کشمیری شناخت کا تنازع اور غزہ ماڈل کی تیاری

نہیں معلوم کشمیری قوم اور کتنے حصوں میں بکھرتی چلی جائے گی ؟ جب بھی لفظ کشمیری کہو ۔۔۔۔ تو کہیں سے کوئی کہتا ہے کشمیری تو صرف صوبہ کشمیر کے بسنے والے ہی ہوتے ہیں ، باقی تو کہیں جم وال ہیں تو کہیں ڈگر دیش کے باسی، کوئی پونچھی ہے تو کوئی پہاڑی، کوئی بلتی تو کوئی گلگتی، کوئی شنا تو کوئی لداخی، غرض بھانت بھانت کی بولیاں اور بھانت بھانت کی شناختیں اور سب کے سب لگتا ہے کہ ایک ان دیکھی منزل کی طرف "سر پٹ” بھاگ رہے ہیں ۔۔۔۔ بے نشان منزل لامتناہی راستہ۔۔۔۔۔

بین الاقوامی طور پر مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ جموں کشمیر کا مسئلہ اس متنازع ریاست جموں کشمیر کے حل کا مسئلہ ہے جو اگست انیس سو سینتالیس کے پہلے ہفتے تک قائم تھی، یہ مسئلہ الگ الگ زبانوں اور خِطوں کے لوگوں کی پہچان کا مسئلہ نہیں، ان سب ذیلی شناختوں کی مشترکہ پہچان اور اس کے سیاسی اور جمہوری مستقبل کا مسئلہ ہے ۔ جب کشمیر کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب کشمیری زبان بولنے والے نہیں یا وادی میں بسنے والے کاشر نہیں بلکہ اس کا مطلب ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت ہا پوری ریاست سمجھا جانا چاہیے.

سوشل میڈیا دیکھیں یا مین اسٹریم میڈیا، ہر طرف ہر کوئی اپنی اپنی زبان بولتانظر آتا ہے، گزشتہ دنوں برطانیہ کے شہر روچڈل میں چوبیس اکتوبر کو یوم شناخت کشمیر کے طور پر برطانیہ کے گوروں اور ایشین کمیوننٹی نے مل کر آزاد کشمیر کا عبوری پرچم بطور شناخت لہرایا تو کچھ احباب نے اس پر اعتراض داغا کہ یہ دن تو تقسیم کشمیر کا دن ہے، یہ کیوں منایا گیا ؟ کچھ نے کہا کہ یہ تو کشمیر کا پرچم نہیں ہے، کسی نے کہا کہ یہ پہاڑیے کب سے کشمیری ہو گئے؟ غرض کسی نے بھی شاید یہ نہیں سوچا کہ ادھورا ہی سہی کوئی موقع تو ہے کہ آزادکشمیر حکومت کا پرچم کشمیریوں کی شناخت کے طور پر سر بلند تو ہو رہا ہے جو انہیں منفرد کر رہا ہے اور اسی بہانے ایک گم شدہ پہچان دوبارہ فروغ پا رہی ہے ۔

غالبآ تمام لوگ جو کہتے اور کرتے ہیں وہ درست ہی ہوتا ہے، غالبآ وہ اپنی اپنی سوچ کے اعتبار سے سب سے بہتر اور سب سے درست بات کر رہے ہوتے ہیں، انہیں اگر دوسرے زاویوں سے بھی دیکھنے کی دعوت دی جائے تو شاید ان کے سوچنے کے انداز میں تبدیلی ممکن ہو سکے مثلآ سابق ریاست جموں کشمیر کے ایک دوسرے ریجن کے ایک پروفیسر ڈاکٹر سے گفتگو کے دوران نیا زاویہ نظر آیا وہ تھا کہ کشمیر کو غزہ بنائے جانے کا پروگرام تیار ہوتا نظر آرہا ہے. اس کے لئے ضروری ہے کہ وادی کو تمام دیگر ریجنل اکائیوں سے الگ کر کے اتنا تنہا کر کے اسے غزہ کی طرح محصور کیا جا سکے. اس کے لیے ضروری ہے کہ ریجنل تفاوتوں کی تفریق کو استعمال میں لاتے ہوئے انہیں مزید دور کر دیا جائے، یوں کشمیر وادی کو غزہ بنانے میں آسانی ہو جائے گی.

دوسری طرف بھارت میں ایک مرتبہ پھر انتخابات کا دور دورہ ہے اور حسبِ سابق اب کی بار پھر پاکستان مخالف نعروں کی بنیاد بنا کر چناؤ اپنے نام کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے. اس میں شک نہیں کے بھارت میں آر ایس ایس کی مرضی کے بغیر نہ تو انتخاب لڑا جا سکتا ہے اور نہ حکومت بنائی جا سکتی ہے.

واقفانِ حال جانتے ہیں کہ آر ایس ایس بھارت کی "ڈیپ سٹیٹ ” کا درجہ رکھتی ہے، بعض احباب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پاکستان نے انتہا پسندی سے جو جنتیں کما لی ہیں، اب بھارت ان جنتوں کو "سورگ” بنا کر حاصل کرنے کی لا حاصل کوشش کرنے میں جٹ گیا ہے ۔ کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بھارتی حکومتوں سے امن مذاکرات کی بجائے پاکستان کی حکومت نے براہ راست آر ایس ایس سے مذاکرات کئے ہوتے تو آگرہ میں ہی امن معاہدے پر دستخط ہو جاتے لیکن پاکستان کے فوجی حکمران کو اس وقت آر ایس ایس کے متعلق درست اطلاعات نہیں دی گئی تھیں ورنہ وہ بھارت کی حکومت کے بجائے آر ایس ایس سے ہی مذاکرات کرتے۔

اب وادی سے ہٹ کر بسنے والے باقی ماندہ باشندگان ریاست جموں کشمیر کے لئے مقام فکر یہ ہے کہ وادی کو غزہ بننے سے کیسے بچایا جائے؟ بھارت آئین کے آرٹیکل 35 اے کے مسئلہ پر کشمیریوں کو ایک لاحاصل بحث میں کامیابی سے اُلجھا چکا ہے. اگر چہ اسٹیٹ سبجیکٹ رولز پاکستان خود گلگت بلتستان میں عشروں پہلے ختم کر چکا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ اور ہم مانیں یا نہ مانیں گلگت بلتستان عملی طور پرصوبہ بنایا جا چکا ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے کندھے پر بندوق رکھ کر مظفرآباد کو بھی پہلے وزارت امور کشمیر کے ماتحت اور پھر ممکنہ طور پر پاکستان کی مققنہ میں نمائندگی کا ڈول بھی ڈالا جاچکا ہے، یقین نہیں تو گنڈا پور صاحب کے دورہ مظفرآباد پر ان کی باڈی لینگویج دیکھ لیں۔

اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا خالی خولی نام اور مشروط حق خود اردیت کا نعرہ روز ہی بلند ہوتا ہے۔ آر پار کشمیر میں پہلے نواز شریف کی جنرل اسمبلی کی تقریر پر واہ واہ کی بازگشت سنائی دیتی تھی ، اب شاہ محمود قریشی کی تقریر پر داد تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں حالانکہ آج تک کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ بین الاقوامی برادری ضمانت دے کہ بھارت کشمیر سے فوجیں نکالے گا تو پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر پہلے عمل درآمد کرنے کے لئے تیار ہے ۔۔

اور کشمیری۔۔۔ کشمیری بے چارے تین میں نہ تیرہ میں، اِدھر آزادی کے لئے کام کرنے والے اس قدر منقسم ہیں کہ جھگڑا قائم ہے ، ڈوگرہ ٹھیک تھا کہ نہیں تھا، ظالم تھا کہ مومن تھا، کشمیری کشمیری ہیں کہ پہاڑی کشمیری ہیں، غرض پونچھی، جم وال اور نہ جانے کیا کیا بحثیں جاری ہیں اور دوسری طرف بچے ہمارے مسلسل مر رہے ہیں. عورتیں ہماری اس پار جنگی ہتھیار کے طور پر اور اس پاران کی عصمت دری سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

بھارت وادی کو محصور کر کے ایک بڑا جیل خانہ تیار کرنے کے لئے اپنی منصوبہ بندی مکمل کر چکا اور ہم ۔۔۔ بقول ایک سینئر تجزیہ کار ” ہم شاید ابھی تک لاکھوں لوگ شہید کروا کر بھی غالبآ تحریک شروع ہی نہیں کر سکے ” وقت ہے کہ سوچیں کہ کس طرح وادی کو غزہ بننے سے کیسے بچایا جائے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے