قلم وقرطاس سے خوف!

کیا نوکِ قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ شاہی محلات ،حفاظتی حصاروں میں تعمیر شُدہ اداروں کے مراکز اور ایوان ہائے اقتدار میں دراڑیں ڈال سکے ۔ ؟یاپھر یہ طاقت اُس ذہن میں ہے جس میں باغیانہ روش پرورش پاکر بادشاہوں کوخوف زدہ کردیتی ہے ۔؟ یا مُجرم وہ ہاتھ ہے جس میں قلم تھمایاجائےتووہ قصیدے لکھنے کی بجائےبغاوت لکھے ۔!شاید مؤخرالذکر زیادہ مُجرمانہ کردارکے حامل ہیں کیوں کہ قلم تو ایک ہتھیار ہے اُسے استعمال کرنے والا ہی یہ طے کرتا ہے کہ اُ س سے ظالم کے ظلم کوشہہ دینے کاکام لے یاپھر مظلوم کے زخم سینے کا۔

بادشاہ ہو،دورِ جدید کاجمہوری حکمران ہو یاکوئی فوجی آمر وہ اپنے آپ کومحفوظ کرنے کے لیے یہ کافی کیوں نھیں سمجھتا کہ اُس کےگرد ایک حفاظتی دستہ، بہت سی گاڑیاں جن میں خصوصی تربیت یافتہ جاں باز موجود ہیں ،اور بہت سے چاپلوس قسم کے دانشور قلم کی تذلیل کرتے ہوئے اُس کے لیے قصیدہ گوئی پر مامور ہیں ۔یہ چند ایک جلالی طبیعت کے حامل جمال خاشقجی جیسے لوگ ہمیشہ ریاست کوکھٹکتے کیوں ہیں ۔ریاست جانتی ہے کہ اس کے پاس کوئی موذی ہتھیار نھیں ، کوئی تربیت یافتہ گِروہ نھیں جو اس کے لیے کام کررہا ہو اورنہ ہی اتنا مال وزر کہ وہ مَحلات میں بیٹھے لوگوں کوخریدکر اُن سے بغاوت کرائے ۔ دربار میں موجود سازشیوں ،قلم فروش دانشوروں اور مال وزر کے حامل سرمایہ داروں سے توریاست کو اتناخوف نھیں ہوتا مگر ہاتھ میں قلم تھامے مظلوم کی حمایت میں لکھنے والا ایک جمال خاشقجی ایساخطرناک کہ اس کوقتل کیے بنا ریاست کی سلامتی خطرے میں رہتی ہے۔

فوجی جرنیل جو خود ہی طاقت کامنبع وسرچشمہ ہے کہ اُس کے اشاروں پر کُشتوں کے پُشتے لگ جائیں وہ بھی ایک قلم اور قلم کار سے خوفزدہ ہے ۔ ایک اخبار کی کیاحیثیت کہ وہ اس کی طاقت کوللکارے سو اس اخبار کابند ہونا اور اس کے لکھاریوں کامُلک بدر ہونا ہی ریاست کے لیے مُفید ہے ۔ بھلا ایک قلم کی یہ جُرات کہ وہ سچ لِکھے ۔؟ طرح طرح کے قوانین اس ضمن میں بنائے جاتے ہیں کہ قلم کو کیالکھناہے ، اخبار کو کیاچھاپناہے اور ٹیلی ویژن پر کیا نشر کرنا ہے ۔ حکمران سیاسی ہو تب بھی عساکر ِ میدان یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کم از کم یہ ہتھیار ہمارے مطابق استعمال ہو۔کون اس قابل ہے کہ اس کی دن بھر کی اول فول کو نشر کرناہے اورکون ایسا ہے کہ اُس کی بمشکل 40 منٹ کی گُفتگو بھی مُلکی سلامتی کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے ۔یہ اختیار توکم ازکم ہمارے پاس ہوتاکہ ہم مُلک کادِ فاع مُستحکم کرسکیں ۔ وجہ پوچھنے لائق توکسی کوچھوڑناہی نھیں مگر کوئی کہیں سے یہ جسارت کر بیٹھے تو اُسے خاموش کراناتو بائیں ہاتھ کاکھیل ہے ۔

دُنیا اس وقت آزادی ِ اظہار کے حوالے سے ایسی حساس کہ کہیں سے یہ خبر آجائے کہ کوئی قلم کار ماراجاچُکا یا قید کیاجاچُکا تو شور برپا ہو جاتاہے ۔اس ملک سے احتجاج کیا جاتا ہے اور اس کے دورے بھی منسوخ کر دیے جاتے ہیں ۔ مگر وہی صورتحال اپنے ہی مُلک میں ہو تو ہر پابندی اخلاقی طور پر درست اور ہر ظُلم ریاستی سلامتی کاپہرے دار.! سعودی عرب کے ایک صحافی کے قتل پر جس طرح دُنیابھر میں ردِ عمل سامنے آیاہے وہ یقینا قابلِ تحسین ہے ۔ تُرکی وامریکہ اور پاکستان کاصحافی طبقہ بھر پور اظہارِ مُذمت کررہاہے ۔ تُرکی میں ناکام بغاوت کے بعد کتنے ہی صحافی پابندِ سلاسل ، کتنے ہی اخبار بند اور کتنے ہی چینلز ریاستی جبر کاشکار ہیں ۔ ٹرمپ اس وقت جورویہ صحافت سے روا رکھے ہوئے ہیں کیا وہ جائز ہے ۔؟ کیا اس رویے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ یا طیب اردوان کو اخلاقی طور پر یہ حق ہے کہ وہ جمال خشگی کی موت پر سعودی عرب سے شِکوہ کریں ۔تماشا تو یہ کہ ایسے پاکستانی صحافی جو ہمیشہ ریاستی پابندیوں کو قبول کرتے آئے اور اُنھیں جواز فراہم کرتے آئے وہ بھی شاہانِ عرب پر نقد کررہے ہیں ۔

سعودی عرب ،تُرکی ،امریکہ ہویا پاکستان سبھی ممالک میں ریاستی اِدارے آزادیِ صحافت پر قدغن لگاتے رہے ہیں ۔ جمال خاشقجی کی موت پر ردِ عمل سے تمام ریاستوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ صحافی طبقہ اب کسی جبر و تشدد کو برداشت نھیں کرے گابلکہ ایسے کسی بھی قدم کا مقابلہ کیاجائے گا۔ وہ وقت گُزر چُکاکہ بوری بندلاشوں ، ہدفی قتل ، قید وبند میں تشدد جیسے بہیمانہ اقدام پر پردہ ڈالاجاسکے ۔ نہ ہی یہ برداشت کیاجائے گاکہ شاہراہوں پر کسی صحافی کوروک کر اُسے زدوکوب کر کے اس سے دستاویز چھین لی جائیں ۔

صحافی کاکام یہ ہوتاہے کہ وہ عوام کی آواز کو ایوانوں تک پہنچائے اور حکمرانوں کومسائل کے حل کی طرف راغب کرے ۔ یہ ایک طرح سے ریاست سے تعاون ہوتا ہے توبجائے تعاون کاصلہ دینے کے اُنھیں کام کرنے سے روکاجائے یاپھر ان کے کام میں رُکاوٹیں ڈالی جائیں تو یہ ناانصافی ہے ۔ چاہیے تویہ کہ ریاست ایسے لوگوں کو سہولیات دے اور انھیں کام کرنے کی آزادی دے مگر آزادیِ اظہار کی اس دُنیامیں بھی صحافی طبقہ کے ہاتھ ،پاؤں اور قلم زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ قلم یا قلم کار ایسے خوف ناک نھیں کہ ریاست خطرے میں پرجائے بلکہ ریاست کے لیے خطرناک خود ریاستی جبر ،غربت ، سیاسی عدم استحکام اور کم شرح خواندگی ہے ۔ قلم اورقلم کاروں سے خوفزدہ ہونے کی بجائے سنجیدگی سے ہمیں اپنے اُن مسائل کے حل کی طرف دھیان دیناہوگا جو مُلکی بقاوترقی کے ضامن ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے