شجرہ کیسے گم ہوتا ہے؟

ہندوستان اور پاکستان تقسیم ہوئے تو سرحد کے دونوں طرف بہت سا ادب تخلیق ہوا۔ منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی سے لے کر ناصر کاظمی، منیر نیازی، کملیشور، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، خدیجہ مستور، قرۃ العین حیدر اور عبداللہ حسین تک ایک طویل فہرست ہے جس میں اس عہد ساز واقعے کے سیاسی، معاشرتی، نفسیاتی زاویے کھنگالے گئے۔ 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو ہمارے ادب میں حیران کن طور پر بہت کم ردعمل سامنے آیا۔

نامعلوم یہ انفرادی احساس جرم تھا یا اجتماعی ندامت، اکثریت کے ردعمل کا خوف تھا یا ذمہ دار حلقوں کا جبر یا پھر اپنے ہی خواب کی شکست کا صدمہ، زمینی حقیقت یہی ہے کہ چند اکا دکا مثالوں کے سوا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا موضوع ہمارے ادب میں پورے طور پر اپنے امکانات دریافت نہ کر سکا۔ مستثنیات میں ایک تو فیض صاحب کی ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی…‘ کا ذکر آتا ہے۔ درد کی شدت احساس، ضبط اور پھر بیان کی ہنرمندی میں فیض کا مثل کوئی کیا ہو گا۔ نثر میں انتظار حسین نے یہ امانت اٹھائی۔

انتظار حسین نے اس موضوع کو اپنے افسانے اور ناول میںاس طرح اپنی واردات کا حصہ بنایا کہ 1971ء کے بعد ان کے تخلیقی اظہار کا رنگ ہی بدل گیا۔ 1974ء میں ایک افسانہ لکھا، ’ہندوستان سے ایک خط‘۔ اس کاٹ دار افسانے کے دو اقتباس ملاحظہ فرمائیے اور پھر سوچتے ہیں کہ قیامت کی اس گھڑی میں جب کہ طفلان کوچہ و بازار نے ایک آفت کھڑی کر رکھی ہے، ملک بھر میں کاروبار حیات معطل ہے، بے یقینی اور خوف نے آنکھوں سے نیند چھین لی ہے، انتظار حسین کا یہ افسانہ اور اس کا ہندوستان میں بیٹھا واحد متکلم راوی کیوں یاد آئے…

’سب سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ہمارا شجرہ نسب گم ہو گیا۔ ہمارے اجداد نے کہ سادات عظام میں سے تھے، تاریخ میں بہت مصائب و آلام دیکھے ہیں، مگر شجرے کے گم ہونے کا الم ہمیں سہنا تھا۔ اب ہم ایک آفت زدہ خاندان ہیں جو اپنا ٹھکانہ اور شجرہ گم کر چکا ہے۔‘

’میں پوچھتا ہوں کہ کیا پاکستان میں سب ہی خاندانوں کے شجرے کھو گئے؟ عجب ثم العجب کہ ہم نے دیار ہند میں صدیاں بسر کیں، عیش کا زمانہ بھی گزارا، ادبار کے دن بھی دیکھے۔ اس کی شان کے قربان، حکومتیں بھی کیں، محکوم بھی رہے مگر شجرہ ہر حال میں حرز جاں رہا۔ پر ادھر لوگوں نے پاؤ صدی میں اپنے شجرے گم کر دیے …‘

عزیزان گرامی، کیا شجرہ محض پرکھوں کی ایک فہرست ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ہم میں سے ایسا کون ہے جو تین کے بعد چوتھی پیڑھی کے ناموں سے کوئی ذاتی تعلق رکھتا ہو۔ آڑھی ترچھی لکیروں کے بیچ لکھے یہ نام تو بذات خود پرکھوں کی بیان کردہ روایت ہیں۔ اصل قصہ اقدار کے تسلسل کا ہے۔ شجرہ ان حدود کی ضمانت دیتا ہے جن کی نسل در نسل پاسداری کی گئی۔

ہم نے پاکستان میں ستر برس گزارے۔ اس زمیں کے ٹھنڈے میٹھے پانیوں سے پیاس بجھائی۔ یہاں کی مٹی میں اُگے اناج سے پیٹ بھرا۔ چھتنار درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے۔ دوستیاں دریافت کیں۔ محبت کے رنگ دیکھے۔ اس زمیں کو زندگی کا احسان جانا اور اس کا تشکر ادا کیا۔ اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم نے یہاں سختیاں بھی جھیلیں۔ صدمے اٹھائے، ظلم سہے، ناانصافی دیکھی، بالشتیوں کی رعونت دیکھی، صاحبان کردار کی توہین کا نظارہ کیا۔

ابنائے وطن کی بے بسی پر کڑھتے رہے۔ ان فصلوں کی پامالی پر دل گرفتہ ہوئے جنہیں جسد اجتماعی کی نمو کا حصہ بننا تھا۔ ان امکانات کے زیاں پر اداس ہوئے جو غفلت، کوتاہ نظری اور کردار کی کوتاہی کا نشانہ بنے۔ قائد اعظم کے پاکستان میں ہم نے بیم و رجا کی دھوپ چھاؤں میں دن گزارے۔ پھانسیوں پر جھول گئے۔ برسوں ایسی اندھیری کوٹھڑیوں میں قید رہے جہاں دن اور رات میں فرق کرنا مشکل تھا۔ ہم نے پاکستان سے محبت کا پیمان ترک نہیں کیا۔ ہم پر حرف دشنام دراز کیا گیا، انگلیاں اٹھائی گئیں، بہتان باندھے گئے، ہمیں بے توقیر کیا گیا اور ہمارے ملک کو تماشا بنایا گیا۔

ایک محترم نے فیض صاحب سے مشورہ چاہا کہ بھارت کی ایک یونیورسٹی میں بڑے اکرام والا منصب پیش کیا جا رہا ہے، کیا جواب دوں؟ فیض نے فرمایا، رزق کے لئے دنیا میں کہیں بھی چلے جاؤ، بھارت میں ملازمت نہ کرنا۔ پاکستان سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ فیض بھارت دشمن نہیں تھے، پاکستان دوست تھے۔ پاکستان سے یہ رشتہ ہی ہمارا شجرہ رہا۔ یہ شجرہ دوٹوک اقدار سے عبارت تھا۔ ڈٹ کر سیاسی اختلاف کریں گے۔ آمریت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ضمیر کے اظہار کو کند نہیں ہونے دیں گے اور اس کی قیمت کو ناخن کا قرض سمجھ کر ادا کریں گے۔

پاکستان میں ایک طرف ریاستی ادارے جمہور پر کاٹھی ڈالنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف مفاد پرست عناصر سیاسی ٹوٹ پھوٹ، سماجی انتشار اور معاشی افراتفری سے نفع سمیٹنا چاہتے تھے۔ تیسری سمت میں وہ ہم وطن تھے جنہیں وفاق، دستور، جمہوریت اور حقوق جیسے تصورات ہی سے عداوت تھی۔ ہماری خوفناک ترین لڑائی تو خود اپنی بے بصیرتی سے تھی۔ ہم علم میں کوتاہ اور حکم لگانے میں عجلت پسند تھے۔ ہمارا فکری انتشار اس وسعت نظر کا نتیجہ نہیں تھا جو علمی انکسار سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم اپنی ذات کے اسیر تھے۔ اپنی سوچ کے نہاں خانوں کی تاریکی آنکھ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔

ہم نے یہ سب جھیلا لیکن بھولے سے بھی پاکستان کا برا نہیں سوچا۔ عدالتوں سے منتخب وزیر اعظم کے لیے سزائے موت کا پروانہ وصول کیا اور شکریہ مائی لارڈ کہہ کر پلٹ آئے۔ یہ وہی وزیر اعظم تھا جس نے حسینی والا سیکٹر میں کھڑے ہو کر کہا تھا، ’یہ فوجی شکست نہیں، سیاسی شکست ہے‘۔ اپنے سپاہیوں کی ایسی دلجوئی ذوالفقار علی بھٹو ہی کر سکتا تھا۔

بھٹو میں سو خامیاں تھیں لیکن وہ ایک قوم پرست رہنما تھا۔ کبھی چار جولائی 1999 کی سہ پہر کیمپ ڈیوڈ کے دروازے پر نواز شریف کی تصویر دیکھیے گا۔ پاکستان کا منتخب وزیر اعظم اپنے فوجی سربراہ کی کوتاہ نظری کو بھول کر کارگل کی پہاڑیوں پہ محصور چار ہزار بیٹوں کی جان بچانے کے لیے سر کو جھکائے ہوئے تھا۔ لیاقت علی خان نے بھارت کو مکا دکھایا تو پاکستان ایٹمی قوت نہیں تھا۔ محمد علی بوگرا، انہماک سے کاغذ پر مشرقی پاکستان کے ایک گاؤں کا نقشہ بنا رہے تھے، پنڈت نہرو نے کہا، جناب وزیر اعظم، آپ نے اس مسئلے پر اس قدر غور کر رکھا ہے کہ مجھے اتفاق کرتے ہی بنے گی۔ فیروز خان نون ہمارے لئے گوادر کا تحفہ دے گئے۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ کھلے لفظوں میں اداروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے ہیں۔ عمران خان درست کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے صحیح کہا ہے کہ ایک قانونی معاملے میں فوج کو کیوں گھسیٹا جا رہا ہے۔ افضل قادری اور خادم رضوی سے یہ سوالات پوچھے جائیں۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ جب وطن کا شجرہ گم کر دیا جائے، تاریخ مسخ کر دی جائے اور اقدار کو پامال کیا جائے تو ہجوم کی رہنمائی ان اسفل دماغوں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے جو قومی اثاثوں کی قدر و قیمت نہیں جانتے۔ جو ہمارے شجرے سے نابلد ہیں۔ جنہیں ہم نے جمہور کے خلاف اپنا اثاثہ سمجھا تھا، آج ان کے ہاتھ قوم کے گریبان تک جا پہنچے ہیں۔ ہمارا شجرہ کھو گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے