مولانا سمیع الحق کی شہادت۔ چند پہلو!

مولانا سمیع الحق شہید کردیئے گئے۔ مولانا سے میری ملاقاتیں بہت کم ہیں لیکن ہر ملاقات میں ان کی بے پناہ شفقت مجھے یاد ہے۔ دراصل مولانا کے عظیم والد مولانا عبدالحق میرے والد ماجد مولانا بہاء الحق قاسمی کے بہت عزیز دوست تھے اور مولانا سمیع الحق کویہ رشتہ یاد تھا۔ جیسا کہ گزشتہ روز حامد میر نے بتایا کہ مولانا اپنی یادداشتیں باقاعدگی سے لکھتے تھے اور انہو ںنے اپنی ان یادداشتوں پر مشتمل بہت ضخیم کتاب شائع بھی کی اور دیگر احباب کے علاوہ اس کی ایک جلد مجھے بھی تحفتاً ارسال کی۔ یہ تاریخی لحاظ سے ایک بہت اہم کتاب ہے اور مستقبل کے مورخ کو اس میں بہت کچھ ملے گا!

مولانا ایک دفعہ والد ماجد سے ملاقات کے لئے ہمارے ماڈل ٹائون والے گھر بھی تشریف لائے تھے لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ میں ایک کھلنڈرا سالڑکا تھااور خود مولانا بھی جوان تھے۔ والد ماجد نے مجھے ان کے والد ماجد کے بارے میں بتایا کہ ہمارے درمیان بہت محبت کارشتہ ہے۔ پھر جب میں عملی زندگی میں داخل ہوا تو مولانا سے چندملاقاتیں مختلف محفلوں میں ہوئیں۔ وہ ہمیشہ مجھے اپنے کسی قریبی عزیز کی طرح ملتے تھے۔ انہوں نے مجھے متعدد بار دعوت دی کہ میں ان کے دارالعلوم حقانیہ کووزٹ کروں مگر مجھے اپنی ادبی سرگرمیوں ہی سے فرصت نہیں ملتی تھی۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں دارالعلوم حقانیہ سے جہاں لاکھوں طلبہ نے دین کی تعلیم حاصل کی، وہیں بقول حامد میر 70فیصد طالبان بھی اسی مدرسے کے فارغ التحصیل تھے۔ چنانچہ جب عالمی طاقتیں یکے بعد دیگرے افغانستان میںدخل انداز ہوئیں تو ان طالبان نے بھرپور مزاحمت کی۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی، پہلے روس سے مڈبھیڑ ہوئی اور اس کے بعد امریکہ کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستانی دانشوروں کا ایک طبقہ پہلے دن سے ہی اس بات کا پرچارک تھاکہ ہمیں طالبان کی سرپرستی نہیں کرنا چاہئے۔ ایک وقت آئے گاکہ ان کی توپوں کارخ ہماری طرف ہو جائے گا۔ وہ ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ طالبان کے فلسفے کے قائل نہیں تھے۔ وقت نے ثابت کردیا کہ ان کی رائے صحیح تھی۔ جب ایسا موقع آیا تو مولانا سمیع الحق نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں پاکستان دشمن سرگرمیوں سے روکنے میں بھرپور کردار ادا کیا، لیکن کمان سے نکلا ہوا تیر واپس کمان میں نہیں آسکتا چنانچہ پاکستان بھر میں دہشت گردی کی وارداتیں جب اپنے عروج پر پہنچ گئیں تو ہماری فوج نے ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی اور اس میںبہت حد تک کامیابی حاصل کی!

مولانا سمیع الحق کو جس پراسرار اور سفاکانہ طریقے سے شہید کیا گیا، وہ بہت دردناک ہے۔ پولیس کا خیال ہے کہ یہ کارروائی کسی بہت ہی قریبی شخص کی ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہوا ہو مگر جب کوئی طاقت کسی بات کا ارادہ کرتی ہے تو ایسے افراد پہلے سے اس نے تیار کئے ہوتے ہیں۔ مولانا طالبان کے حوالے سے امریکہ اور افغانستان کے ڈمی حکمرانوں کی نظر میں بہت بری طرح کھٹکتے تھے لہٰذا اس شہادت کو کسی اور تناظر میں ہی دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب مولانا کو شہید کیاجاتا ہے تو اس سے چند گھنٹوں بعد طالبان پالیسی کے بانی حمید گل کے صاحبزادے کو قتل کرنے کی کوشش سامنے آجاتی ہے۔ ہماری تمام ایجنسیوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قاتلوں کی جستجو کے دوران وہ ایک ہی تسلسل میں ہونے والے ان واقعات کو بھی نظر میں رکھیں۔

کئی عشرے قبل مولانا کے بارے میں ایک اسکینڈل سامنے لایا گیا تھا اور اس حوالے سے بغیر کسی مضبوط ثبوت کے اخبارات میں ان پر بہت کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ مجھے یہ بات اچھی نہ لگی اور شاید میں واحد کالم نگار تھا جس نے اپنے کالم میں اس رویے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ کسی بھی شخصیت کی اس طرح کردارکشی صحافتی اصولوں کے منافی ہے۔ یہ کالم پڑھ کرمولانا کامجھے فون آیا اور انہوں نے رُندھی ہوئی آواز میں میرا شکریہ اداکیا اور کہا آپ نے خاندانی روابط کی لاج رکھ لی۔ میں نے عرض کیا کہ ایسا نہیں جو آپ فرما رہے ہیں میں نے وہی لکھا جو میں نے محسوس کیا۔

مولانا سمیع الحق بہت بڑے مدرسے کے مہتمم ہی نہیں عالم دین ہی نہیں، ایک بڑے سیاستدان بھی تھے اور امریکہ کے شدید دشمنوں میں شمار ہوتے تھے۔ اب وہ ہم میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور خدا کرے ان کےقاتل جلد از جلد کیفرکردار کو پہنچیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے