آبدیدہ منصف

لوگ کیوں رو دیتے ہیں؟ آنکھیں کیوں بھر آتی ہیں؟ آنسو کیوں بہہ نکلتے ہیں؟ خوشی سے؟ اپنی یا کسی قریبی کی تکلیف یا موت کے خوف یا اسکی وجہ سے؟ افسوس یا شرمندگی سے؟ بے بسی اور لاچارگی میں؟ کچھ یا کسی کو کھو دینے سے یا اسکے خوف سے؟ کسی کی یاد میں؟ یا پھر مکارانہ، اداکارانہ اور فنکارانہ تقاضوں کے باعث؟

شاید یہ آخری وجہ ہی ھے کہ ’ٹسوے بہانا‘ اور ’مگرمچھ کے آنسو‘ جیسے محاورے ہماری لغت کا حصہ ہیں۔ اگر آپ اچھے اداکار نہیں ہیں تو آنکھوں میں قدرتی آنسو لانا ناممکن ہوتا ھے۔ محمد علی ان چند پاکستانی اداکاروں میں سے تھے جو بغیر گلیسرین کے اپنے آنسوں بہا لیتے تھے اور فلم بین ان کے دکھ میں سچ مچ کے رو دیتے۔ مگر ہمارے رونے دھونے کی تاریخ فلمی صنعت تک محدود نہیں۔ کوئی ایسا حکمران نہیں گذرا جس نے عوام کے سامنے آنسو بہا کر اپنی نیک نیتی کا ثبوت نہ دیا ہو۔ ان حکمرانوں نے قوم کو بھی رونے دھونے کے بہت سے مواقعے فرام کیئے جنکی تفصیل میں جا کر مزید رونا دھونا مقصود نہیں۔ ویسے بھی اتنے بڑے سانحات سے گذرنے کے بعد اب ایک کرکٹ میچ میں شکست ہی قوم کو رلانے کے لیئے کافی ہوتی ھے۔ ویسے رونا صحت کی نشانیوں میں سے ایک ھے۔ طبی ماہرین کی یہ رائے اگر درست ھے تو ہم ایک صحت مند قوم ہیں۔ مگر شاید ہم نے اور ہمارے حکمرانوں نے اس کو اپنی اور عوامی صحت کا واحد ذریعہ سمجھ لیا ھے اور وہ صحتِ عامہ کی خاطرعوام کو رلانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اگر نومولود پیدائش کے فوراً بعد چیخے چلائے نہ تو ماں کی ممتا تڑپ کر اسے رلانے واسطے اسکی پشت پر چپت رسید کرتی ھے۔ بچپن میں کچن سے چوری کرتے پکڑے جانے پر ہم روندی شکل بناتے تو مار کی بجائے پیار ملتا۔ اسی طرح پیار لینے واسطے ماں بھی رونی صورت بناتی ویسی ہی جیسی آجکل ٹی وی پر دیکھنے کو ملتی ھے۔ آج یہ وہی ممتا جیسی ریاست ھے جسکا وعدہ وکلاٴ تحریک کے دوران بیرسٹر اعتزاز احسن نے روتے ہوئے کیا تھا۔ وزیر اعظم بننے اور الیکشن سے پہلے عمران خان کا مشہور فقرہ تھا ’میں انکو رلاٴوں گا۔‘ لوگ سمجھتے رہے وہ شریف خاندان کی بات کر رہے ہیں۔ ویسے بھی بڑے صدمے سے دوچار ہونے کے اگر کوئی شخص آنسو نہ بہائے تو ڈاکٹروں کو اسکی ذہنی صحت کے بارے میں تشویش لاحق ہو جاتی ھے اور اسکو رلانا ضروری ہو جاتا ھے۔

مگر پھر ہم وہ قوم ہیں جس میں ظالم اور مظلوم دونوں ہی رونے دھونے میں کسرِنفسی سے کام نہیں لیتے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ظالم کون ھے اور مظلوم کون۔ فوجی حکمرانوں سے لیکر منتخب وزراآعظم تک سب کسی نہ کسی موقع پر قوم کے سامنے آنسو بہا کر اپنے انسان، مسلمان، معصوم، مظلوم اور محبِ وطن ہونے کا واحد ثبوت دیتے رہے۔ قوم اُن آنسووٴں پر نہ صرف یقیں کرتی رہی بلکہ اُن حکمرانوں کے ’دکھ‘ میں برابر کی شریک بھی رہی۔ بنیادی طور پر ہم ایک بنیاد پرست اور جذباتی قوم ہیں۔ خدا تعالیٰ کے سامنے درد بھرے آنسووٴں سے مصلّہ بھگونے کے بعد بارود بھری جیکٹ سے خدا تعالٰ ہی کی مخلوق کا خون بہا کر اُس پر آنسو بہانے والے بھی ہم ہی لوگ ہیں۔ آرمی پبلک سکول میں بچوں کا دھشت گردوں کے ہاتھ قتلِ عام ہو یا اس سے پہلے کارگل میں فوجی سپوتوں کی قیمتی جانوں کا نقصان حکمرانوں اور عوام کے نمکین آنسو غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کے اچھے داغ بھی ایسے دھو دیتے ہیں کہ جیسے تھے ہی نہیں۔ ہم ہر بار بھول جاتے ہیں کہ شہید زندہ ہوتے ہیں اور انکے لئیے آنسو نہیں بہائے جاتے۔ مگر شاید عوام کے یہ آنسو شہیدوں کی طویل رخصت برائے مدتِ لاامتناع کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی بے حسی اور اپنی بے بسی پر بہائے گئے۔ ایسے میں بے وقعت حکمرانوں اور غافل حکام کے آنسووًں کو ٹسوے یا مگر مچھ کے آنسو نہ کہیں تو کیا کہیں۔

جذباتیات کی لہر نے عوام اور حکمرانوں کے بعد اب اعلی عدلیہ کے ججوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ھے۔ مارچ دو ھزار سترہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک معزز جج توہیں رسالت کا مقدمہ سنتے ہوئے فرطِ جذبات میں رو دیئے۔ نوائے وقت میں ناقابلِ اشاعت قرار دیئے گئے مگر میری فیس بک شائع شدہ ایک کالم میں میں میرا موقف تھا کہ نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ کی مبینہ توہین ناقابل قبول سہی ایک جج کو کھلی عدالت میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا چایئے۔

مگر اب معاملہ ہائی کورٹ کے جج کے کھلی عدالت میں جزبات ِ مذھبی میں رودینے سے بہت آگے نکل گیا ھے۔ ہفتے کو سپریم کورٹ کے ایک معزز جج ایک بین القوامی کانفرنس میں ٹی وی کیمروں کے سامنے پاکستان سے محبت کا اِظہار کرتے ہوئے رو پڑے۔ یہ کہتے ہوئے انکی ہچکی بندھ گئی کہ پاکستان ھے تو ہم ہیں۔ بات تو خوشی کی تھی نجانے وہ کیوں رو دیئے۔ آخر ہمارے ہوتے ہوئے پاکستان کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ھے۔ جنگ اخبار کے مطابق چیف جسٹس اور دوسرے معزز ججز صاحبان بھی آبدیدہ ہو گئے۔ پاکستان کے لیئے ہر پاکستانی کے یہی جذبات ہیں مگر افسوس اس بات کا ھے کہ ھم پاکستان کے لیئے اپنی آیئنی ذمے داریاں نبھانے کی بجائے اسکے لئیے اپنی محبت کے اِظہار اور آنسو بہانے میں زیادہ وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ اب اندازہ کریں کہ پورے ملک کی عدالتوں میں ۲۵ لاکھ سے زائد مقدمات تقریباً ۵۰ لاکھ سے زائد خاندانوں (اوسطاً چار افراد فی خاندان) کو عدالتوں کے چکر لگوا رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک کی اعلی ترین عدالت کے معزز جج صاحبان ان مقدمات کو جلد نمٹانے کی بجائے پانی کی کمی جیسے معاشی مسائل پر نہ صرف مقدمات سن کر انتظامی نوعیت کی ھدایات دے رہے ہیں بلکہ انہیں موضوعاتِ مقدمات پر بینالقوامی کانفرنسیں بلا کر ان میں بذریعہ تقاریر قبل از عدالتی فیصلہ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ کونسی حبالوطنی ھے کہ اپنا آئینی حلف توڑ کر، آیئنی فریضہ چھوڑ کر اور ضابطہ اخلاق مروڑ کر آپ روایتی سیاستدانوں کی مانند ملک کے انتظامی اور حکومتی معاملات پر سرِ عام آنسو بہا کر اپنی حب الوطنی ثابت کرنا شروع ہو جائیں۔ ایسی تقاریب و تقاریر میں ججوں کی ستائشِ باہمی بھی نا قابلِ فہم ھے۔ معزز ججوں کی ازواج محترم سے اگر پانی کی کانفرنس اور اسکی کی تیاری واسطےاپنے شوہرانِ نامدار کو کئی دن اور راتوں کے لیئے چیف جسٹس کومستعار دے سکتیں ھیں تو کم از کم سپریم کورٹ میں ہی تقریباً چالیس ھزار زیر التوا مقدمات کے فیصلوں کے لیئے ایسی اذدواجی قربانی دینا کیوں ممکن نہیں؟ بذریعہ میڈیا عوامی شہرت کے ناگ نے اس سے پہلے بھی ایک چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ڈسا تھا اور وہ صاحب انتخابی سیاست کے ھسپتال پہچنے سے پہلے ہی سیاسی طور پر دم توڑ گئے تھے۔ فوجی آمر کا ڈنڈا ہو یا کسی کینگرو کورٹ میں انصاف کا ہتھوڑا یہ اقتدار میں رہ کر تو عوامی رائے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں مگر بعد میں انکا حشر جنرل مشرف یا افتخار چودھری وار ہوتا ھے۔ فوج اپنی بیرکوں میں اور سرحدوں پر جبکے جج اپنے چیمبروں اور عدالتی کمروں میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ فوج کا ہتھیار دشمن پر چلے اور یا جج کا فیصلہ مجرم کے خلاف آئے دونوں کی آیئنی حدود معین ہیں۔ شادیوں والی ہوائی فائرنگ سے دشمن نہیں مرتا اور کانفرنسں میں منصفوں کی آنسو بھری تقریروں سے نسل در نسل انصاف کے متلاشی خاندانوں کےآنسوں نہیں پونچھے جا سکتے۔ تاہم ملکی عدالتوں میں زیر التوا ۲۵ لاکھ مقدمات اور ان میں سے کچھ ’ تاریخی اور سنہری‘ فیصلوں کا سوچ کر تو آنسو بہانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہم آج تک جتنا روئے ہیں ان سے کئی ڈیم بھرے جا سکتے تھے۔ ایک ڈیم اور سہی۔

[pullquote]قاضی کے آنسو[/pullquote]

کئی سال سے عدالتوں کے دھکے کھاتا جوتیاں چٹخاتا آنسو بہاتا ایک سائل کمرہ عدالت میں داخل ہو اور سامنے ایک جج انصاف کے ممبر پر بیٹھا آنسو بہا رہا ہو تو سائل ایک بار کمرہ عدالت سے باہر جا کر نام کی تختی دوبارہ سے ضرور پڑھتا ہے کہ کہیں غلط جگہ تو نہیں آ گیا ۔ ایک بے بس مجبور لاچار اور مفلس کا رونا تو سمجھ آتا ہے مگر جس شخص کو خدا تعالٰی نے دولت ، عزت، شہرت اور اختیار دیا ہو تاکہ وہ اسکی مخلوق کی خدمت کرے تو پھر اسکا یوں سر عام رو رو کر اپنے برگزیدہ ہونے کا ثبوت دینا منافقت نہیں تو نالائقی ضرور ہے۔ دلوں کے حال اللہ تعالی بہتر جانتا ہے مگر حال ہی میں ایک معزز جج نے کھلی عدالت میں انصاف کے ممبر پر بیٹھ کر جس طرح آنسو بہائے وہ ناقابل فہم ہے۔جج موصوف نے اللہ تعالی کے عطا کردہ رتبے اور اختیار کو منصفانہ انداز میں استعمال کرنے کی بجائے اور توہین رسالت کے مرتکب ملزمان کو مجرم ثابت کرنے کی بجائے خود کو ایک اچھا مسلمان ضرور ثابت کردیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس مقدمے میں سائل رو رہا ہے کہ حکومت توہین رسالت کے مرتکب ملزمان اور ایسے مواد والی سوشل ویب سائٹوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر رہی ، دوسری طرف جن ملزمان کا نام لیا جا رہا ہے وہ رو رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا اور ایسے مواد سے انکا کوئی تعلق ثابت نہیں بلکہ انہیں بے گناہ اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنا یا گیا ، میڈیا پر انکی کردار کشی کی گئی اور انکی جان کو اس حد تک خطرے میں ڈالا گیا کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آنسو بہاتے منصف نے بھی اپنے بیانات اور چند احکامات سے ملزمان کو مجرم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ نامعلوم ملزمان کا نام کچھ ثابت ہونے سے پہلے ہی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا گیا ۔ کسی ملزم کا نام تو نہیں لیا گیا اور ابھی باقاعدہ کاٹی گئی ایف آئی آر میں بھی کسی کا نام نہیں، مگر جو تاثرات ، بیانات اور احکامات معزز جج صاحب کی طرف سے اب تک دیے گئے ہیں اور میڈیا میں جس طرح الزام کو جرم اور ملزم کو مجرم بنایا گیا ہے اسکے بعد شکر ہے کہ کسی منصف کے پاس سرکاری پستول نہیں ہوتا ۔ ہم سب مسلمان نبی کریم ﷺکی ذات پراپنی جان، مال، اپنے ماں باپ اور اولاد قربان کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ نوکری تو بہت معمولی چیز ہے مگر جب خدا تعالی کسی کو اختیار دیتا ہے تو اسکا استعمال کرکے بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی بجائے آنسو بہانے سے سرخرو نہیں ہوا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺکی شان میں گستاخی کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں مگر اس کے لیے گواہان و شہادتوں کا جو معیار مقرر کیا گیا ہے اس معیار پر ملزمان کو پرکھنے سے پہلے انکو مجرم قرار دینا بھی اسلام کا تقاضا نہیں ۔ کسی معزز جج کی طرف سے یہ کہنا کہ ریاست ناکام ہوتی ہے تو لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں یہ تاثر دیتا ہے کہ جیسے اس سے پہلےایک معاملے میں جرم ثابت ہو چکا تھا جبکہ اعلی عدالتوں کے فیصلے اس بر عکس ہیں ۔در اصل سلمان تاثیر کے قتل کے بعد بہت کچھ بدل چکا ہے ۔ مذہب ہم جیسے کمزور اور گنہگار مسلمانوں کی ڈھال بھی ہے اور ہمارے ہاتھ میں ہتھیار بھی ۔

نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غیر ملکیوں کو پھٹیچر قرار دیتے عمران خان کی وڈیو و جاری کرنے والی خاتون صحافی کے شوہر کے خلاف بھی یہی ہتھیار بظاہر تحریک انصاف کے ہماتیوں کی طرف سے چلا یا گیا ۔سوشل میڈیا پر متحرک انصاف بانٹنے والوں نے خاتون صحافی کی شوہر کی گوری رنگت اور سر کے بھورے بال ہونے کے باعث انہیں غیر مسلم گردانتے ہوئے توہین رسالت کی مرتکب ویب سائٹوں سے منسلک قرار دے دیا۔ حتاکہ عمران خان کو خود مداخلت کر کے یہ پراپیگینڈہ رکوانا پڑا۔ اور خاتون صحافی اور اسے شوہر کے ساتھ عمران خان کی بنائی گئی تصویر نے اس جھوٹ کو دفن کر دیا۔

مگر اب ریاست کے طاقت ور اداروں اور با اختیار شخصایات نے بھی مذہب کو ڈھال اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب ریاست اور اسکے اداروں کو اپنے راسخ العقیدہ ہونے کے ثبوت کے طور پر چند شہریوں کے خون کا چڑھاوا دینا پڑ رہا ہے۔ خون کے پیاسوں کی پیاس ہی تو بجھانی ہے۔ اب دوسرے مرحلے میں ریاست نے گیند عدلیہ کے صحن میں پھینک دی ہے۔ ریاست اور اسکے اداروں کو درپیش اندرونی جنونیت کا خطرہ تو ٹل گیا ہے، مگر اب جو گرنیڈ عدلیہ کے صحن میں اچھالا گیا ہے اس گرنیڈ کی نکلی ہوئی پن دیکھ کر کوئی جج روئے گا نہیں تو کیا کرے گا۔ مگر چھوٹی موٹی پرانی صحبت اور تربیت بھی کام آ جاتی ہے۔ اس کلی کے پھول بننے سے پہلے ہی اسے کمال مہارت سے وفاقی حکومت کے داخلی دروازے پر سجا دیا گیا ہے ۔ جہاں سے جلد ہی اس کلی کے پھول کی پتیاں ایک بار پھر بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادی کی قبر پر نچھاور کر دی جائیں گی ۔ ایک اچھی بات تو یہ ہو گی کہ توہین آمیز ویب سائٹس بند کر دی جائیں گی۔ بطور ایک مسلمان ملک اور ریاست ایسا کرنے کیلئے ریاستی اداروں کو اتنے پاپڑ کیوں بیلنے پڑے اس سوال کا جواب تشنہ رہے گا۔ بری بات یہ ہو گی کہ جن ملزم کرداروں سےیہ کہانی شروع ہوئی تھی تاریخ اور معاشرے کی نظر میں وہ بغیر کسی ثبوت اور عدالتی فیصلے کے بدنام رہیں گے، ملنے کے باوجود بھی لاپتہ رہیں گے اور پاکستانی ہونے کے باوجود بھی کچھ پاکستان میں نا آ سکیں گے ۔ خدا تعالی جن لوگوں کو اختیار دیتا ہے وہ اس اختیار کا درست اور فوری استعمال کرتے ہوئے اللہ کی مخلوق کو انصاف دینے کی بجائے اگر محض جذباتی بیان بازی کرتے رہیں تو عین ممکن ہے کہ ظالم بچ جائیں اور مظلوم پھنس جائیں ۔ عدل اور انصاف کی جو تلوار قاضی کے ہاتھ میں تھمائی جاتی ہے اس تلوار کے ہر انسان کی گردن پر چلنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ تلوار مجرم پر چلے مظلوم پر نہیں۔ آج کے دور میں جب فیصلہ کسی ماتحت عدالت میں ٹرائل کے بعد کرناہو تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز ججوں پر اپنی زبان اور اپنے آنسوں پر کنٹرول کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ صد افسوس صورتحال اسکے بر عکس ہے ۔ ریاستی عہدیداروں کیلئے اسلام کی سربلندی اور عظمت واسطے اللہ تعالی کے دیے ہوئے اختیارات ، طاقت کا استعمال اور قوت فیصلہ کو بروئے کار لانا زیادہ اہم ہے نہ کہ فیصلے اور عمل کے وقت جذبات اور آنسوں کے ساتھ بہہ جانا ۔ آنسو تو غریب ، مسکین اور مظلوم سائل بھی بہاتے ہیں ، عادی قاتل ، ملزم بھی دھاڑے مار کر روتے ہیں ، کبھی کبھی وکلاء حضرات بھی فیسوں کے عوض رونا دھونا کرتے ہیں ۔ بڑے بڑے فوجی آمروں ، سیاست دانوں ، سرکاری افسروں اور صحافیوں کو بھی ہم نے آنسو بہاتے دیکھا ہے ۔ کچھ سیاست دان ٹی وی پر مباحثوں سے پہلے نم آنکھوں کے ساتھ تلاوت قرآن پاک بھی کرتے ہیں اور بعد میں جو کچھ ہوتا ہے وہ دنیا دیکھتی ہے ۔ جس طرح سیاست دانوں کے رونے پر عوام ووٹ نہیں دیتے ، ملزمان کے رونے پر انہیں بری نہیں کر دیا جاتا اسی طرح کوئی جج اللہ کی مخلوق کو انصاف دیے بغیر اللہ اور اسکے رسولﷺ سے محبت کا دعوے دار کیسے ہو سکتا ہے۔ پورے ملک کی عدالتوں میں بیس لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں ۔ عدالتوں اور خاص کر ماتحت عدالتوں میں عوام جس طرح انصاف کیلئے در بدر دھکے کھا رہی ہے ایسے میں آٹھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ ، کار، کوٹھی، سکیورٹی اور دوسری سہولیات لینے والے جج کے بہتے آنسو اور غریب سائلین کی خشک آنکھوں میں سے خدا کس کے زیادہ قریب ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ہماری قوم پر اب یہ وقت بھی آنا تھا کہ سائلین انصاف نہ ملنے پر رو رہے ہیں ، ملزمان اپنی بے گناہی کا رونا روتے ہیں اور ہمارے منصف کمرہ عدالت میں تحریری فیصلوں کی بجائے اپنی عاقبت پر ماتم کنا ہیں۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالی حقوق اللہ تو معاف کر دے گا مگر حقوق العباد نہیں ۔ بہر حال ریاستی مفاد میں کچھ کہانیاں جنم دی جاتی ہیں اور کچھ کا رخ موڑا جاتا ہے ۔ ان کہانیوں کے کچھ کرداروں کی قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور کچھ کی قربانی کو نشانے عبرت بنایا جاتا ہے ۔ ہم جیسے شہریوں کیلئے دو ہی راستے ہوتے ہیں، اپنی قربانی یا پھر اپنے بنیادی حقوق کی ۔ ہمارے سینکڑوں پاکستانی ابھی بھی لاپتہ ہیں ۔ ان کے بچے بڑے ہو گئے ہیں۔ انکے لواحقین کی آنکھوں میں بھی آنسو ہیں ، مگر شاید وہ قاضی کے آنسو نہیں ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے