خطراتئے اور گھڑیالیے

خطرات جھیلنے اور خطرات سے کھیلنے والے اور ہوتے ہیں۔ یہ صرف خطرات فروش ہیں۔ جتنا بڑا خطرہ تخلیق ہو گا اتنا زیادہ پیٹ کی آگ کا سامان۔ دوسری قسم کا آغاز گھنٹی سے ہوا۔ گھنٹی بڑی ہو جائے تو گھڑیال اور اسے بجانے والا گرو گھنٹال۔ جہاں سے گھنٹی بجتی ہے وہ گھنٹہ گھر کہلاتا ہے۔ کوئی دور تھا گھنٹہ گھر کراچی اور لائل پور کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ اب گرو گھنٹال اور خطرات فروش گھنٹہ گھروں کو لے اُڑے ہیں۔ لہٰذا بے چارے گھنٹہ گھروں کی صرف یاد باقی ہے۔
گلی گلی مری یاد بچھی ہے
پیارے رستہ دیکھ کے چل

لیکن جس گرو گھنٹال کا ذکر آج ہے وہ خود گم کردہ راہ ہے۔ آپ سب، اوپر مذکور دونوں قسموں کی پروڈکٹس کے اشتہار کثرت سے ملاحظہ فرماتے ہیں۔ اس لیے تفصیل گری یا تصویر کشی کی ضرورت نہیں‘ بس نام ہی کافی ہے۔ ایسوں کے لیے داغ اچھے ہوتے ہیں۔ داغوں کے تذکرے سے ماضی قریب کے دو کردار یاد آ رہے ہیں۔ ان میں سے پہلا کردار تھا خطرات فروش کا۔ میرے ایک دیرینہ دوست کلیدی عہدے پر تھے۔ اور خطرات فروش ان کا پرسنل اسسٹنٹ برائے کانا پھوسی سمجھ لیجئے۔ 1990ء کے عشرے میں کراچی کے موجودہ لارڈ میئر وسیم اختر میرے کلائنٹ ہوتے تھے‘ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں فوجداری مقدمات کے انڈر ٹرائل قیدی کی حیثیت سے۔ ساتھ کراچی کی طاقت کے مرکز نائن زیرو کی انچارج باجی بھی۔

ایک شام مارگلہ کی پہاڑیوں میں دوستوں کی ٹولی کے ہمراہ لانگ واک کر کے نیچے اُترا تو ایک جیپ میں سے کوئی شخص پھدک کر ہمارے سامنے آ گیا۔ اس نے اپنا نام بتایا اور کہنے لگا: کسی مقدمے کے سلسلے میں آپ سے بات کرنی ہے۔ اور پھر فوراً ہی لنگوٹیے یار کی طرح میرا ہاتھ پکڑنے میں لگ گیا۔ نہ جانے کیوں اس اجنبی کے لیے طبیعت فوراً مکدّر سی ہو گئی؛ چنانچہ میں نے ایک سٹافر سے کہا: لاء آفس کا وزٹنگ کارڈ دے دو۔ وہ کچھ بڑبڑاتا رہا اور ہم سُنی اَن سُنی کر کے گاڑیوں میں جا بیٹھے۔

اسی شام دو اور آدمیوں کے ہمراہ وہ لاء آفس میں آ دھمکا۔ وقت کے وزیرِ داخلہ کا نام لیتے ہوئے کہنے لگا: آپ کے لیے ہائی الرٹ ہے۔ آپ یہ مقدمے چھوڑ دیں۔ گفتگو کا بقیہ حصہ سیلف سینسرشِپ کے تحت یہاں نہیں لکھ رہا۔ سالوں بعد اسی Name Dropper کو عراق سے فوڈ فار لائف کی دعا لگ گئی۔ اس نے جال بچھایا اور سیاست کی ہما قابو کر لی۔ اس کی کانا پھوسی کے سب سے بڑے victim کو پانی پینے کی ضرورت ہوتی‘ تو بھی وہ پہلے دوڑ کر گلاس کو مشتبہ قرار دے کر اس کا معائنہ کرتا۔ پھر تھوڑا سا پانی ڈال کر خود پیتا۔

آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔ ایسے ہی ایک گرو گھنٹال نے اسی ہفتے کہا: پی ٹی آئی خطرے میں ہے اور اس کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ یادش بخیر! اس قبیل کے کئی لشکر پی پی پی کے دورِ حکومت 2008ء سے شروع کر کے 2013ء تک مسلسل گھنٹہ گھر پر چڑھے رہے‘ اور حکومت اقتدار پر۔ عمران خان کے لیے گرو گھنٹالوں نے جو خطراتی جال بچھایا ہے‘ آئیے اس کی کچھ گرہیں کھول کر دیکھ لیں۔ پہلی گرہ ہے: عمران خان نا تجربہ کار ہیں۔ پاکستان کو تجربہ کار وزیرِ اعظم کی ضرورت ہے۔ مجھے پہلی بات سے ہی اتفاق ہے۔ عمران خان واقعی نا تجربہ کار نکلے۔

برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے بادشاہ اور کرائون پرنس سے 2 بار ملے۔ نہ ان سے کوئی چندا مانگا نہ ہی اپنے لیے تھوڑی سی خیراتِ شاہی‘ جس کے ذریعے لندن یا دبئی میں گھر بنایا جا سکے۔ اگر عمران خان تھوڑے سے بھی تجربہ کار وزیرِ اعظم ہوتے تو لازماً جدہ یا عزیزیہ میں سٹیل مل لگانے کے لیے زمین بادشاہ سے عطیے کے طور پر لے لیتے۔ ساتھ ہی بادشاہ کے زیرِ اثر کسی بینک سے قرضِ حسنہ کے حصول کی درخواست دے کر ملک واپس آ جاتے۔ اس سے پہلے پچھلے 10 سال میں 6 وزرائے ا عظم ہو گزرے۔ 2 نگران اور 4 فُل سائز وزیرِ اعظم۔ چاروں فل سائز وزرائے اعظموں کے اثاثے، ان کے بچوں کے اثاثے۔ ان کے خاندانوں کا رہن سہن۔

ان کے پروٹوکول بلکہ خاندانوں کے پروٹوکول پر خرچہ دیکھ لیجیے۔ حکمران خاندان کے خاندان نسل در نسل تجربہ کار نہ ثابت ہوں تو وکالت نامہ پر جرمانہ کر دیں۔ دوسری گرہ، ضمنی انتخابات 2018ء میں کچھ نشستوں پر پی ٹی آئی کی ناکامی والی ہے۔ میں یہ بات کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ پارلیمانی بورڈ کے سب اجلاسوں میں عمران خان نے پارٹی پارلیمنٹیرینز کو اپنے رشتہ داروں کو ٹکٹ دلوانے سے منع کروایا۔ جہاں جہاں ٹکٹ پی ٹی آئی کے چہرے (Face) کو ملا وہاں نتیجہ پی ٹی آئی کے حق میں نکلا۔ باقی جگہ پی ٹی آئی کے نوجوان ٹائیگرز نے بغاوت کی۔

کچھ انتخابات میں کھڑے ہو گئے اور کچھ انتخابات سے دلبرداشتہ۔ ایسے ہی نوجوان لاہوری وکیلوں کا ایک وفد مجھے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کمیٹی روم میں ملنے آیا‘ جہاں پر میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نور صمد خان کی دعوت پر چائے پینے پہنچا تھا۔

دوسرا فیکٹر عمران خان کی جانب سے حکومت کی ضمنی الیکشن میں مداخلت کے خلاف سخت پالیسی تھی۔ پچھلی حکومتوں کے دور سے ضمنی الیکشن جیتنے کا ماڈل کون نہیں جانتا۔ پٹواری، گرداور، تحصیل دار، اے سی، ڈی سی، تھانے دار، تپے دار، ایس ایچ او، محرر، ڈی پی او‘ ای ڈی او، اے ای او، سکول ماسٹر اور استانیاں‘ صوبائی اور وفاقی محکموں کے ملازمین‘ ہمیشہ سے ضمنی الیکشن جیتنے کا خاندانی اور صدری نسخہ ثابت ہوتے آئے ہیں۔ ضمنی الیکشن 2018ء مکمل طور پر فیئر اینڈ فری ہوئے۔

پی ٹی آئی کچھ نشستوں پر ہار گئی مگر مداخلتِ سرکاری میں ملوث نہ ہوئی۔ ذرا غور فرمائیں‘ کسی گرو گھنٹال کو یہ حقیقت تسلیم کرنے کی ہمت نہ ہوئی یا پھر اجازت نہ ملی۔ تیسری گرہ، ملک کی خراب معاشی حالت ہے۔ ابھی 3 مہینے پہلے یہی گرو گھنٹال خطراتئے اور گھنٹالیے کہتے نہ تھکتے تھے کہ نواز شریف نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا ڈالا۔ ان کا قومی ترانہ یہ تھا: شہباز تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ۔ سادہ سا سوال ہے: ایٹمی پاکستان کی معیشت کی بربادی 10 سال میں ہوئی یا 10ہفتے میں؟؟؟ اس سوال میں اضافے کی گنجائش نہیں بلکہ جواب کی طلب ہے‘ تو بولیے! کیا فرماتے ہیں حضرتِ گرو گھنٹال صاحب بیچ اس مسئلے کے؟؟۔

چوتھی گرہ، مجمع عام میں صرف 4 دن پہلے اسلام آباد کورٹ کمپلیکس کے احاطے میں ڈھیلی ہوئی۔ اس روز میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف‘ جو شریف حکومت کے اپوزیشن لیڈر تھے اور جن کے دور میں عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے مختلف تھانوں میںدہشت گردی کی صرف 4 عدد ایف آئی آرز کاٹی گئیں‘ اور جس دور کی حکمران پارٹی کے سربراہ نمبر دو نے اپوزیشن لیڈر کی نشست پر کھڑے ہو کر کہا‘ وہی مقام جہاں پچھلے سال عمران خان بیٹھتا تھا: ”اس سے پہلے کسی اپوزیشن لیڈر کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا‘‘۔

مگرسچ یہ ہے کہ مقدمہ عمران خان کے خلاف یا شہباز شریف کے خلاف‘ بابر اعوان کے خلاف یا لاہور والے خواجگان برادرز کے خلاف سب کا آغاز اور تحرک قبلہ آلِ شریف کے دور میں ہی ہوا۔ ایک زمانہ تھا جب نون لیگ کاکزن سیاسی جج بھی اس کارِ خیر میں حصہ ڈالتا رہا۔ اب وہ خلیل خان پلاسٹک کی سیاسی فاختہ اڑانے کی ناکام کوشش میں ہے۔ راج نیتی کے اس مہا پُرکھ کی بہادری دیکھیے‘ اس نے آج تک کہیں سے کونسلر کی سیٹ پر بھی الیکشن لڑنے کی ہمت نہیں باندھی۔ وہ بھی کبھی خطراتئے کا روپ دھارتا ہے اور کبھی گھڑیالیے کا بہروپ اپنا لیتا ہے۔

پی ٹی آئی ضمنی الیکشن میں 3 صوبوں اور کراچی سے الیکشن جیتنے والی واحد قومی جماعت ہے۔ خطرہ ہر حکومت کو ہوتا ہے۔ صرف کرپشن سے اور بد انتظامی سے۔ جس تن میں حلال کا اَن لقمہ بن کر اترے اس کا من کبھی میلا نہیں ہوتا‘ اور نہ ہی دامن۔ ٹی وی چینلز پر پاکستانی سیاسی ارسطو 10 ہفتے کی حکومت کو جو مشورہ دینے بیٹھے ہوئے ہیں‘ ان سے ایک سوال تو بنتا ہے۔ ایک نے 22 سال اور دوسرے نے 37 سال پاکستان پر حکمرانی کی۔ یہ عالی دماغ دونوں حکومتوں میں شامل رہے۔ فنِ حکمرانی میں اتنے تجربہ کار تھے تو فالودہ اکائونٹ کیسے کھلے؟ خزانہ کیسے خالی ہوا؟

بین البراعظمی کرپشن کے محلات کس طرح بنے؟ 22 سال میں 37 سال جمع کریں تو59 سال بنتے ہیں‘ یعنی 6 عشرے۔ چلیں قوم کو ارسطو اتنا تو بتا دیں کہ ان کی 59 سالہ حکمرانی میں پاکستان کی 59 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر کیوں مجبور ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے