تحریک لبیک سے حکومتی معاہدہ: آگے موت پیچھے کھائی

تحریک لبیک سے لاہور میں کیے گئے معاہدے اور اس کی روشنی میں پاکستان کی ریاست پر اثرات۔

Between the devil and the deep blue sea

یہ انگریزی کی معروف ضرب المثل ہے جو ایسی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے کہ جس میں کوئی راستہ سجھائی نہ دے۔ آگے پیچھے موت کھڑی ہو۔ آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے اب تک ہماری ریاست شاید کسی ایسی ہی صورتحال سے دوچارتھی کہ حکومت نے آگے بڑھ کر موت سے مقابلہ کرنے کی بجائے معاہد ہ کرکے پیچھے کھائی میں چھلانگ لگانے کا اعلان کردیا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب جب ریاست اور اس کے آئین سے متصادم عناصر کے ساتھ معاہدے کیے گئے تب تب تصادم کرنے والے مضبوط اور طاقتور ہوئے جبکہ ریاست کمزور سے کمزور تر ہوئی۔ اس سے قبل 27 نومبر 2017 کو مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بھی تحریک لبیک کے رہنماؤں سے ایسا ہی معاہدہ کیا گیا تھا اور اب 2 نومبر کو اسی سے ملتا جلتا معاہدہ نئی حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ لاہور میں کیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن اور موجودہ دور میں کیے گئے معاہدوں میں دو بنیادی فرق تھے۔

اول یہ کہ اس وقت سول ملٹری تصادم اپنے عروج پر تھا۔

دوئم یہ کہ سپریم کورٹ آف پاکستان 2017 میں واضح فریق نہیں تھی۔

لیکن اس بار صورتحال یکسر مختلف تھی۔ اول تو حکومت کو راولپنڈی کی مکمل آشیر باد تھی اور دوئم یہ کہ اس سارے معاملے میں عدلیہ کا آسیہ بی بی کے بارے ایک واضح فیصلہ موجود تھا۔ مسلم لیگ کی حکومت کمزور تھی مگر تحریک انصاف کی حکومت قدرے طاقتور۔ مگر وہی ہوا جوہوتا آیا ہے۔ ایک اور معاہدہ۔

اس معاہدے اور اس پر عملدرآمد کی صورت میں ریاست پاکستان پرکم ازکم دس اثرات مرتب ہوں گے جو درج زیل ہیں۔

1۔ دو نومبر جمعے کی شام حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان ہونے والے اس معاہدے سے واضح ہو گیا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ملکی سیاست میں بریلوی مکتبہ فکرمزید طاقت اختیار کرئے گا۔ یہ فیض آباد میں کیے گئے معاہدے سے بھی ثابت ہوا تھا مگر توقع تھی کہ نئی اور قدرے طاقتور حکومت جسے راولپنڈی کی آشیر باد بھی حاصل ہے اس ضمن میں پہلے سے کیے گئے فیض آباد معاہدے کے بعد بڑھتی ہوئی مذہبی اجارہ داری کو توڑے گی مگر ایسا کچھ نہ ہوسکا۔

2۔ یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ تحریک لبیک نہ صرف سیاسی میدان میں باقی مذہبی سیاسی جماعتوں پر سبقت لے گئی ہے بلکہ اب وہ دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی کرے گی۔

3۔ ملکی سیاست میں مذہب کے ذریعے تشدد کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے مستحکم ہوں گے۔ قانون اور قانون کی بالادستی کرنے والے دشنام، الزام اور تشدد کا نشانہ بنیں گے۔

4۔ سیاسی جماعتیں مذہبی اجارہ داروں کے مقابلے میں متبادل بیانیہ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ نتیجے کے طور پر سیاسی جماعتیں مزید کمزور ہوں گی اور جو جماعت یا جماعتیں فی الحال مضبوط ہیں وہ بھی مذہبی اجارہ داروں کے بیانیے کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوں گی۔ اس قضیے میں جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام ف کی قیادت نے ثابت کردیا کہ مذہبی بنیاد پر کسی بھی بحران کے موقع پر ان کی قیادت ریاست پاکستان کی بجائے مذہبی اجارہ داروں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

4۔ اس معاہدے سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ مذہب کے نام پر کسی بھی احتجاج میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر بھی تنقید قابل معافی جرم ہے۔ اس واقعے نے مذہبی نعروں پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی خاموشی کو مذہبی طبقات کے طاقتور ترین ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ ثابت ہوگیا کہ مذہبی اجارہ دار بالخصوص تحریک لبیک، ریاست کے باقی تمام اداروں سے زیادہ طاقتور ہے۔

5۔ معاہدے نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود آسیہ بی بی کی رہائی کو مزید مشکل اور پیچیدہ کردیا ہے۔

6۔ معاہدے کے بعد توہین رسالت کے نعرے میں مزید سختی اس بات کی نشاندہی بھی ہے کہ آئندہ ملک میں بالعموم اور پنجاب اور سندھ میں بالخصوص کسی بھی شخص پر یہ الزام عائد کیا گیا تو اس کا عدالتی ٹرائل نہیں ہونے دیا جائے گا بلکہ ایسے ملزم کو عدالت میں جانے سے پہلے ہی مار دینے کے خدشات مزید زور پکڑ گئے ہیں۔

7۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں بالخصوص تحریک لبیک پاکستان پر تنقید مشکل ترین کام بن گیا ہے۔ اس معاہدے نے اس مشکل میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

9۔ آسیہ بی بی کے بارے سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد میں تاخیر نے ثابت کردیا ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے پر مذہبی اجارہ داروں کے نعروں کو فوقیت دیں گے۔ نتیجے میں ریاست ان عناصر کے سامنے کمزور سے کمزور تر ہوگی اور یہ عناصر مضبوط سے مضبوط ترہونگے۔

10۔ اس معاہدے نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے سامنے پاکستان کا کیس مزید خراب کردیا ہے۔ اب یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ آئندہ سال اکتوبر میں پاکستان بلیک لسٹ میں شامل ہوجائے گا۔ نتیجتا ریاست پاکستان اور عوام دونوں شدید معاشی بحران کا شکار ہوں گے۔

یہ وہ نکات ہیں جو نوشتہ دیوار ہیں۔ اگر اس دوران ریاست نے کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا تو ممکن ہے وقتی خون خرابہ توہو تاہم ریاست آئین و قانون کی بالادستی کے لیے کنڑول کرسکتی ہے ورنہ ہم موت سے مقابلے پر کھائی میں جانے کو فوقیت توپہلے ہی دے چکے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے