خودکُشی کے بعد…

اس معاشرے اور اس پر لاگو قوانین کو دونوں ہاتھوں سے سلام جو ایک شخص کو اس نہج پر پہنچانے میں کوئی کسر نہیں رکھتا کہ وہ اپنی زندگی خود اپنے ہاتھوں سے ختم کرلے. وہ شخص اگر بچ جائے تو اس پر دفعات البتہ بنتی ہیں کہ اس نے اپنی جان لینے کی کوشش کی, یہ جُرم ہے.

اس مضمون کا مکمل پس منظر جاننے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے .

ویسے اگر خود کُشی جُرم ہے تو اس شہری کو تحفظ نا دینا حُسن کارکردگی ہوئی؟ تمغہ دیجیئے جناب…

ایسا گھٹیا سلوک تو کوئی کسی غیر سے بھی نہیں کرتا جیسا ہمارے ادارے اپنے ہی شہریوں سے کرتے ہیں. اس بات کو آج سے دو مہینے ہوچلے ہیں کہ ہم نے ایف آئی اے میں ایک درخواست داخل کی تھی جس میں ہم نے یہ مُدا رکھا تھا کی زیاد گُل نامی ایک عام شخص اور سلمان خان نامی ایک صحافی ہمارے لیئے مشکل بنے ہوئے ہیں. معاملہ احد(میرا دوست) اور زیاد گُل کے تنازعے سے شروع ہوتا ہے جس کی سب تفصیل اسی ویب سائیٹ پر میرے اس سے پہلے لکھے گئے کالم میں درج ہے. یہ اس کہانی کا تسلسل ہے.

احد نے اتوار کے روز انصاف نا ملنے اور ہراس کرنے والے شخص کی آن لائن ہراسگی پر دل برداشتہ ہوکر خودکُشی کی کوشش کی ہے. میری اس روز احد سے صبح اٹھتے ہی بات ہوئی کہ میں نے آج اسلام آباد چلے جانا ہے تو مل کر جانا چاہتا ہوں. وہ اس وقت بالکل مطمئن ظاہر ہوتا تھا, اس کی آواز میں بھی کوئی افسردگی نہیں تھی. اس نے کہا کہ میں کچھ دیر میں آپکی طرف آتا ہوں.

میں نے سوچا کہ احد آنے میں وقت لگائے گا, میں باہر کے ایک دو کام بنٹا لیتا ہوں. ٹھیک دن ایک بجے جب میں نے احد کو کال کی تو اس نے نہیں اٹھائی, میں یہی سمجھا کی مصروف ہوگا. اس کے موبائل میں بھی ان دنوں گڑبڑ چل رہی ہے.

لیکن جب واٹس ایپ پر اس کو آن لائن پایا تو پوچھا کہ وہ کہاں ہے. اس نے جواب میں بتایا کہ وہ گھر ہے. میں نے دریافت کیا کہ کیا مجھے تمہارے گھر آنا ہے؟ جس کا جواب پھر نہیں آیا.

میں مطمئن اس لیئے تھا کہ میں نے ابھی تک اس کا فیسبُک پر لگایا وہ اسٹیٹس نہیں پڑھا تھا جس میں اسنے اپنی خود کُشی کا اعلان کر رکھا تھا. میں چونکہ اس کے ریپلائے کا انتظار کررہا تھا, اسی انتظار میں فیسبُک کھول لی جہاں پہلی پوسٹ ہی احد کی تھی کہ وہ اپنی زندگی ختم کررہا ہے. اس پوسٹ میں اس کے کہنے کا متن یہ تھا کہ اس کے ساتھ جو ہوا اس سے سبق لے کر آئیندہ اس جیسے نوجوانوں کی زندگیاں بچا لیجائیں خُدا حافظ.

مجھے چونکہ جو سگنل ملا وہ یہی تھا کہ مجھے جلد سے جلد احد کے گھر پہنچنا ہے اور اسکی جان بچانی ہے. میں اپنے دوست کے گھر, جہاں میں کتاب لینے گیا تھا, سے ایمرجنسی میں بھاگا اور تقریباً آدھے گھنٹے میں احد کے گھر پہنچ گیا. میں نے اس کے کمرے میں بکھرے مختلف ادویات کے پتے سمیٹے اور ان کو اپنے بیگ میں ڈال لیئے. ساتھ ہی کریم بلانے لگ گیا, اس دوران مجھے احد نے بہت روکا کہ میں اس کو مرنے دوں, بچانے کی ہرگز کوشش نا کروں. قریب ہی تھا کہ وہ اس دوران مجھ سے مار کھا لیتا مگر میرے لیئے اہم اس وقت گاڑی کو بلانا تھا. گاڑی آئی. احد کو اس میں بٹھایا مگر یہ پتہ نہیں تھا کہ یہاں قریب اسپتال کون سا ہے. ہمیں معلوم ہوا کہ جناح اسپتال اس وقت بہتر جگہ ہے جہاں احد کی جان بچائی جاسکتی ہے سو ہم نے گاڑی جناح اسپتال کی طرف دوڑا دی.

راستے میں احد پر غنودگی بار بار حملہ کرتی رہی مگر ہم بروقت اسپتال پہنچنے میں کامیاب ٹھہرے. اس سارے وقت میں احد سے بار بار پوچھنے پر معلوم یہ ہوا تھا کہ زیاد گُل نے صبح ہی اس کو دھمکی دی کہ یا دوستی کرلو یا بدنامی کے لیئے تیار ہوجاؤ. کچھ ہی دیر میں اس نے احد کی کسی پُرانی فیسبُک آئی ڈی کو جس کو اس نے بہت پہلے سے ہیک کر رکھا تھا مگر وہ ڈی ایکٹیو تھی, اس کو چالو کیا اور اس میں احد کے خلاف اس کی پرائیویسی خراب کرنے والا مواد ڈالنا شروع کردیا. احد کے رشتہ داروں اور اس کے دوستوں کو انباکس میں وہ اسکرین شاٹس بھیجے گئے کہ احد جس سے دلبرداشتہ ہوا اور اس کو یہ فیصلہ کرتے دیر نا لگی کہ وہ اپنی زندگی ختم کرلے, یہی سب مسئلوں کا واحد حل ہے.

اسپتال میں احد کو ابتدائی طور پر چارکول کی اُلٹیاں کروائی گئیں جو وہاں کھڑے ہر شخص کو ہِلا کے رکھ دینے کا عمل تھا. ابتداء میں یہ بتایا گیا کہ احد کے بچنے کے چانسز بہت کم ہیں لہٰذا ہم ذمہ داری نہیں لیتے. آپ پیپر پر سائن کر دیں یا نہیں کرنا چاہتے تو فوراً اس کی فیملی کو بُلائیں. یہاں فیملی کا سوال انتہائی اہم ہے کہ فیملی اس وقت کہاں تھی کہ جب احد نے یہ حرکت کی. اور تب بھی جب میں اس کے گھر گیا اور اسکو اسپتال لے بھی گیا. قارئین اس وقت گھر پر احد کا بھائی جو نیند سے جاگا تھا اور میرے اندر جانے تک وہ اپنے کمرے میں جاکر سوچُکا تھا. اور دوسرے شخص احد کے والد صاحب تھے جو صحیح سے دیکھ نہیں پاتے. ان کو بس یہ پتہ تھا کی احد کا کوئی دوست آیا تھا اور احد اس کے ساتھ کہیں گیا ہوا ہے. میرے پاس اسپتال پہنچ کر بھی گھر میں موجود کسی کا نمبر نہیں تھا. میں نے اپنی ذمہ داری پر احد کا علاج شروع کرادیا اور ہر طرح کی مشکل کو فیس کرنے کا تہیہ کر بیٹھا. ڈاکٹروں کی حوصلہ توڑنے والی باتیں اور میرا یہ یقین کہ احد مر نہیں سکتا, ان دو کے بیچ میرے وہ آنسو تھے جو وقت بے وقت بہے جارہے تھے. میں نے اس سے پہلے اپنے والد کو اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے دیکھا تھا مگر وہ قدرے پُرسکون تھا. آس پاس کے لوگوں کی صورتوں کے تاثرات بھی احد کی اس تکلیف کے گواہ تھے کہ جب وہ کالی اُلٹیاں کر رہا تھا اور اس درد سے تڑپ کر رو بھی نہیں پارہا تھا.

ڈاکٹروں کی جانب سے پولیس کیس کا کہتے ہوئے ڈرانے کی کوشش نے بھی مجھ پر کوئی اثر نہیں کیا. جس کے بعد ڈاکٹروں کو محسوس ہوگیا کہ اس سے مریض کی ذہنی حالت اور بگڑ جائے گی اور وہ دوبارہ موت کے منہ میں جاسکتا ہے جس سے ہم اس کو نکالنے کی کوشش کررہے ہیں. جیسے جیسے علاج کے مراحل طے ہوتے گئے احد کی جان خطرے سے نکل آئی. دوایوں نے البتہ احد کے جگر کو اچھا خاصہ متاثر کیا ہوا ہے. اسی کو بہتر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.

اداروں سے یہی کہنا چاہوں گا کہ شہریوں کو جب آپ تحفظ نہیں دے سکتے تو پہلے سے ہراساں ہونے والوں کو قانون کے نام پر مزید ہراساں کرنا تو بند کریں. شرم آنی چاہیئے قانون کی نگری میں بیٹھے ان افراد کو جن سے مدد کی امید تو رکھی نہیں جاسکتی مگر خودکُشی کے معاملے کو اچھال کر ایک ذہنی طور پر پہلے سے ہی ڈسٹرب شخص کو یہ سوچنے پر مجبور نا کیا جائے کہ اس نے زندہ بچ کر زندگی کو سنگین غلطی کرلی ہے, بہتر تھا کہ وہ مر ہی جاتا. جہاں تک قانونی کاروائی کی بات ہے تو جناب ہمیں ایف آئی اے کی اس درخواست سے کیا اُمید رکھنی چاہیئے کہ ڈیڑھ ماہ بعد ہمیں پیش ہونے کا حُکم ہوتا ہے. اس وقت تک تو مُلزم کی اتنی حوصلہ افزائی ہوچکی کہ وہ قانون سمیت ہماری درخواست پر کہکہے لگا کر اپنی ہراسگی کی سرگرمیوں میں آج بھی مصروف عمل ہیں. احد کی خود کُشی کی کوشش بھی اسی ہراسگی کا نتیجہ بنی.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے