آج کل ملک بھر میں مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے اور پُرتشدد احتجاج کی لپیٹ میں ہے اور حالات کشیدہ سے کشیدہ تر ہوتے جارہے ہیں اور ریاست اپنی رٹ قائم رکھنے کیلئے پُرتشدد مظاہرین پر طاقت کا استعمال بھی کر رہی ہے
بلا شبہ رحمت دوجہاں ﷺ کی شان اطہر میں گستاخی تمام مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت امر ہے اور ایمان کا تقاضہ بھی ہے کہ اس طرح کے ہر عمل کی ناصرف سخت مذمت کی جائے بلکہ اس کی سرکوبی کیلئے ہر طرح کے راست اقدام سے گریز نہیں کیا جانا چاہئے
موجودہ ملکی صورتحال کے پیچھے بھی پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے ایک فیصلے کے ذریعے سے ایک مبینہ گستاخ رسول ﷺ کی سزا موت ختم کرکے اس کی رہائی کا حکم کارفرما ہے
آج کی تحریر لکھنے کا مقصد عدالت کے فیصلے کی تائید یا اختلاف کرنا نہیں بلکہ اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان جس صورتحال سے دوچار ہوا ان عوامل کی نشاندہی اور انکا سدباب کرنے کے لئے معروضات مرتب کرنا ہے
اسلامی جمہوریہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ایک آزاد مملکت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا مگر بدقسمتی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ مملکت خداد کیلئے کوئی راستہ متعین کر کے اس راہ پر ڈال جاتے جو راستہ ہمیں اصل منزل کی طرف لے جاتا اور ہم آزادی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکتے
قائداعظم کے دنیا فانی سے کوچ کرجانے سے لیکر آج تک ریاست پاکستان نظام و انصرام کو چلانے کیلئے طرح طرح کے تجربات ہوتے رہے ہیں اور تقریباً ہر حکمران نے مذہب کو بطور سیاسی کارڈ اپنے سیاسی فائدہ کیلئے اور اپنی حکومتوں کو طول دینے کیلئے استعمال کیا ہے یا پھر حزب مخالف نے حکومتوں کو گرانے کیلئے مذہبی کارڈ کھیلنے سے دریغ نہیں کیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مقتدر قوتوں نے حکومتیں گرانے یا بنانے کیلئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے تو ہرگز غلط نہ ہوگا
ماضی قریب میں جب نوازشریف حکومت میں پارلیمانی کمیٹی برائے الیکشن اصلاحات نے الیکشن کے حوالے سے ایک جامع آئینی و قانونی بل مشترکہ کاوشوں سے ترتیب دیا تھا تو اس بل کی منظوری کے وقت ایک شق تنازعہ کا شکار ہوگی تھی مبینہ طور پر ختم نبوت کے قوانین پر قدغن لگانے کی کوشش کہا گیا اور حزب اختلاف نے اس پر خوب سیاست چمکائی تھی عمران خان نے اس کلریکل غلطی کو حکومت گرانے کیلئے استعمال کیا اور ختم نبوت کے نام پر خوب سیاست چمکائی جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے
موجودہ حکومت میں شامل وفاقی وزراء اور اہم عہدوں پر براجمان تحریک انصاف کے راہنما اس وقت عوام کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے نوازشریف کے خلاف اکساتے رہے اور ستم ظریفی ہمارے ایک آئینی ادارے نے ان پُرتشدد مظاہرین کے خلاف حکومت کا ساتھ دینے اور ریاست کی رٹ قائم کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ ہم اپنے لوگوں پر کسی قسم کی کاروائی کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے اور یہ سب چیزیں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں اور سب کچھ ریکارڈ پر موجود ایک حقیقت ہے
بعد میں ایک عدالتی حکم نامہ کے نتیجہ میں مظاہرین کے اکابرین اور حکومت کے درمیان مذکرات ہوئے جس میں ریاست کے ایک آئینی ادارے نے بطور ثالث اور سہولت کار کا کردار ادا کیا جو کہ ہفتے بھر پہلے حکومتی احکامات ماننے سے معزرت کرچکا تھا ان مذکرات کے نتیجے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر حکومت اور مظاہرین کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں آیا جس کے نتیجے میں یہ مذہب کے نام پر جنونیت پر مبنی اٹھی لہر کو وقتی طور پر قرار نصیب ہوا
گزشتہ دنوں سے یہ مذہبی جنونیت کی لہر ایک انگڑائی لے کر پھر سے ریاست میں طلاطم خیزی کا موجب بنی ہوئی ہے اور ریاست کو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے کل تک جو ان مذہبی جنونیت پسندوں کو اپنے سیاسی فوائد کیلئے ہر طرح کی مدد فراہم کررہے تھے آج ان کو ریاستی طاقت سے کچلنے کے در پہ ہیں
عمران خان کی حکومت اس بحران پانے پر کامیاب تو ہوجائے گی کیونکہ ریاستی رٹ کو مٹھی بھر جتھے نہ تو چیلنج کرسکتے ہیں اور نہ ریاست کے اندر ریاست کا تصور کسی بھی آزاد خودمختار ریاست کیلئے ناقابل قبول ہے اور نہ ہی کسی ایسے گروہ یا جتھے کے موقف کی تائید اور حمایت کرنا مبنی بر انصاف ہے لیکن میرا سوال عمران خان سمیت تمام سیاستدانوں اور ریاست کے چاروں بنیادی ستونوں سے ہے
کیا حکومتیں گرانے یا بنانے کیلئے مذہبی کارڈ کا استعمال ملکی مفاد میں ہے ؟
نبی آخرالزماں ﷺ پر میری جان قربان جو رحمت بنا کر دنیا میں بھیجے گئے جو اپنے اوپر کوڑا کرکٹ پھنکنے والی خاتون کی تیمارداری کیلئے تشریف لے جاتے ہیں میرا سوال مظاہرین سے ہے ایسے عظیم المرتبت رحمت دو جہان کی ناموس کے نام پر ریاستی اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانا جلانا توڑ پھوڑ کرنا درست ہے؟
اور میرا پیغام تمام. سیاست دانوں، ریاستی ستونوں، اور مذہبی راہبروں کے نام ہے جو کل لوگوں نے بویا وہ آج کاٹ رہے ہیں اور جو بیج آج بو رہے ہیں کل وہ ہی فصل کاٹیں گے