سعودی مدد بھی جواباً کچھ نہ کچھ طلبگار ہو گی

منگل کی رات آٹھ بجے کے قریب خبر آئی کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کی سعودی عرب موجودگی کے دوران پاکستان اور میزبان ملک کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوگیا ہے۔ اس معاہدے کی بدولت سعودی عرب ایک سال کے لئے ہمارے سٹیٹ بینک میں 3ارب ڈالر رکھے گا۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم دکھانے کے لئے فراہم ہوئی اس رقم کے علاوہ وعدہ یہ بھی ہوا کہ پاکستان کو آئندہ تین برسوں کے لئے سعودی عرب ہر سال تین ارب ڈالر مالیت کا تیل نقد رقوم کے بجائے ادھار فراہم کرے گا۔

اس خبر کو اپنے ٹی وی شو میں بیان کرتے ہوئے میرے دل میں اطمینان کی لہر اُٹھی۔ امید جاگی کہ ایسا ہی کوئی بندوبست وزیر اعظم کے 3نومبر سے شروع ہونے والے چینی دورے کے اختتام پر ہوا نظر آئے گا۔ ہماری معیشت کو دو پرانے دوستوں کی مدد سے چند سہارے فراہم ہو جانے کے بعد شاید IMF سے کڑی شرائط کے ساتھ کم از کم تین برسوں کے لئے 12سے 15ارب ڈالر مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ شاید سات یا آٹھ ارب ڈالر ہی کافی ہوں گے اور انہیں فراہم کرنے کے بعد IMF سخت گیر مہاجنوں کی طرح ہمارے معاشی معاملات میں دخل انداز نہیں ہوگا۔ عمران حکومت کو اپنی ترجیحات کے مطابق فیصلہ سازی میں آسانیاں ہوں گی۔

رات سونے سے قبل ٹویٹر اور فیس بک پر پھیلے خیالات کو دیکھا تو تحریک انصاف کے بے تحاشہ پڑھے لکھے متوالے انکساری سے امید کی اس کرن کا خیرمقدم کرتے نظر نہیں آئے۔ بہت فخر سے اعلان بلکہ یہ ہوا کہ عمران خان صاحب کی صورت میں پاکستان کو بالآخر عالمی سطح کا وہ رہ نما مل گیا ہے جو پرچیوں کے بغیر فرفرانگریزی بولتا ہے۔ ’’مسلم اُمہ‘‘ اس پر فخر محسوس کرتی ہے۔ سعودی عرب سے ملی امداد (جی ہاں میں لفظ امداد بہت سوچ سمجھ کر استعمال کررہا ہوں) فتح سومنات کی صورت بناکر پیش ہوتی نظر آئی۔

’’عالم اسلام کے لئے محترم‘‘ ٹھہرائے عمران خان صاحب سے پاکستان کے ’’معاشی بحران‘‘ کا حل ڈھونڈلینے کی دادوتحسین ادا کرنے کے بعد انہیں یاد دلایا گیا کہ معاشی بحران کو حل کردینے کے بعد اب انہیں اس بحران کے ذمہ دار ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ یعنی آصف علی زرداری اور نواز شریف کو ان کے سرکردہ ساتھیوں سمیت احتساب کے شکنجے میں جکڑناہوگا۔ اپوزیشن والے حکومتی مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متحد ہوکر اسے ہٹانے کی جو ترکیبیں سوچ رہے تھے ان کا استعمال اب ممکن نہیں رہے گا۔سعودی عرب میں ہوئے فیصلوں نے انہیں مایوس کردیا ہوگا۔ مایوسی کا شکار ہوئی اس اپوزیشن کی سیاسی قوت ہمیشہ کے لئے تباہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ عمران خان قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ۔

تحریک انصاف کے انٹرنیٹ مجاہدین کے پرجوش خیالات پڑھتے ہوئے مجھے پنجابی کا وہ محاورہ یاد آتا رہا جس میں محلے کے اونترے منڈے (اوباش لڑکے)کسی بیوہ کو گوشہ نشین ہوکر اپنے پر آئی مشکل کی گھڑی سے نبردآزما ہونے کا موقعہ فراہم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

اُدھار تیل کی امید پر شاداں ہوئے دوستوں کو یاد ہی نہ رہا کہ سعودی عرب سے ایسی ہی سہولت پاکستان کو مئی 1998کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی مسلسل تین سال تک میسر رہی تھی۔ اس سہولت کو روکنے کی دھمکی دیتے ہوئے نواز شریف کو سعودی حکومت نے مشرف کے غضب سے بچاکر اپنے ملک میںرکھا تھا۔ پاکستان نے جب ایٹمی دھماے کئے تو اس کے فوری بعد مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر یک دم امریکی ڈالر کے مقابلے میں نوروپے کم ہوگئی تھی۔ ہماری تاریخ میں روپے کی گراوٹ کا یہ معیار تاریخی تھا۔ اس کے بعد موجودہ حکومت کے دور میں کسی ایٹمی دھماکے کے بغیر روپے کی قدر ایک دن میں 11روپے کم ہوئی اور مئی 1998کا بنایا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

ایٹمی دھماکہ کرلینے اور سعودی عرب کی مدد سے اس کی بنا پر پاکستان کا مقدر ہوئے معاشی بحران کو سنبھالنے کے باوجود نواز شریف کی حکومت مئی 1998سے اکتوبر1999تک ہی قائم رہ سکی۔ اس حکومت کا تختہ الٹنے کے باوجود جنرل مشرف معیشت کو سنبھال نہ پائے۔اصل رونق نائن الیون کے بعد لگی جب پاکستان نے افغانستان پر دہشت گردی کے خاتمے کے بہانے مسلط ہوئی امریکی جنگ کی معاونت کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کے کسی وزیر اعظم کے لئے ’’عالم اسلام میں احترام‘‘ کا دعویٰ ویسے بھی مجھے ذوالفقار علی بھٹو کا انجام یاد دلادیتا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھی اسی رہ نما نے رکھی تھی۔لاہور میں اسلامی سربراہان کی کانفرنس کا اہتمام بھی انہوں نے کیا تھا جہاں ایک دوسرے سے شدید نفرت کے باوجود شاہ فیصل اور کرنل قذافی نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ شاہی مسجد میں اکٹھے نماز ادا کی۔ ’’عالم اسلام میں احترام‘‘ سے لہذا عمران خان صاحب کو محفوظ رہنے کی دُعا دینے پر مجبور ہوں۔

آج کا ’’عالم اسلام‘‘ شدید انتشار کا شکار ہے۔ اس کا تازہ ترین اظہار بھی ’’عالم اسلام‘‘ ہی کے ایک معتبر تصور ہوتے ’’سلطان اردوان‘‘کی جانب سے سعودی صحافی جمال خشوگی کے استنبول میں ہوئے قتل کے بارے میں مچائے واویلا سے ہورہا ہے۔ اس واویلا کے باعث امریکہ،برطانیہ،فرانس اور جرمنی کے عالمی سطح پر مؤثر مانے کاروباری اداروں کے سربراہوں نے شاہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے منعقد کروائی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی جس سے ہمارے وزیر اعظم نے منگل کے روز خطاب کیا ہے۔

سعودی ولی عہد امریکی صدر ٹرمپ کے بہت چہیتے تھے۔اس کے 33سالہ داماد کی شاہزادے سے دوستی بہت ذاتی اور گہری ہے۔ اس کے باوجود منگل ہی کے دن ٹرمپ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا کہ وہ جمال خشوگی کے حوالے سے سعودی بیانات سے مطمئن نہیں۔ اس نے بلکہ ان بیانات کو تاریخ کا Worst Ever Cover Upقرار دیا۔ سادہ لفظوں میں جرم چھپانے کی بدترین کاوش۔

ترکی کے صدر کی جانب سے مچائی دہائی کی بدولت سعودی حکومت ایک کڑے وقت سے دو چار ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے اس نازک موقعہ پر ریاض کانفرنس میں شریک ہوکر اسے سہارا دیا ہے۔جواباََ سعودی عرب نے بھی ہماری مشکلات دور کرنے میں مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں جانب سے معاملات سنبھالنے اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی بالغانہ کاوشیں ہوئیں۔ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کو حقیقت پسندانہ انداز میں Dealکرتے ہوئے ایسے ہی رویے اختیار کرنا ضروری ہے۔

سعودی حکومت سے ادھار پر تیل ملنے کی امید نے لیکن عمران حکومت کو اتنا مستحکم ومضبوط بھی نہیں بنادیا کہ وہ ا پنے مداحین کی خواہشات کے احترام میں پاکستان کے ہر بڑے شہر کے چوراہوں میں کھمبے گاڑکر اپنے سیاسی حریفوں کو ’’چورلٹیرے‘‘ ٹھہراتے ہوئے ان پر لٹکادے۔

منگل ہی کے دن ورلڈ بینک کی پاکستان کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں ٹھوس دلائل کے ساتھ اس بات پرز ور دیا گیا ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا بنیادی سبب سیاسی بحران ہے جو 2016سے گھمبیر تر ہوتا جارہا ہے۔ ہماری سیاست میں ثبات واستحکام لائے بغیر معیشت کی گاڑی صحیح سمت میں اپنا سفر جاری نہیں رکھ پائے گی۔

سعودی عرب نے تین ارب ڈالر پاکستان کے خزانے میں صرف ایک سال کے لئے جمع کروائے ہیں۔ آپ اس رقم کو خرچ نہیں کرسکتے۔اپنا وقتی ’’اثاثہ‘‘ ضرور تصور کرسکتے ہیں تاکہ مارکیٹ میں Panicنہ پھیلے اور پا کستان کو دوسرے ممالک سے معاشی مذاکرات کرتے ہوئے تھوڑا اعتمادنصیب ہو۔ادھار تیل کی فراہمی اس کے مقابلے میں ایک ٹھوس پیش رفت ہے۔ یہ مگر ادھار ہے جسے کسی نہ کسی صورت چکانا بھی ہے۔ ہمیں ’’ادھار‘‘ دینے والے کی مشکلات بھی دن بدن بڑھ رہی ہیں۔یمن کی خانہ جنگی کے بعد قطرکا مقاطعہ ہوا اوراب جمال خشوگی کا قتل کچھ تقاضے کررہا ہے۔ ان تقاضوں میں سے چند کو سنبھالتے ہوئے پاکستان کو بھی کچھ حصہ ڈالنا ہوگا۔ امریکہ میں کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ’’فری لنچ‘‘ نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔ سعودی مدد بھی پاکستان سے جواباََ کچھ نہ کچھ کی طلب گار ہوگی۔ اس پر نگاہ رکھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے