عرب بھائیوں کا التفات؟

یہ 22 مئی 2017ء کی ایک تپتی دوپہر کا واقعہ ہے۔

صحافت سے وابستہ کچھ افراد ریستوران کی ایک میز کے گرد جمع ہیں۔ یہ مدینہ منورہ کا ایک ہوٹل ہے، مسجدِ نبوی سے چند قدموں کی مسافت پر۔ اس مسافت کو ‘چند قدم‘ کہنا بھی مبالغہ ہے کہ ہوٹل اور مسجد کے مابین بس ایک سڑک حائل ہے۔ یخ بستہ ہوٹل میں باہر کی گرمی کا گزر کہاں اور پھر اِس پر مستزاد ایک مقدس مقام کی قربت کا روح کو سیراب کر دینے والا احساس۔ اس کے با وصف میز کے گرد بیٹھے افراد مضطرب ہیں۔ ان کے چہروں پر بہت سے سوالات لکھے ہیں۔ وہ منتظر ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف آئیں اور ان سے جواب لیں۔

یہ قافلہ ریاض سے مدینہ منورہ پہنچا ہے‘ جہاں وہ ایک اجتماع میں شریک تھا۔ اس اجتماع کو ”عرب اسلامی امریکی کانفرنس‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ اس کے مہمان خصوصی امریکہ کے صدر ٹرمپ تھے جو اس منصب پر فائز ہونے کے بعد، اپنے پہلے غیر ملکی سفر پر یہاں پہنچے تھے۔ اس دورے میں ان کا غیر معمولی استقبال ہوا۔ ان کو، بیٹی اور داماد کے ساتھ، تحفوں سے لاد دیا گیا۔ سعودی عرب نے امریکہ سے اسلحہ خریداری کے معاہدے کیے جن کی مالیت تین سو پچاس بلین ڈالر تھی۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اسلحے کا معاہدہ ہے۔

یہ کانفرنس اس دورے کا حصہ تھی۔ اس میں تمام مسلم ممالک کے سربراہان مدعو تھے۔ کانفرنس کا موضوع دہشت گردی کا خاتمہ تھا۔ اس سے کسے اختلاف ہو سکتا تھا مگر اس کی تفصیل کچھ ایسی تھی کہ پاکستان جیسے مسلمان ملک کے لئے قابلِ قبول نہیں ہو سکتی تھی‘ جو مسلکی اختلاف سے بلند تر ہو کر سوچتا اور مسلمانوں میں وحدت کا علم بردار ہے۔ یہی نہیں، وہ دہشت گردی کے ان محرکات سے بھی اتفاق نہیں کرتا جنہیں یک طرفہ طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے یہی یک طرفہ موقف پیش کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ایران اور حماس کو دہشت گردی کا نمائندہ بنا کر پیش کیا اور ان کے خلاف متحد ہونے کا پیغام دیا۔ مشرقِ وسطیٰ کے مرکز میں بیٹھ کر اسرائیل کا کوئی ذکر نہیں ہوا‘ جو اس خطے کے دل میں پیوست ایک ایسا خنجر ہے جس سے مسلسل انسانی لہو رستا رہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کانفرنس میں مسلم ممالک کی طرف سے جو تقاریر ہوئیں، وہ بھی صدر ٹرمپ کے خطاب کی صدائے بازگشت ہی تھیں‘ جن کا مرکزی نکتہ ایران کی مذمت تھی۔

اس کانفرنس کے پس منظر میں جنگ کا ایک الاؤ دہک رہا تھا جو ابھی تک سرد نہیں ہوا۔ یہ یمن کا محاذ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی شدید خواہش تھی کہ یمن کی خانہ جنگی سعودی عرب ایران تنازع میں تبدیل نہ ہو‘ جس کا لازمی نتیجہ مسلکی کشیدگی ہے۔ پاکستان مسلکی تنوع کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔ نواز شریف صاحب کی کوشش یہ بھی تھی کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں بھڑکی اس آگ کی حدت سے محفوظ رہے۔ مسلکی تنوع کا یہ گل دستہ سلامت رہے۔ اسی لیے انہوں نے اس سے پہلے، سعودی عرب اور ایران کا ہنگامی دورہ کیا تھا جس میں فوج کے سربراہ راحیل شریف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس دورے کا مقصد ثالثی تھا جو یمن کی خانہ جنگی کو ختم کرے‘ جس کا ناگزیر نتیجہ سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی میں اضافہ تھا۔

اسی جذبے کے تحت پاکستان نے اس تنازع میں غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا‘ جس کا اظہار پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کی صورت میں ہوا۔ اِس قرارداد نے ان عرب دوستوں کے دل میں تکدر پیدا کیا جو یہ چاہتے تھے کہ پاکستان اس معرکے میں اپنی فوج کو جھونک دے۔ نواز شریف نے اس سے گریز کیا اور یوں ان کا یہ اقدام بعض دلوں کی گرہ بن گیا۔ یہ تکدر نواز شریف صاحب کے سیاسی زوال کا ایک محرک ثابت ہوا۔ پاناما مقدمے میں اپنے دفاع کے لیے، انہیں بہت سی ایسی دستاویزات کی ضرورت تھی جو عرب امارات میں ان کے خاندان کی تجارتی سرگرمیوں سے متعلق تھیں۔ انہیں یہ دستاویز فراہم نہیں کی گئیں۔ یہ وقت بھی آیا کہ وزیر اعظم پاکستان فون کرتا تھا اور کوئی سنتا نہیں تھا۔

نواز شریف ریاض کانفرنس میں شریک تو ہوئے لیکن تعلقات میں دراڑ پڑ چکی تھی۔ انہیںکانفرنس میں خطاب کا موقع نہیں ملا۔ وقت کی قلت بہانہ بنی۔ کانفرنس کا جو اعلامیہ جاری ہوا، اس میں ایران کی شدید مذمت تھی۔ پاکستان نے شائستگی کے ساتھ خود کو اس اعلامیے سے دور رکھا۔ نواز شریف نے پوری کوشش کی کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ کے تنازعے میں نہ الجھے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالث بالخیر کا کردار ادا کرے۔ پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست سے متاثر نہ ہونے دے۔ امتِ مسلمہ اور پاکستان کے لیے اُن کی یہ خیر خواہی، ان کے لیے وبال بن گئی۔ ریاض کانفرنس میں پاکستان اس پزیرائی سے محروم رہا جو دیرینہ تعلقات میں ہمیشہ جھلکتی رہی۔

وزیر اعظم کے قافلے میں شریک اہلِ صحافت اس صورتِ حال سے دل گرفتہ تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وزیر اعظم نے کانفرنس سے کیوں خطاب نہیں کیا؟ پاکستان کو کانفرنس میں کوئی خصوصی حیثیت کیوں نہیں دی گئی؟ پاکستان سے ایسا کون سا جرم سرزد ہو گیا جس نے اس سرد مہری کو جنم دیا؟ مدینہ منورہ کے ہوٹل میں میز کے گرد بیٹھے صحافیوں کے چہروں پر یہ سوالات لکھے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ انہیں نواز شریف صاحب سے براہ راست ان سوالوں کے جواب ملیں۔

نواز شریف صاحب سرتاج عزیز کی معیت میں کھانے کی میز پر پہنچے تو موجود لوگوں کی توجہ کھانے سے زیادہ وزیر اعظم کی باتوں پر تھی۔ وہ خود کم بولے‘ سرتاج عزیز صاحب نے ان کی ترجمانی کی۔ رازوں سے پردے اٹھتے گئے۔ دھند صاف ہوتی گئی۔ کچھ لفظوں کی مدد سے، کچھ بین السطور۔ اب ایک واضح منظر نامہ سامنے تھا۔ نواز شریف صاحب ایران کے خلاف کچھ کہنے کو تیار نہیں تھے۔ یوں وہ کانفرنس میں تقریر کرنے کا استحقاق کھو بیٹھے۔ معلوم یہ ہوا کہ غیر جانب داری دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ محبت بھی ایک مرحلے پر خراج مانگتی ہے۔

نواز شریف نے پاکستان کو ایک بڑے خلفشار سے بچا لیا۔ یہ اور بات کہ اس کی ایک قیمت ادا کی۔ سعودی عرب کے ان کے خاندان پر احسانات ہیں۔ وہ اس کا وزن محسوس کرتے تھے۔ لیکن اس سے اہم تر ملک و قوم کا مفاد تھا، جس کا بار پاکستان کے عوام نے ان کے کاندھوں پر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے عوام کے احسان کو ترجیح دی۔ ان کا قتدار ہی نہیں، ان کی عزت بھی داؤ پر لگ گئی۔

ن کے ساتھ اس طرز کی ایک واردات پہلے بھی ہو چکی جب بظاہر کارگل کے پہاڑوں پر پھیلے ان کانٹوں کو چننے کے لیے انہوں نے چھٹی کے دن صدر کلنٹن کا دفتر کھلوایا جو دراصل پاکستان کے مفاد کے راستے پر بکھر گئے تھے۔ یہ کانٹے انہوں نے اپنی آنکھوں سے چنے اور اس کی انہیں یہ سزا ملی کہ جہاز میں بھی انہیں ہتھکڑی پہنائی گئی۔ میرا تاثر یہ ہے کہ نواز شریف صاحب آج دو بڑے ‘جرائم‘ کی سزا بھگت رہے ہیں: پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ اور پاکستان کومشرقِ وسطیٰ کے آتش کدے میں جھونکے سے انکار۔

آج ایک بار پھر محبت کا زم زم بہہ رہا ہے۔ عرب بھائیوں کا غیر معمولی التفات ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کو پھر وہ پزیرائی مل رہی ہے جس سے چند سال پہلے اسے محروم کر دیا گیا تھا۔ کیا تعلقات کا وہ مثالی دور ایک بار پھر لوٹ آیا ہے، ہم اپنے بچوں کو جس کی لوری سناتے ہیں؟ کیا یہ محض اظہارِ محبت ہے جو حقیقی ہو تو غیر مشروط ہوتی ہے؟ کیا اس بار محبت کسی خراج کا مطالبہ نہیں کر رہی؟

کچھ لوگ مگر مُصر ہیں کہ اسے سفارتی سطح پر سمجھا جائے۔ ملکوں کے باہمی تعلقات میں محبت کے سوا بھی کچھ ہوتا ہے۔ ہم قومی ریاستوں کے عہد میں زندہ ہیں جہاں مفادات ایک خاص جغرافیائی وحدت میں بروئے کار آتے ہیں۔ مسلم اخوت ایک روحانی احساس تو ہو سکتا ہے، ٹھوس سیاسی یا معاشی حقیقت نہیں۔ میں جب اس پہلو سے اس معاملے کو دیکھتا ہوں تو قافلہ خیال مدینہ منورہ کے ایک ریستوران میں جا کر رک جاتا ہے۔ یادوں کا ایک ہجوم اس گتھی کو سلجھاتا دکھائی دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے