نئی نسل کا نمائندہ، اصلاحات کا حامی خاشقجی خاندان

پاکستان میں سعودی عرب کے اسلحے کے سوداگر عدنان خاشقجی کا نام سننے والے کے لیے انجان نہیں تھا لیکن خاشقجی خاندان اپنی امارات، اعلی تعلیم اور گوں نا گوں صلاحیتوں کی وجہ سے گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ صرف سعودی عرب، مشرقی وسطی بلکہ کئی مغربی ممالک میں بھی ایک نمایاں رہا ہے۔

بات دنیا کی شہرآفاق فلموں کی ہو یا کاروبار کی۔ ادب کی ہو یا صحافت اور سیاست کا ذکر ہو۔ خاشقجی خاندان کے کسی نہ کسی فرد کا ذکر اس میں آ جانا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہو گی۔

لیڈی ڈیانا کے ساتھ اپنی دوستی کی وجہ سے مشہور ڈوڈی الافائد اور لندن کے مہنگے اور عالمی سطح پر مشہور شاپنگ سینٹر ہیرڈ کے مالک کی والدہ بھی خاشقجی خاندان سے تھیں۔

استنبول میں سعودی قونصل خانے میں مبینہ طور پر قتل کیے جانے والے صحافی جمال خاشقجی سنہ 1958 میں مدینے پیدا ہوئے تھے جبکہ ان کا خاندان ترکی النسل ہے جو دو نسل پہلے معاش کے نئے مواقع تلاش کرنے سعودی عرب میں آباد ہوا۔ اُس وقت عالمِ عرب سلطنتِ عثمانیہ کی ولایتیں یعنی صوبے تھے اور یہ خطہ ابھی تیل کی دولت سے آشنا نہیں ہوا تھا۔

جمال خاشقجی کے دادا اور عدنان خاشقجی کے والد، محمد خاشقجی ایک ڈاکٹر تھے اور سعودی عرب کے پہلے بادشاہ ملک عبدالعزیز کے شاہی معالج تھے۔ جمال خاشقجی سعودی عرب کے ارب پتی بزنس مین عدنان خاشقجی کے بھتیجے ہیں۔ عدنان کی مالی حیثیت 40 ارب ڈالرز کے قریب بیان کی جاتی ہے۔

محمد خاشقجی نے سعودی عرب کو اپنا وطن تو بنا لیا تھا لیکن ان کا آنا جانا پورے عالمِ عرب میں تھا۔ ان کے بچے عرب دنیا کے مختلف شہروں میں پیدا ہوئے۔ مثلاً عدنان خاشقجی مکہ میں پیدا ہوئے تو عدنان کی بہن سُھیرخاشقجی قاہرہ میں پیدا ہوئیں۔

خاشقجی خاندان کے تمام افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اس خاندان کے تقریباً ہر فرد نے مغرب کے اعلی ترین تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ اس خاندان نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے لڑکوں اور لڑکیوں میں کوئی تفریق نہیں کی۔ اس خاندان کی بچیاں بھی مغربی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے گیئں۔

جمال خاشقجی کی ایک کزن اور عدنان خاشقجی کی بیٹی، نبیلہ اس وقت امریکہ میں ایک کامیاب بزنس وومین ہیں جو اداکارہ بھی رہیں ہیں اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ نبیلہ جیمز نے بانڈ فلم کی سیریز "نیور سے اگین” میں بھی معاون اداکارہ کے طور پر حصہ لیا۔ نبیلہ بیروت میں پیدا ہوئیں تھیں۔

خاشقجی خاندان کے ایک اور فرد، اور جمال کے کزن، عماد خاشقجی، فرانس کے ایک بہت بڑے بزنس مین ہیں جنھوں نے وہاں لینڈ ڈویلیپمنٹ کے کاروبار میں کافی نام اور منافع کمایا۔ ان کی معروف تعمیرات میں فرانس کا تاریخی اور روایتی طرز پر بنایا گیا "شیتو لوئی ششدہم” کہلانے والا محل ہے۔

جمال خاشقجی کی ایک پھوپھی سمیرا خاشقجی کی شادی مصر کے معروف بزنس مین محمد الفاید سے ہوئی تھی، اور وہ لیڈی ڈایانا کے دوست دودی الفاید کی ماں تھیں۔ اس طرح جمال خاشقجی دودی الفاید کے قریبی رشتہ دار بھی بنتے ہیں۔

جمال کی ایک اور پھوپھی، سھیر خاشقجی جو اب امریکہ میں مقیم ہیں، ایک معروف ناول نگار بھی ہیں جن کا انگریزی کا ایک ناول ’میراژ‘ سن 1996 میں شائع ہوا تھا۔ اس ناول نے سعودی معاشرے کی شاہی جاہ جلال اور شان و شوکت کے پیچھے آج کی دنیا کے حرم کی زندگی کو بے نقاب کیا۔

سُھیر نے اس ناول کے ذریعے آج کی سعودی عورت کی شخصی آزادی کیلئے جد و جہد کو بھی اجاگر کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمال خاشقجی کے نظریات میں عورتوں کے حقوق کی چھاپ بہت زیادہ نظر آتی تھی۔

خاشقجی خاندان نے بزنس کے میدان میں تو بہت عروج حاصل کیا ہے، تاہم وہ تعلیم، ابلاغ اور دانشوری کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ اس لحاظ سے خاشقجی خاندان کو سعودی شاہی سیاست اور قبائلی معاشرے میں تبدیلی کے ایک موثر سنگِ میل کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

مبصرین کے مطابق، خاشقجی خاندان جیسے کئی اور پڑھے لکھے اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نئی نسل کے نوجوان اب سعودی بادشاہت میں اپنا نمائندگی کا حصہ مانگ رہیں ہیں۔ یہ نسل سعودی معاشرے کا وہ باشعور طبقہ ہے جو ایک قدامت پسند، مذہبی اور قبائلی معاشرے کو جدید دنیا کی اقدار کے برابر لانا چاہتی ہے۔

موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان نے بظاہر اسی طبقے کو مطمئن کرنے کیلئے اصلاحات کا اور بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کیا تھا، لیکن جمال خاشقجی کی پُراسرار گمشدگی کے بعد ان اصلاحات کی حیثیت اُسی قدامت پسند، مذہبی اور قبائلی معاشرے پر ایک ملمّہ سازی سمجھی جارہی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے