Collaborator کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟

روایت کا تسلسل ایک جمے ہوئے معاشرے کا اشارہ دیتا ہے۔ انتطامی بندوبست، اقدار اور علمی اظہار کے سانچے موجود ہوتے ہیں۔ پیداوار، ہنر اور فنون کی اصطلاحات کا معنی متعین ہوتا ہے۔ مفادات کا توازن استوار ہوتا ہے۔

سطح آب پر گہرے پانیوں جیسا ٹھہراؤ نظر آتا ہے۔ سترہویں صدی کے انگریزی شاعر جان ڈن کو ستاروں کی اتھل پتھل بھی معصوم دکھائی دیتی تھیBut trepidation of the spheres, though greater far, is innocent. ٹھیک دو سو برس بعد رابرٹ براؤننگ کا کردار بظاہر کہتا ہے God’s in His heaven— All’s right with the world! (عرش پر خدا موجود ہے اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے)۔ لیکن اس منظوم تمثیل کا یہ مکالمہ دراصل حقیقی صورت حال کا پرفریب بیانیہ ہے۔ بظاہر بہار کا موسم ہے۔ صبح کا وقت ہے۔ گھاس کی پتیوں پر شبنم کے قطرے چمک رہے ہیں۔

فضا میں تیرتے پرندوں کو اپنی خوش رفتاری کے لئے پر ہلانے کی ضرورت تک نہیں لیکن پس منظر میں تباہی کی سازش ہے، قتل کے منصوبے ہیں۔ بحران کی کار فرمائی ہے۔ اقبال نے اپنے ڈھنگ میں یہی کہا تھا تھا، درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا / چراغ رہگزر کو کیا خبر ہے۔ براؤننگ کو رخصت ہوئے چند ہی برس گزرے تھے کہ دنیا بیسویں صدی کے گرداب میں آن پہنچی جہاں ڈبلیو بی ییٹس (W. B. Yeats) کو صاف صاف کہنا پڑاThings fall apart; the centre cannot hold,یہ وہ مرحلہ ہے جہاں پرانی دنیا اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے اور نئی دنیا کے خدوخال ابھی متعین ہونے کے مرحلے میں ہوتے ہیں۔ لفظ معنی سے جدا ہو جاتے ہیں۔ جہاں تکلم میں ربط نہیں رہتا۔ یقین سے کہنا مشکل ہوتا ہے کہ کوہ ندا پرآوارہ بشارت تمہید مسرت ہے کہ طول شب غم ہے۔ کہانی افسانہ ہو جاتی ہے اور افسانہ علامت۔ تصویر لکیر کے خم سے تجرید کی شکست تک پہنچتی ہے۔

ایسے وقتوں میں لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں اور جمہوریت کو سیاست کے احتساب سے متصف کرتے ہیں۔ خبر کو اختیار کے پیمانے میں محدود کرنا چاہتے ہیں اور صحافی کو امتحان میں ڈالتے ہیں۔ ایک ہجوم عاشقاں کی آنکھوں کے عین سامنے ووٹ پر مہر ثبت کرتے ہیں لیکن تجویز کرتے ہیں کہ جہاں ووٹ کی گنتی ہو، وہ بزم غیر سے تہی چاہیے۔ میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے۔ خدا لگتی کہیے کہ ایسے میں لکھنے والا ایران توران کی نہ ہانکے تو کیا منڈیوں کے بھاؤ لکھے۔ ایران توران کی ہانکنے میں بھی چند در چند قباحت ہے۔ محاورہ ہی سہی مگر ایران کا ذکر تو آ گیا، چوری کہیں کھلے نہ نسیم بہار کی۔ چھوڑیے یہ قصے، آئیے فرانس چلتے ہیں۔

ہٹلر کی افواج قاہرہ نے 10 مئی 1940 کو فرانس پر حملہ کر دیا۔ پورا ملک فتح کرنے میں کل چھ ہفتے لگے۔ پیرس سے کوئی 360 کلومیٹر جنوب میں وشی کے ایک گمنام قصبے اور اس کے کچھ مضافات میں مارشل پٹین کی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی گئی۔ مارشل پٹین پہلی عالمی جنگ میں نام کما چکے تھے لیکن عمر عزیز کے آخری برسوں میں تھے۔ حقیقی حکومت تو قابض افواج کی تھی۔ عسکری امور، خارجہ پالیسی اور معیشت کے فیصلے برلن میں ہوتے تھے۔ لاکھوں فوجی اور شہری غنیم کی قید میں تھے۔ مارشل پٹین کے حصے میں کچھ بلدیاتی اختیارات آئے۔ مارشل صاحب نے مفروضہ حکومت کی اس تنگنائے میں معیشت کی بحالی کا بیڑہ اٹھایا، کیتھولک چرچ کو اعتماد میں لیا، نصاب تعلیم بدل ڈالا، گویا نالیوں پر چونا چھڑکا گیا اور گوشت کی دکانوں پر جالی لگائی گئی۔ وشی حکومت انسانی تاریخ میں اقتدار کی تضحیک کا استعارہ بن گئی۔

وشی حکومت سے تعاون کرنے والے سیاستدانوں، صحافیوں، ادیبوں اور تاجروں کو Collaborator کا خطاب ملا۔ مجھے اردو میں Collaborator کا مترادف نہیں ملا۔ شریک جرم تو فوجداری قانون کی اصطلاح ہے۔ مفاد پرست بھی نہیں کہہ سکتے۔ یہ مخلوق تو ہر حکومت میں پائی جاتی ہے۔ طالع آزما نہیں کہہ سکتے، مارشل پٹین نپولین تو تھے نہیں۔ Collaborator تو خوف، لالچ، کوتاہ نظری ، مجبوری اور محاصرے کی کوئی ملی جلی کیفیت ہے۔

اپنے یہاں کا احوال یہ ہے کہ محترم وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب کے دورے سے چھ ارب ڈالر کی خوشخبری لائے۔ اس میں سے تین ارب ڈالر خزانے میں درشنی رونق دیں گے۔ تین برس تک سالانہ تین ارب ڈالر کا تیل ادھار میں ملے گا اور یہ ادھار کچھ ایسا ہی ہے جیسا سندھ کے تالپور لالہ مول چند رامانی سے قرض لیا کرتے تھے۔

دوسرے لفظوں میں ادائیگی کی نوبت آنے کا امکان کم ہے۔ وزیر اعظم نے ارض مقدس سے واپس آ کر قوم سے جو خطاب کیا اس کے دو نکات تھے۔ چور لٹیروں کا احتساب کریں گے اور برآمدات بڑھائیں گے۔ ان دونوں اہداف میں معاشی تضاد پایا جاتا ہے۔ برآمدات ہی کو لیجیے۔ ہماری کل برامدات میں مصنوعات کا حصہ بمشکل اٹھارہ فیصد ہے۔ صنعتوں میں پھیلاؤ کے بغیر اور کاروباری طبقے کو احساس تحفظ دئیے بغیر مصنوعات کا حجم بڑھایا نہیں جا سکتا۔ اگر کارخانے ہی نہیں لگے گا تو باہر کی دنیا کو کیا افواہیں برآمد کریں گے۔ یہ بھی فرمایا کہ تارکین وطن سرمایہ کاری کے لئے تیار ہیں۔ وہ ایک ہزار ڈالر فی کس عطیات والا منصوبہ تو نیت شب حرام کا مضمون ٹھہرا۔ لکھ رکھیے کہ احتساب کی چھینا جھپٹی اور پکڑ دھکڑ میں سرمایہ کاری نہیں ہوا کرتی۔ سرمایہ اس طرف کا رخ کرتا ہے جہاں سیاسی بندوبست میں استحکام پایا جاتا ہے۔

2018ء کے انتخابات کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ انہیں دستوری تسلسل اور جمہوری بندوبست کی بجائے گویا نئی دنیا کی دریافت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ منتخب حکومت نے خود اختیار کردہ سیاسی تنہائی کی راہ چن لی ہے۔ عمراں خان اور ان کے رفقا ابھی تک خود کو سیاستدان سمجھنے سے بھی انکاری ہیں۔ وفاداری بشرط استواری کی تحسین واجب مگر یہ امر دلچسپ ہے کہ حزب اختلاف حکومت کو کام کرنے کا موقع دینا چاہتی ہے جب کہ حکومت نے کسی ممکنہ ہنگامے سے امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ جمہوری ذہن جانتا ہے کہ ایسی حکومت کو گرانے کی کوشش بذات خود جمہوری مفاد میں نہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں دو متوازی دریا بہتے ہیں۔ ایک دریا یونینسٹ پارٹی سے پھوٹا تھا۔

ریپلکن اور کنونشن لیگ سے ہوتا ہوا قومی اتحاد اور آئی جے آئی تک آیا۔ پھر مسلم لیگ ق کہلایا۔ موجودہ کابینہ میں مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی تعداد ہی کہے دیتی ہے کہ یہ حکومت کس سیاسی دھارے کا تسلسل ہے۔ اچھی بات یہ کہ ملک بھر میں کوئی پچاس کے قریب سیاسی پیران تسمہ پا ایسے ہیں جنہوں نے اپنے شرطیہ منتخب ہونے کی ہوا باندھ رکھی تھی مگر پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ سکے۔ جمہوریت کی کشتی سے یہ غیر ضروری بوجھ اتارنے کا اچھا موقع ہے۔ ان الیکٹ ایبلز کو میثاق جمہوریت کی روح کے عین مطابق پی سی او ججوں والی کوٹھڑی میں رکھ دینا چاہیے۔ اور عمران سرکار کو پورا موقع دینا چاہئیے کہ دل جمعی سے نیا پاکستان بنائے۔ اس دوران قوم Collaborator کا اردو مترادف ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے