پارلیمنٹ کے 85 دن

مشرف حکومت اپنا پہلا پنج سالہ مکمل کرنے کے قریب تھی۔ ہمارے دوست جیکب آباد والے محمد میاں سومرو ایوانِ بالا کے چیئرمین تھے۔

میں نے اپوزیشن بینچوں کی طرف سے چوتھے سال کی صدارتی تقریب پر ڈیبیٹ کا آغاز ان لفظوں میں کیا ”جنابِ والا‘ اس ایوان کو ڈیبیٹنگ کلب بننے سے روکیں۔ یہ ہائوس آف فیڈریشن ہے‘ جسے بٹھانے کے لیے ٹیکس دینے والے غریب لوگوں کے لاکھوں روپے فی گھنٹہ خرچ ہوتے ہیں۔ یہاں وفاق کے پالیسی میٹر اور عوام کے دلدّر دور کرنے کی پالیسی سازی یا قانون سازی پر مباحث کی توجہ رہنی چاہیے۔ دنیا کا ہر منتخب ایوان اسی کو اپنی معراج سمجھتا ہے‘‘۔ یہ ایسے دنوں کا تذکرہ ہے جن کے بارے میں آغا شورش کاشمیری نے بہت پہلے یوں کہا:
ہم نے جس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
تب سیاست کا صلہ، آہنی زنجیریں تھیں

میں نے پارلیمنٹ کے فلور پر ایسے ہی آمریت کے وقت میں قدم رکھا تھا۔ شہید بی بی کو پون عشرہ پہلے آلِ شریف کی ”کرٹسی‘‘ سے جبری ہجرت پر مجبور کیا جا چُکا تھا۔ اٹک قلعہ کے مچھروں نے سرجیکل سٹرائیکس کر، کر کے رائے ونڈی شیر بھگا رکھے تھے۔ آج کے عظیم ڈیموکریٹس ملوکیت کی آسودہ چراگاہوں میں مفادات کی گھاس چرنے سرور کے پیلس میں جا بسے تھے۔ مشرف کی اپوزیشن کا ایک اور لیول بھی ہوا کرتا تھا، کارپوریٹ لیول۔ جس میں صرف آلِ شریف کے لوہے کا چنا اور چھوٹے ابا جی کی شفقتِ پدرانہ کا نذرانہ سمجھ کر پنجاب کی اپوزیشن لیڈر کی گھریلو سیٹ پر براجمان جمہوریت کا دیوانہ نمبر2 تک شامل تھے۔

اس کارپوریٹ اپوزیشن کے فیض نے اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھنے والے کئی خواتین و حضرات کو بینکنگ کے لائسنس‘ ائیر پورٹ سروس کمپنیاں‘ کھرب پتی کر دینے والے ہائوسنگ پراجیکٹس اور اتنا کچھ دیا‘ جتنا شہنشاہِ ہندوستان جلال الدین محمد اکبر نصف صدی کی مطلق العنان بادشاہت میں بھی نہ اپنے مشیرِ خاص بیربل کو دے سکے‘ نہ ہی شاہی وزیرِ خزانہ ٹوڈر مَل کو۔ ٹوڈر مَل بھی اگرچہ پنجاب کے علاقے سے تھا‘ مگر اس قدر خوش بخت نہ تھا‘ جس قدر بخت آور مشرف کی اپوزیشن کے کارپوریٹ کردار نکلے۔

2018 میں تشکیل پانے والی 15ویں پارلیمنٹ کے 85 دنوں میں یکے بعد دیگرے چند اجلاس برپا ہو چکے ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ نے 13 اگست 2018 کے دن حلف اُٹھایا جبکہ وزیرِ اعظم نے 18 اگست‘ اور کابینہ نے 20 اگست کو۔ اس سارے عرصے میں خیر سے قانون سازی صرف ضمنی بجٹ سازی تک ہی محدود رہی۔ موجودہ پارلیمان کے 2 مزید کارناموں کو شمار نہ کرنا سخت کنجوسی ہو گی۔ پہلا کارنامہ نعرے بازی جمع مزید نعرے بازی جمع شدید نعرے بازی پر مشتمل ہے‘ جبکہ منتخب نمائندوں کی تاریخی کارکردگی پر مبنی دوسرا کارنامہ ہلڑ بازی جمع مزید ہلڑ بازی جمع شدید ہلڑ بازی سے آگے نہ بڑھ پائی۔

ہاں البتہ! پارلیمنٹ نے ان 85 دنوں میں اپنی بالا دستی خوب تسلیم کروائی ہے۔ کبھی بے موقع کبھی بر محل یہ بحث ہوتی چلی آ رہی تھی کہ ہماری پارلیمنٹ سپریم ہے یا ملک کی جوڈیشری۔ سال 2018 وہ تاریخی لمحہ ہے جب جوڈیشل پراسیس زِیردست ہو گیا اور پارلیمنٹ کھل کر بالا دست ٹھہری۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ انہی 85 دنوں میں صوبہ پنجاب کی 2 عدالتوں نے 2 علیحدہ علیحدہ اختیارِ سماعت کے تحت مجاز احکامات جاری کیے۔ پہلا حکم احتساب عدالت لاہور کے جج نے جاری کیا۔ جو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 167 اور نیشنل اکائونٹیبلٹی آرڈیننس مجریہ 1999 کی دفعہ 24 کے تحت حاصل اختیارات کی رُو سے صادر ہوا۔ یہ کرپشنِ اعلیٰ کے گرفتار شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ کا آرڈر تھا‘ جسے ختم کرنے کا 100 فیصد اختیار صرف اور صرف لاہور ہائی کورٹ کے احتساب بینچ کو حاصل تھا‘ جس میں شامل 2 جسٹس صاحبان کے علاوہ کوئی اور نہ احتساب کے ریمانڈ آرڈر کو ختم کر سکتا ہے نہ معطل یا Held in abeyance رکھ سکتا ہے۔

یہ حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ کرپشنِ اعلیٰ کے ریمانڈی ملزم اور نہ ہی اس کے کسی عدالتی مختارِ کار نے جسمانی ریمانڈ کے اس آرڈر کو معطل کروانے کیلئے کوئی قدم اٹھایا‘ نہ ہی کسی بالا عدالت نے جسمانی ریمانڈ آرڈر کو ختم کیا۔ اسی حوالے کا دوسرا حکم لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے جاری کیا‘ جہاں آلِ شریف کے ایک ہمدرد وکیل صاحب نے کرپشنِ اعلیٰ کے ریمانڈی قیدی کی رہائی کیلئے آئینی پٹیشن دائر کی تھی۔ اس رِٹ پٹیشن میں عدالتِ عالیہ لاہور سے یہ استدعا کی گئی کہ وہ کرپشنِ اعلیٰ کے ریمانڈی قیدی کی رہائی کیلئے فوری حکم جاری کر دے۔ یہ درخواست تفصیلی سماعت اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور مسٹر جسٹس انوارالحق پنوں نے رد کر دی۔

لطف بالائے لطف یہ ہے کہ ان 2 عدالتی احکامات کی موجودگی میں پارلیمنٹ جیت گئی‘ اور ایک صوبے کی سب سے بڑی آئینی عدالت اور دوسری سپیشل لاء کے تحت بنائی گئی قانونی عدالت کے فیصلے… آگے رہنے دیجیے۔ میں محض ریکارڈ درست کر رہا ہوں جدال و قتال کے موڈ میں ہرگز نہیں۔ اس قضیے کا ایک دلچسپ ترین پہلو غور کے قابل ہے۔ اور وہ یہ کہ 2018 برانڈ پارلیمنٹ دنیا کی ایسی پہلی اور تادمِ تحریر آخری پارلیمان ٹھہری جس نے اربوں، کھربوں کی کرپشن کے ملزم کو تالیوں اور نعروں کی گونج میں قوم سے خطاب کا موقع دیا‘ عدالتی احکامات (circumvent) کر کے۔ ایک مرتبہ نہیں‘2 دفعہ۔ کرپشنِ اعلیٰ کے ریمانڈی ملزم کے پارلیمانی خطاب سننے کے قابل ہیں‘ لیکن کرپشن کے فوائد، فضائل اور محاسن کے نتیجے میں براہ راست میڈیا پر نشر ہونے والے یہ دونوں کرپشنی خطبے سمجھنے سے پہلے آئینِ پاکستان مجریہ 1973 کا آرٹیکل نمبر 68 نظر سے گزار لیں۔
Restriction on discussion in Majlis-e-Shoora (Parliament) :No discussion shall take place in Majlis-e-Shoora (Parliament) with respect to the conduct of any Judge of the Supreme Court or of a High Court in the discharge of his duties.

اس آئینی شق کے تحت فلور آف دی ہائوس پر عدلیہ کے خلاف گفتگو کرنا سختی سے ممنوع ہے۔ میرے ہاتھ میں ہائی ٹریزن پنشمنٹ ایکٹ مجریہ 1973 کے کسی ملزم کا بریف نہیں ہے۔ ہاں البتہ! مجھے قدرت نے یہ اعزاز ضرور دیا ہے کہ میں نے بحیثیت وفاقی وزیرِ قانون آرٹیکل چھ میں مؤثر ترامیم کیں‘ جن کے ذریعے آئین شکنی کے اقدامات کی توثیق کرنے والے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج حضرات کو شریکِ جرم گردانا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے آرٹیکل چھ کا ذیلی آرٹیکل 2-A
ٓٓAn act of high treason mentioned in clause (1) or clause (2) shall not be validated by any court including the Supreme Court and a High Court

میں اس بحث کا اپنے تئیں کوئی نتیجہ خیز فیصلہ صادر نہیں کرنا چاہتا۔ اسے آپ پہ چھوڑتا ہوں۔ اس پارلیمنٹ میں ایسے چہرے کثرت سے پائے جاتے ہیں‘ جنہوں نے پارلیمنٹ کے لوہے والے جنگلوں پر دُھلے کپڑے ڈالنے والے 8 پاکستانیوں کے خاک و خون میں ملائے جانے کی تائید کی۔ تب بھی نعرہ یہی تھا‘ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ اس پارلیمنٹ میں بیٹھے ان لوگوںکو ماڈل ٹائون قتلِ عام نمبر 1 اینڈ نمبر 2 پر ”چوں‘‘ کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ لب کھولنا تو کجا۔
اپنے ہونٹ سیئے ہیں تم نے، میری زباں کو مت روکو
تم کو اگر توفیق نہیں ہے، مجھ کو ہی سچ کہنے دو

بالا دست پارلیمنٹ کے 85 دنوں میں سب سے زیادہ زور 3 نکات پر دیا گیا۔ اولاً: ہم وطنو! کرپشن کرپشن ہے۔ جو ہوتی رہتی ہے۔ جمہوریت اور کرپشن ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ثانیاً: فالودے والے اکائونٹ کاروباری ہیں‘ اور ثالثاً: احتساب کا قانون ظالمانہ ہے اسے ختم کر دیا جائے۔ ان 3 نکات کی پارلیمانی اشتہاری مہم قبلہ بڑے مولانا صاحب اور شاہ صاحب سکھر آبادی کے مشترکہ کاندھوں پر ہے۔ اب بھی اگر کوئی اے پی سی کا بنیادی ایجنڈا نہ سمجھنا چاہے تو اس کی مرضی‘ لیکن اس مشترکہ بالا دستی کی جدوجہد پر شاباش تو بنتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے