کو اعتماد میں لے لیتے اور بتا دیتے کہ معاشی حالت یہ ہے ۔ اس نے نبٹنے کا ہمارا یہ پلان ہے ۔ اس دوران یہ مشکلات آ سکتی ہیں ۔ ڈالر یہاں تک جا سکتا ہے ۔ پھر اتنے عرصے میں توقع ہے واپس آ جائے گا تو یہ ہیجان اور بے چینی نہ پیدا ہوتی جس کا اب قوم شکار ہو چکی ۔ اب تو افراتفری کا عالم ہے اور ہر آدمی پریشان ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کل کیا ہو گا۔ ایک خوف ہے کہ ڈالر کہیں دو سو پر نہ جا پہنچے۔ اس خوف میں کچھ لوگوں نے ڈالر خرید کر رکھ لیے اور بحران مزید بڑھ گیا ۔ تاثر اس وقت یہ ہے کہ حکومت کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کیا کرنا ہے ۔ یہ تاثر اس بحران کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ جس انداز سے کیا گیا وہ انداز حکیمانہ نہ تھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ۔ اسد عمر کو پہلے دن ہی سے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں جانا ۔ یہ تب ہی ہو پاتا کہ ان کے پاس کوئی ہوم ورک یا پروگرام ہوتا ۔ وہ قوم کو بتا دیتے کہ گھبرانے کی بات نہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا لیکن یہ رقم بہتر استعمال میں لائی جائے گی۔ جب اچانک جانے کا فیصلہ ہوا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دیکھے خوف نے مارکیٹ بٹھا دی ۔ یہی کام اگر معمول کے مطابق ہو جاتا تو کچھ نہ ہوتا ۔ اس سے یہ خوف پیدا ہوا کہ معاملات حکومت کی گرفت میں نہیں آ رہے اور اس کے پاس کوئی جامع پروگرام نہیں ہے ۔ خوف اور سرمایہ اکٹھا نہیں چل سکتے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

ایک جانب معاشی حالت اتنی خراب ہے کہ بھینسیں تک بیچی جا رہی ہیں ۔ دوسری طرف پچاس لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ لایا جا رہا ہے جس کی افادیت ہی مشکوک ہے ۔ اس منصوبے پر بہت سارے سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ غریبوں کے لیے یہ نئے شہر شاہراہوں پر بنائے جا رہے ہیں اور بڑے شہروں سے دور ۔ سوال یہ ہے کہ ان گھروں میں غریب رہ تو لیں گے مگر کھائیں گے کہاں سے ؟ کیا وہ تلاش روزگار میں روز بڑے شہروں تک آنے جانے کے اخراجات کے متحمل ہو سکیں گے۔ اتنے بڑے منصوبے کی بجائے پہلے مرحلے میں شہروں کے اندر یا ان سے متصل چھوٹے چھوٹے پائلٹ پراجیکٹ بنا کر دیکھ لیا جاتا تو کیا یہ زیادہ بہتر نہ ہو تا ۔

اتنا بڑا منصوبہ اور غریب کے مسائل کا ادراک ہی نہیں ۔ غریب نے صرف رہنا نہیں ہوتا کمانے کے لیے اسے مواقع بھی چاہیں ۔ شہروں سے دور ان ویرانے میں یہ گھر بنا کر سرمایہ دار تو پیسہ بنا لے گا غریب کیا کرے گا ؟ اپنے جیسے غریبوں کی اس بستی میں اسے معاشی سرگرمی کہاں سے ملے گی ؟ کیا وہ روز کرایہ خرچ کر کے میلوں دور شہر جایا کرے گا ؟ کیا وہ اس عیاشی کا متحمل ہو سکے گا ؟ اچانک ہاؤسنگ سیکٹر میں اتنی بڑی سرگرمی سے مارکیٹ میں اینٹ ریت بجری سیمنٹ سریا ہر چیز مہنگی ہو جائے گی اور متوسط طبقے کے لیے گھر بنانا ایک نیا عذاب بن جائے گا ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگوں میں جب گھر بنانے کی استطاعت نہیں ہو گی تو بنکوں سے قرض لے کر گھر بنانے کا رجحان بڑھے گا اور سودی شکنجہ مزید پھیل جائے گا۔

المیہ یہ بھی ہوا کہ اہلیت کے ساتھ حکومت کی دیانت پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور اعتماد کا رشتہ مجروح ہوا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کی خبر آئی تو فواد چودھری نے اس کی تردید کی اور واضح طور پر کہا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہو رہا ۔ لیکن پھر کیا ہوا۔ گیس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ۔ اگر اضافہ کرنا تھا تو تردید نہیں کرنی چاہیے تھے اور تردید کر دی تھی تو اضافہ نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ ابھی سرگوشیاں ہو رہی ہیں کہ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کا سونامی آنے والا ہے ۔

صرف ضمنی انتخابات کی وجہ سے رکا ہوا ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے اور ضمنی انتخابات کے بعد یہ قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں تو اس سے حکومت کی دیانت پر مزید سوال اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اسی طرح رزاق داؤد کے حوالے سے فنانشل ٹائمز میں خبر چھپی کہ ہم سی پیک کے بعض منصوبوں پر نظر ثانی کر سکتے ہیں تو اس کی بھر پور تردید کی گئی ۔ دو ہفتے بعد یہی بات خود عمران خان نے کوئٹہ میں کہہ دی ۔ اب عالم یہ ہے کہ روز وفاقی وزراء کے بیانات تو آ رہے ہیں لیکن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ کس کا یقین کیجیے کس کا نہ کیجیے ۔

اعتماد ہی اس حکومت کا زاد راہ تھا اس نے آغاز ہی میں یہی متاع لٹانا شروع کر دی تو سفر کیسے کٹے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے