امام احمد رضا اور ردِّ بدعات ومُنکَرات

امام احمد رضا قادری نَوَّراللہ مَرقدَہٗ کثیرالجہات ‘ جامع العلوم اور جامع الصفات شخصیت ہیں۔ وہ اپنے عہد کے عظیم مُفسِّر ‘ محدِّث ‘ فَقِیہہ ‘ متَکلِّم ‘ مؤرّخ اور مُصلح تھے‘ خانہ ساز تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ان پر شرک وبدعت اور فروغِ منکرات کاالزام لگا ‘ طَعن وتَشنیع کا نشانہ بنایا گیا‘ لیکن یہ سب اِتِّہامات واِلزَامات مفروضوں کی بنیاد پر عائدکیے گئے ‘ نہ کوئی حوالہ دیا گیا اور نہ ہی اُن کے فتاویٰ اور تصانیف کو پڑھنے کی کوشش کی گئی‘گویا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے

اہلسنت وجماعت کو قبوری اور قبر پرست کہا جاتارہا۔امام احمد رضاقادری لکھتے ہیں: ”مسلمان! اے مسلمان!اے شریعتِ مصطفوی کے تابعِ فرمان! جان کہ سجدہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے روانہیں ‘ اس کے غیر کو سجدۂ عبادت تو یقینا اجماعاً شرک ِ مَھین وکفرِ مُبین اور سجدہ تَحِیَّۃ (تعظیمی )حرام وگناہِ کبیرہ بالیقین ‘ اس کے کفر ہونے میںاختلافِ عُلمائے دین ‘ایک جماعتِ فُقہاء سے تکفیر منقول‘‘۔

سجدۂ عبادت تو بہت دور کی بات ہے ‘ اُنہوں نے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے پر قرآن وسنت کی نُصوص سے استدلال کرکے ”اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہ لِتَحْرِیْمِ السُّجُوْدِ التَّحِیََّۃ‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ رسالہ لکھا ۔آپ نے فقہِ حنفی کے مُسلّمہ فتاویٰ واَئِمَّۂ اَحناف کے حوالے سے لکھا : ” عالموں اور بزرگوں کے سامنے زمین چُومنا حرام ہے اور چُومنے والا اور اس پر راضی ہونے والا دونوں گناہگار ‘ کیونکہ یہ بت پرستی کے مُشابہ ہے‘‘‘مزید لکھتے ہیں :” زمین بوسی حقیقۃً سجدہ نہیں کہ سجدے میں پیشانی رکھنا ضرور ہے ‘ جب یہ اس وجہ سے حرام اور مُشابِہِ بت پرستی ہوئی کہ صورۃً قریبِ سجود ہے ‘ تو خود سجدہ کس درجہ سخت حرام اور بت پرستی کا مُشابہ ِ تامّ ہوگا ‘ وَالْعَیَاذُبِاللّٰہ تَعَالٰی ‘‘ ۔

مزید لکھتے ہیں:” مزارات کو سجدۂ (تعظیمی) یامزار کے سامنے زمین چومنا حرام اور حدِّ رکوع تک جھکنا ممنوع ‘‘ ‘ اولیائے کرام کے مزارات کی بات تو چھوڑیے ‘وہ لکھتے ہیں : ” زیارتِ روضۂ انور سید اطہر ﷺ کے وقت نہ دیوارِ کریم کو ہاتھ لگائے ‘ نہ چُومے‘ نہ اُس سے چمٹے ‘ نہ طواف کرے ‘ نہ زمین کو چومے کہ یہ سب قبیح بدعات ہیں ‘‘۔ شَرحِ لُباب کے حوالے سے لکھا: ” رہا مزار کو سجدہ ‘ تو وہ حرامِ قطعی ہے ‘ زائر جاہلوں کے فعل سے دھوکہ نہ کھائے ‘ بلکہ علمائے باعمل کی پیروی کرے ‘ مزار کو بوسے میں (علماء کا ) اختلاف ہے اور چھونا ‘ چِمٹنا اُس کی مثل‘ اَحوَط ( شریعت کا محتاط ترین حکم) منع اور عِلّت(یعنی ممانعت کا سبب ) خلافِ ادب ہونا‘‘۔

فقہی حوالے کے ساتھ مزید لکھا: ” مزار کو سجدۂ (تعظیمی) تو درکنار‘ کسی قبر کے سامنے اللہ تعالیٰ کو سجدہ جائز نہیں ‘ اگر چہ قبلے کی طرف ہو (یعنی یہ بت پرستی کے مشابہ ہے)‘ قبرستان میں نماز مکروہ ‘ کہ اس میں کسی قبر کی طرف رُخ ہوگا اور قبر کی طرف نماز مکروہ ہے ؛ البتہ قبرستان میں مسجد یا نماز کاچبوترہ بنا ہو‘ تو اس میں حرج نہیں ہے۔ قبر کی اونچائی کی بابت ان سے سوال ہوا تو لکھا:” خلافِ سنت ہے ‘ میرے والدِ ماجد ‘ میری والدۂ ماجدہ اور بھائی کی قبریں دیکھیے‘ ایک بالشت سے اُونچی نہ ہوں گی ‘‘۔

امام احمد رضاقادری سے مزاراتِ اولیائے کرام کے طواف کی بابت سوال ہوا‘تو اُنہوں نے لکھا: ” بلاشبہ بیت اللہ کے علاوہ روضۂ رسول سمیت قبور کا طوافِ تعظیمی ناجائز ہے اور غیر خداکو (تعظیماً ) سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسۂ قبر میں علماء کا اختلاف ہے اورمحتاط ترین قول ممانعت کاہے ‘ خصوصاً مزاراتِ طیّبہ اولیائے کرام کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی کہ کم ازکم چار ہاتھ کے فاصلے پر کھڑاہو ‘یہی ادب ہے ‘پھرچومنا کیسے مُتصَوّر ہوسکتاہے‘ عوام کو اسی کا فتویٰ دیا جاتا ہے اور تحقیق کا مقام دوسراہے۔

امام احمد رضا سے سوال ہوا: بعض وظائف میں آیات اور سورتوں کو مَعکوس (اُلٹ) کرکے پڑھنا کیساہے ؟‘اُنہوں نے فرمایا:” حرام اور اَشدّ حرام ‘کبیرہ اور سخت کبیرہ (گناہ )‘کفرکے قریب ہے‘یہ تو درکنار سورتوں کی صرف ترتیب بدل کر پڑھنا ‘اس کی نسبت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کیاایسا کرنے والا ڈرتانہیں کہ اللہ اس کے قلب کو اُلٹ دے ‘چہ جائے کہ آیات کو بالکل معکوس (اُلٹ ) کرکے مُہمل(بے معنیٰ) بنادینا ‘‘۔

آج کل جاہل پیرومُرشِد بنے ہوئے ہیں ‘دین کے علم سے بے بہرہ ہیں ‘اپنی جہالت کا جواز اس طرح کی باتیں بناکر پیش کرتے ہیں کہ طریقت باطنی اور روحانی اَسرارورَمُوزکا نام ہے ‘علماء توصرف الفاظ اورظاہر کو جانتے ہیں ‘اُن کے دل نورسے خالی ہیں ‘ گویا طریقت اور شریعت کو ایک دوسرے کی ضد قراردیتے ہیں ‘امام احمد رضا قادری نے لکھا: ”شریعت اصل ہے اور طریقت اُس کی فرع ‘شریعت مَنبع ہے اور طریقت اس سے نکلاہوا دریا ‘طریقت کی جدائی شریعت سے مُحال و دشوارہے ‘شریعت ہی پر طریقت کا مَدَارہے ‘شریعت ہی اصل کار اورمَحَکّ ومعیار ہے‘شریعت ہی وہ راہ ہے ‘جس سے وصول اِلَی اللہ ہے ‘اس کے سوا آدمی جوراہ چلے گا ‘ اللہ تعالیٰ کی راہ سے دور پڑے گا ‘ طریقت اس راہ کا روشن ٹکڑا ہے ‘طریقت کا شریعت سے جداہونا محال ونامناسب ہے ۔ طریقت میں جو کچھ منکشف ہوتاہے ‘شریعتِ مُطہرہ ہی کے اِتّباع کا صدقہ ہے ۔

جس حقیقت کو شریعت رَد فرمائے ‘وہ حقیقت نہیں ‘ بے دینی اورزَندقہ ہے ‘‘۔امام اہلسنت سے سوال ہوا: ایک شخص شریعت کا عامل نہیں ہے ‘اَحکامِ شریعت کا تارک ہے ‘ اُس کا مُؤاخَذہ کیاجائے توکہتاہے : ” اَحکامِ شریعت تو وصول اللہ کا ذریعہ ہیں اور میں تو واصل ہوچکاہوں‘یعنی منزلِ حق پر پہنچاہواہوں‘لہٰذا میں اب اَحکام کا جواب دہ نہیں ہوں۔اُنہوں نے جلیل القدر ائمۂ تصوف کے حوالے سے لکھا : ”ہاں! واصل(پہنچاہوا)توضرور ہے ‘مگر جہنم میں‘‘‘مزید لکھتے ہیں: ” صوفیہ کرام فرماتے ہیں : بے علم صوفی شیطان کا مسخرہ ہے ‘ اُس کی باگ ڈور شیطان کے ہاتھ میں ہے ‘وہ اُسے اپنی راہ پہ چلاتا ہے ‘حدیث میں ہے:” بغیر فقہ کے عابد بننے والا ایساہے ‘جیسے چکی میں گدھا ‘کہ محنت ِ شاقّہ کرے اورحاصل کچھ نہیں ‘‘۔

لغت میں بدعت ہرنئی چیز کو کہتے ہیں اوراصطلاح شرع میں ”دین میں ایسی چیز اختراع کرنا ‘جس کی اصل دین میں نہ پائی جائے ‘بدعت ہے ‘یعنی ہروہ چیز جوکسی دلیلِ شرعی کے مُعارِض ہو‘بدعت ِ شرعیہ ہے‘‘۔

امام احمد رضا سے سوال ہوا: کیا فلاحِ آخرت کے لیے مُرشدضروری ہے ‘اُنہوں نے جواب میں لکھا : یہ ضروری نہیں ہے‘ ایک مُرشِد عام ہوتاہے ‘فلاحِ ظاہر ہو یا فلاحِ باطن ‘ اس مُرشِد سے چارہ نہیں ‘جو اس سے جداہے ‘بلاشبہ کافر ہے یا گمراہ اور اس کی عبادت تباہ وبرباد ۔ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا: عوام کارہنما :کلامِ عُلماء ‘ علماء کا رہنما : کلامِ اَئِمَّہ ‘اَئِمَّہ کا رہنما : کلام ِرسول اور رسول اللہ کا رہنما : کلام اللہ ۔ شیخ ایصال اور مُرشِد کامل کے لیے انہوں نے چار کڑی شرائط بیان کی ہیں‘جن پر لفظاً ومعنیً پورااترنا ہرایک کے بس کی بات نہیں ہے ‘ اُنہوں نے بیعت کا معنی ومفہوم ‘بیعت کی اقسام ثلثہ ( بیعتِ برکت ‘بیعتِ ارادت اور بیعتِ منفعت) کی تفصیل اوراَحکام بیان کیے ہیں‘جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔

آپ سے سوال ہوا:کیا فرضی مزار بنانا ‘اس پر چادر چڑھانا ‘فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا سا ادب کرنا جائز ہے‘ آپ نے جواب میں لکھا: ”یہ ناجائز اور بدعت ہے ‘اگر کوئی بزرگ کسی کو خواب میں مزار بنانے کا حکم دے ‘تو ایسے خوابوں کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے ‘‘۔بعض لوگ مستحبات میں مشغول ہوکر فرائض کو نظر انداز کردیتے ہیں‘ آپ نے فتوح الغیب کے حوالے سے لکھا: ”ایسے شخص کی سنتیں اور نوافل قبول نہیں ہیں ‘‘۔ آپ سے پوچھا گیا: کیااللہ تعالیٰ کو عاشق اور نبی کریمﷺ کو معشوق کہنا جائز ہے‘ آپ نے جواب میں لکھا: ”عشق کے معنی اللہ تعالیٰ کے لیے محالِ قطعی ہیں ‘قرآن وسنت سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہے اور شرعی ثبوت کے بغیر اللہ کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال قطعاً منع ہے ‘(فتاویٰ رضویہ‘ج:21ص:114)‘‘۔

کئی لوگ ہیں ‘جن کی آمدنی حرام کی ہے ‘لیکن وہ عاشقِ رسولﷺ بن کر محافل منعقد کرتے ہیں ‘لنگر چلاتے ہیں ‘پیسا لٹاتے ہیں ‘ان کی بابت آپ سے سوال ہوا تو آپ نے لکھا: جو حرام مال پر نیاز دیتا ہے اور کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ قبول فرماتے ہیں ‘اس شخص کا یہ قول صراحتاً غلط اور باطل ہے ‘لکھا: زنہار مالِ حرام قابلِ قبول نہیں‘ نہ اسے راہِ خدا میں صرف کرنا روا ‘نہ اُس پر ثواب ‘بلکہ نرا وبال ہے ‘‘۔

وعظ وتذکیر نہایت عمدہ بات ہے ‘سنتِ رسولﷺ ہے ‘اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے ‘مگر اس کی بنیاد قرآن وحدیث‘ سلفِ صالحین اور اکابرِ امت کے فرمودات پر ہونی چاہیے ‘ہر دور میں واعظین لوگوں کے دلوں کو مائل کرنے کے لیے روایتیں ‘قصے اور کہانیاں وضع کرتے رہے ہیں ‘اسی لیے موضوعات پر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ۔صرف مستند اور باحوالہ روایات بیان کرنی چاہئیں ‘ لوگوں کے ذوق سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم ﷺ کی رضا کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے ۔

آج کل ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو قرآن وسنت سے جوڑ کر رکھا جائے ‘ کیونکہ ایک طرف تولبرل ازم کے نام پر اباحتِ کلی کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے اور دوسری جانب رُشد وہدایت کے منصب پر غیر متشرع ‘غیر متدیِّن اور آوارہ منش لوگ ازخود فائز ہوگئے ہیں اور اُن کے ہاں بے عملی اوربے راہ روی کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے ‘اگر شریعت کی رو سے گرفت کی جائے ‘تو کرائے پر علماء دستیاب ہیں‘ جو کہیں نہ کہیں سے حوالہ نکال لائیں گے ‘اس لیے امام اہلسنت نے لکھا: ”واعظ کے لیے صحیح العقیدہ اہلسنت ہونا چاہیے ‘اُسے عالم ہونا چاہیے ‘جاہل کا وعظ کرنا ناجائز ہے ‘بلکہ حدیث پاک میں اس کی بابت وعید آئی ہے :

”اللہ تعالیٰ علمِ حق کو یونہی بندوں کے درمیان سے اٹھا نہیں لیتا ‘بلکہ علمائے حق کے اٹھ جانے (اور اُن کا بدل نہ ہونے)کے سبب اللہ تعالیٰ علم کو اٹھا لیتا ہے‘یہاں تک کہ جب کوئی عالمِ حق باقی نہ رہے‘ تو لوگ جاہلوں کو اپنا (مذہبی) پیشوا بنا لیتے ہیں‘ پھر لوگ اُن سے شرعی مسائل دریافت کرتے ہیںاوروہ جہل پر مبنی فتوے دیتے ہیں ‘خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں‘ ‘(صحیح البخاری:100)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے