قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے شہباز شریف اور آصف زرداری کی ایک ساتھ آمد

اسلام آباد: کیا پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں فاصلے کم ہونے لگے ہیں؟ صدر ن لیگ شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے ایوان میں ایک ساتھ انٹری مار کر حیران کردیا۔

دونوں رہنما لابی سے ایک ساتھ ہنستے مسکراتے اور خوشگوار موڈ میں گفتگو کرتے ہوئے اسمبلی کے فلور پر داخل ہوئے، اس موقع پر آصف زرداری اورشہباز شریف کی پارلیمنٹ ہاؤس کی لابی میں غیررسمی ملاقات بھی ہوئی۔

بعد ازاں آصف زرداری قومی اسمبلی کے اجلاس سے واپس زرداری ہاؤس روانہ ہوگئے، اس موقع پر صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا شہبازشریف سے ملاقات میں آل پارٹیز کانفرنس پر کوئی پیش رفت ہوئی؟

صحافی کے سوال پر آصف علی زرداری نے کہا کہ ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی اس حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ‘میری زرداری صاحب سے ملاقات ہوئی، ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی، آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے متعلق مشورہ کرکے بتاؤں گا’۔

[pullquote]شہباز شریف کو تاخیر سے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچانے پر مسلم لیگ ن کا احتجاج[/pullquote]

اس سے قبل قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو تاخیر سے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچانے پر مسلم لیگ ن کی جانب سے قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں ضمنی انتخاب میں کامیاب ہونے والے امیدواروں نے حلف اٹھایا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے نو منتخب اراکین اسمبلی سے حلف لیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے پروڈکشن آرڈڑ جاری ہونے کے باوجود شہباز شریف کو ایوان میں تاخیر سے لانے پر مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔

پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نیب والے تو مجھے لانا ہی نہیں چاہتے تھے، کبھی کہا جہاز دستیاب نہیں کبھی کوئی بہانہ بنایا۔

شہباز شریف نے کہا کہ میرے زور دینے پر یہ لوگ مجھے لے کر آئے۔

بعد ازاں شہباز شریف پارلیمنٹ ہاؤس سے قومی اسمبلی میں موجود اپنے چیمبر میں چلے گئے جہاں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی ان سے ملاقات ہوئی، ملاقات میں خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، مریم اورنگزیب اور دیگر پارٹی رہنما بھی موجود تھے۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمیں شہباز شریف کے آنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ن لیگ والوں کو دوبارہ ایوان میں آنا چاہیے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن واپس آئے اور اپنا مؤقف پیش کرے، ہم ان کا مؤقف سنیں گے، ہو سکتا ہے کہ اس سے ہماری رہنمائی ہو اور ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن مکمل طور پر باخبر نہ ہو یا انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کو کس طرح چلانا ہے۔

بعد ازاں شہباز شریف اور ن لیگ کے دیگر ارکان ایوان میں واپس آگئے۔

[pullquote]پانی کی تقسیم پر سندھ سے زیادتی ہورہی ہے، خورشید شاہ[/pullquote]

قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کہا کہ پانی کی تقسمیم پر سندھ کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔

خورشید شاہ نے مزید کہا کہ پانی کی قلت کا کراچی پر بھی اثر پڑتا ہے، اگر پانی کی قلت ہے تواس کی تقسیم بھی یکساں ہونی چاہیے۔

پانی کا مسئلہ پی ٹی آئی کی حکومت کا نہیں، مشترکہ مفادات کونسل میں زیر بحث آیا ہوا ہے، پانی بنیادی مسئلہ ہے وفاق کوصوبوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ کراچی میں کے فور کا مسئلہ ہے اس کا حل نکالا جائے،کراچی میں سارا پاکستان رہتا ہے، کراچی منی پاکستان ہے، اسے 12 ملین کیوسک پانی دینا چاہیے۔

اس موقع پر رہنما پیپلز پارٹی سید نوید قمر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کےبعد پانی صوبائی معاملہ ہے۔

اس کے بعد تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی محمد نے کہا کہ یہ ایوان پورے پاکستان کے حقوق کے تحفظ کا امین ہے، سندھ حکومت نے پانی کی دستیابی کیلئے کام کیا ہوگا، وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی مدد کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی عدم فراہمی سے زیادہ مسئلہ تقسیم کا ہے، پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل کیا جائے تو پانی کی دستیابی ممکن ہوسکے گی۔

علی محمد نے مزید کہا کہ پانی صرف صوبوں نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے، پانی کے معاملے پر خود وزیر اعظم کام کررہے ہیں، وزیراعظم صرف اسلام آباد کےنہیں تمام صوبوں کے بھی وزیر اعظم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں پانی کی فراہمی کیلئے منصوبے زیر غور ہیں، پانی کی لیکج کو روکنے کیلئے بھی ہو رہا یے، پانی کی فراہمی کیلئے دو ارب روپے کے منصوبے منظور کرائے گئے ہیں، فوری طور پر مسئلہ حل نہیں ہوگا، وقت لگے گا۔

علی محمد نے کہا کہ بلین ٹری سونامی کی طرح ہنگامی بنیادوں پر پانی کے مسئلے پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اپوزیشن اراکین بھی ہماری اس کوشش میں ساتھ دیں۔

[pullquote]نکتہ چینی کے بجائے حل نکالنا ہوگا، شاہ محمود قریشی[/pullquote]

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کراچی کے عوام کئی دہائیوں سے ٹینکرز پر گزارا کررہے ہیں، ماضی کی حکومتیں پانی کے سنگین مسئلے پر توجہ نہیں دے سکیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی ایک صوبے کا نہیں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے، ایک دوسرے پر نکتہ چینی کی بجائے مل کر حل تلاش کرنا ہوگا، کراچی منی پاکستان ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پانی صوبوں اور مرکز کی لڑائی کا نہیں، سب کا مسئلہ ہے، پنجاب کا چولستان پانی کیلئے اتنا ہی ترستا ہےجتنا سندھ کا علاقہ ترستا ہے۔

[pullquote]مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے قرارداد پیش کرنے پر تنازع[/pullquote]

وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے قرار پیش کرنے میں اپوزیشن کی مداخلت پر غصے میں آگئے۔

علی امین گنڈا پور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کےخلاف قرارداد پیش کرنا چاہتے تھے تاہم قرارداد پیش کرنے کے دوران اپوزیشن کی مسلسل مداخلت پر علی امین غصے میں آگئے۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ اپوزیشن کی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے اتنے اہم مسئلے سے توجہ ہٹائی جارہی ہے، مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر اپوزیشن کا یہ رویہ قابل افسوس ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکن خورشید شاہ نے کہا کہ پہلے قرارداد کی کاپی اپوزیشن کو فراہم کی جائے پھر قرارداد پیش کی جائے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی۔

قرار داد میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ‘یہ ایوان کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور جارحیت کی مذمت کرتا ہے، عالمی برادری بھارتی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے’۔

قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ ‘مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا چاہیے’۔

اس حوالے سے علی امین گنڈا پور نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 90 ہزار افراد کو شہید کیا جا چکا ہے، مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا، کشمیری اپنی جہدو جہد میں پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں، شہید ہوکر پاکستانی پرچم میں دفن ہوتے ہیں۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم کشمیری بھائیوں کویقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس کل صبح ساڑھے 10 بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے