ایک مشٹنڈہ شہر

لنکنز ان وسطی لندن میں ہے، یہ علاقہ چانسلری لین کہلاتا ہے، فنون لطیفہ کی یونیورسٹی بھی یہیں ہے، جبکہ رائل کالج آف سرجنز اور لندن اسکول آف اکنامکس بھی آس پاس ہی ہے، ہم گوگل سے پوچھتے پچھاتے لنکنز ان پہنچے، دائیں بائیں عمارتیں نظر آرہی تھیں، مگر ان میں سے کسی کے باہر کوئی نام نہیں لکھا تھا، ہم نے آنے جانے والوں سے پوچھا کہ لنکنز ان کہاں ہے، سب نے کندھے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا، ہم تکے سے ایک عمارت میں گھس گئے جہاں تعمیر کا کام جاری تھا، دروازے پر کھڑے گارڈ نے بتایا کہ یہی لنکنز ان ہے، اندر داخل ہوئے تو نوجوانوں کی ٹولیاں مخصوص سیاہ گائون پہنے گھومتی اور تصویریں کھنچواتی نظر آئیں، ایک جگہ Old Hall لکھا ہوا تھا، سیڑھیاں نیچے کو جارہی تھیں، ہم بھی وہیں چلے گئے، معلوم ہوا کہ آج خیر سے گریجوایشن کی تقریب ہے ، گویا وہ دن جب طلبا باقاعدہ بیرسٹر بنتے ہیں، تصاویر بھی اسی لئے کھنچوائی جارہی تھیں۔

اولڈ ہال قریباً ساڑھے پانچ سو سال پرانی عمارت ہے، اسی کے ساتھ چرچ بھی ہے جیسے کہ اس زمانے میں ہر درسگاہ میں ہوا کرتا تھا، ہم نے وہاں موجود اسٹاف سے پوچھا کہ وہ جگہ کہاں ہے جہاں دنیا کے عظیم قانون دانوں کے نام لکھے ہیں، دونوں خواتین نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا اور جواب دیا کہ وہ ایسی کسی جگہ سے واقف نہیں، مایوس ہو کر ہم اولڈ ہال سے باہر نکلے تو ایک زیرو میٹر بیرسٹر سے ٹاکرا ہوگیا، اس نے بتایا کہ سامنے جس عمارت میں تعمیراتی کام ہورہا ہے وہاں غالباً ان لوگوں کے دیواری نقوش بنے ہیں جنہیں تاریخ میں Law Giversکہا جاتا ہے، ہماری بدقسمتی کہ ہم وہ نہ دیکھ سکے کیونکہ مرمت کی وجہ سے اس عمارت میں داخلہ بند تھا۔

لنکنز ان کو The Honourable Society of Lincoln’s Inn کہا جاتا ہے، یہاں سے بیرسٹر بن کر نکلنا ہر قانون دان کا خواب ہے، انگلینڈ اور ویلز میں تین اور بھی ایسی سوسائٹیز ہیں جہاں سے آپ بیرسٹر بن سکتے ہیں مگر لنکنز ان کی بات ہی اور ہے ، یہ ان معنوں میں کوئی کالج نہیں جہاں باقاعدہ لیکچرز دئیے جاتے ہوں اور نصابی کتابیں یاد کرنا پڑتی ہوں، یہ ایک سوسائٹی ہے جس کے آپ رکن بنتے ہیں، قریباً نوماہ تک آپ یہاں رہتے ہیں، سوسائٹی کی شام کی دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں،

ایک ڈنر کی فیس اسی نوے پائونڈ کے لگ بھگ ہے، یہاں کھانے کی میز پر آپ کی معروف قانون دانوں سے گفتگو ہوتی ہے جن میں برطانیہ کے جج، لارڈ، رکن پارلیمنٹ اور سابق وزرائے اعظم بھی ہو سکتے ہیں، ان سے قانون کی پیچیدگیوں پر بحث ہوتی ہے، کیس لاز پر بات چیت ہوتی ہے، ایک دوسرے کو قانونی نکات سمجھائے جاتے ہیں اور یوں ایک سال میں آپ کندن بن کر نکلتے ہیں، قانونی زبان میں اسے (call to the bar)کہتے ہیں۔ قائداعظم 1876اور علامہ اقبال 1877میں لنکنز ان سے وابستہ رہے، ہم نے دونوں کی روحوں کو یاد کیا اور لنکنز ان کو الوداع کہہ کر نکل آئے۔

کچھ سوالوں کے جواب کبھی نہیں ملتے یا یوں کہیے کہ ہم جواب جاننا ہی نہیں چاہتے۔ مثلاً یورپ کی طر ح برطانیہ میں بھی قانون کی عملداری ہے، پورے ملک میں سڑکوں پر لکیریں کھنچی ہیں کسی کی مجال نہیں کہ ان لکیروں سے ادھر ادھر ہوسکے، ذرا دائیں بائیں ہوئے نہیں کہ جرمانے کا نوٹس گھر آگیا، حواس باختہ اوورا سپیڈنگ پر ڈرائیونگ لائسنس منسوخ بھی ہوسکتا ہے جس کا مطلب عملاً خود کشی ہے،

ہر ادارے کا ڈیٹا بیس موجود ہے، آپ کا کچا چٹھا ان کے پاس ہے، ہر ہینکی پھینکی کے نمبر لگتے ہیں، پہلی مرتبہ کوئی چھوٹی موٹی چوری کریں تو کچھ نہیں کہتے، سرزنش کرکے چھوڑ دیتے ہیں مگر اپنے پاس آپ کی حرکت نوٹ کرلیتے ہیں، دوسری مرتبہ کوئی معافی نہیں ، قانون کی ایسی سختی ہے کہ انسان کا دم گھٹنے لگتا ہے، جیسے اگر میاں بیوی میں لڑائی ہوجائے اور نوبت مارپیٹ تک آجائے تو ریاست بچہ چھین کر کسی لاولد جوڑے کو دے دیتی ہے تاکہ بچہ تشدد کی فضا میں پروان نہ چڑھے، یہ ایک ڈریکونین قانون ہے، ایک پاکستانی جوڑا اسی کا نشانہ بنا اور پاگل ہوگیا کہ ان کا بچہ کسی اور کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

دوسری طرف یہی مشٹنڈہ لندن تھا جس نے واشنگٹن کے ساتھ مل کر عراق پر اس لئے حملہ کیا کہ اس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے مگر بعد میں ثابت ہوا کہ یہ الزام نہ صرف غلط تھا بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے جانتے بوجھتے ہوئے اس حملے میں امریکہ کی حمایت کی اور لاکھوں بےگناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ سو برطانیہ میں سائیکل پر بتی نہ لگانے والوں کا چلان تو ہوجاتا ہے مگر برطانیہ کا وزیراعظم اگر لاکھوں معصوموں کا خون کرے تو اسے کیوں نہیں کچھ کہا جاتا، اس بات کا جواب نہیں ملا۔

دوسرا سوال یہاں بسنے والے پاکستانیوں سے متعلق ہے۔ احسان شاہد یہاں گزشتہ بتیس برس سے مقیم ہیں، سیلف میڈ کاروباری انسان ہیں، عملیت پسند ہیں، شاعر ہیں اور اعلیٰ درجے کے جملہ باز ہیں ، اگر موصوف نے زندگی میں کاروبار نہ کیا ہوتا تو لندن کے کسی تھیٹر میں نام کما رہے ہوتے۔ ان سے یہاں کے پاکستانیوں کے متعلق بحث ہوتی رہی، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ بہتر زندگی کی خواہش میں اپنے گلی، محلے، کالج اور یار بیلی چھوڑ کر دیار غیر میں آکر بس جاتے ہیں، یہاں انہیں کوڑے کے ڈھیر نہیں ملتے،

کوئی ٹریفک کے اشارے توڑتا نظر نہیں آتا، لوگ سڑکوں پر بھوکے نہیں سوتے، بیمار ہوں تو سرکار کے خرچے پر اعلیٰ علاج ہوتا ہے، بچے ہوں تو مفت پڑھتے ہیں، مقدمہ ہو تو انصاف ملتا ہے، ظلم ہو تو پولیس داد رسی کرتی ہے، خالص غذا ملتی ہے، صاف پانی ملتا ہے، شفاف فضا ملتی ہے، نہیں ملتی تو شناخت نہیں ملتی، کلچر نہیں ملتا، پرانے بیلی نہیں ملتے، اپنے محلے کے کھوکھے نہیں ملتے، آزادی نہیں ملتی، کئی دہائیاں یہاں گزارنے کے بعد بھی یہ لوگ ہر سال سوچتے ہیں کہ ہم پاکستان واپس کیوں نہ چلے جائیں، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب نہیں ملتا کہ کیوں کوئی شخص جنت جیسے ملک چھوڑ کر پاکستان جیسے ملک میں واپس آنا چاہتا ہے مگر آنہیں پاتا!

تیسرا سوال جس کا جواب نہیں مل پاتا کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں انسان بستے ہیں یا روبوٹ! یہ درست ہے کہ ان لوگوں میں درددل ہے، انسانیت ہے، یہ فلاحی کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں، کیا نوجوان اور کیا بوڑھے رضاکارا نہ طور پر کئی اداروں میں خدمات انجام دیتے ہیں، تحقیق اور جستجو میں بھی یہی لوگ آگے ہیں، مگر یہ سب لوگ پوری سوسائٹی کا شاید پانچ سے دس فیصد ہوں، زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اندھا دھند اپنے کام میں جتے ہیں، پیر سے جمعے کی شام تک لندن ٹیوب میں ٹھنس کر جاتے ہیں،

مشینی انداز میں چلتے ہیں، روبوٹ کی طرح کام کرتے ہیں، انہیں چائے کے مگ میں ایک کی جگہ دو ٹی بیگ ڈالنے کا کہہ دو تو اپنے باس سے اجازت لینے چل پڑتے ہیں، کیونکہ یہ بات ان کے سسٹم میں فیڈ ہی نہیں کی گئی کہ چائے کے کپ میں دو ٹی بیگ بھی ہوسکتے ہیں، کیا واقعی یہ معاشرہ اس قدر مشینی ہے یا یہ بات کہہ کر ہم خود کو ان سے برتر ثابت کرنا چاہتے ہیں! اس سوال کا جواب بھی نہیں ملا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے