وہی کاٹو گے جو اگائو گے!

ایک تو میں اپنے ناسٹیلجیاسے بہت تنگ ہوں مجھے تو وہ ماضی بھی بہت اچھا لگنے لگا ہے جو ا س وقت زہر لگتا تھا۔آپ یقین کریں مجھے ماضی کے سب مارشل لاء یاد آتے ہیں جو اس وقت برے لگتے تھے مگر اب یاد آتے ہیں تو میں ان کی یاد میں خون کے آنسو بہاتا ہوں، سبحان اللہ، کیا خوبصورت ادوار تھے۔

جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خاں، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئین معطل ہوتا تھا چنانچہ کوئی زیادتی، زیادتی لگتی ہی نہیں تھی کیونکہ آئین کی ’’خلاف ورزی‘‘ ہوتی ہی نہیں تھی۔مرحوم آئین کی روح تڑپتی ہو گی مگر اس سے ہماری صحت پر کیا اثر پڑتا تھا۔پھر ایک وقت آتا تھا کہ وہ سیاست دان جنہیں ہم ELECTABLESکہتے ہیں وہ سب ان حکومتوں کےدست و بازو بن جاتے تھے، ملک ترقی کرتا تھا ترقی کی تیز رفتاری کی وجہ سے 1971ء میں ملک ایک کھائی میں جا گرا جس سے اس کا ایک بازو ٹوٹ گیا اس کے بعد سے پاکستان، ٹنڈا پاکستان ہے چنانچہ اس کے بعد ہم نے پاکستان کا اثرو رسوخ ہمسایہ ملک افغانستان میں بڑھانے کے لئے امریکہ کی مدد سے لاکھوں لوگوں کو جدید اسلحہ فراہم کیا۔

افغانستان تو ہم سے فتح نہ ہوا، الٹا ان مسلح لوگوں میں مال غنیمت کے جھگڑے کی وجہ سے کئی گروپ بن گئے اور ان میں سے کئی ایک نے اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کر لیا ۔اس کے بعد گلیاں، بازار اور کوچے ہمارے بچوں کے خون سے بھر گئے اور پاکستانی، پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہونے لگے۔ اللہ اللہ کرکے ان دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی مگر ادھر اُدھر تھوڑا بہت پنگا ملک کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے لینا تو پڑتا ہی ہے چنانچہ وہ بھاری رہا۔

مگر افسوس یہ بھلے دن گزر گئے ابھی خدا خدا کرکے اچھے دن آئے ہیں کئی برسوں سے ملک میں جمہوریت ہے فوج اپنی بیرکوں میں ہے، جج صاحبان عدالتوں میں قانون کے عین مطابق فیصلے کر رہے ہیں ۔بیوروکریسی تابع فرمان ہے، عمران خان پاکستان کے مکمل بااختیار وزیر اعظم ہیں ، فارن آفس والے آزادی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، وزارت داخلہ بھی اپنے فیصلوں میں مکمل آزاد ہے۔ وزیر اعظم سمیت ان کے تمام اداروں کو کوئی ڈکٹیشن نہیں دیتا۔سب ادارے ایک بات پر متفق ہیں کہ ملک سے کرپشن ختم کرنی ہے چنانچہ نیب اور ایف آئی اے بھی تن من دھن سےاس مشن کی تکمیل میں مصروف ہے۔

پاکستان میں سب سے کرپٹ پارٹی مسلم لیگ (ن) ان کا خاندان اور ان کے رفقاء تھے چنانچہ ان سب کی ’’کھمپ‘‘ ٹھپی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف ، ان کے بھائی میاں شہباز شریف، مریم نواز، مریم کے شوہر کیپٹن (ر)صفدر، شہباز شریف کے داماد یہ سب مسلسل احتساب کے زد میں ہیں، اس خاندان کا لوہے کا کاروبار تھا اور مجھے لگتا ہے ان کے اعصاب بھی لوہے کے ہیں ۔اسی طرح مسلم لیگ کی لیڈر شپ اسحاق ڈار ،پرویز رشید، طلال چوہدری، حنیف عباسی، دانیال عزیز ،نہال ہاشمی اور دوسرے کئی لوگ کسی نہ کسی حوالے سے زیر عتاب آئے ہیں۔یہ لوگ یقیناً گنہگار ہوں گے ورنہ جمہوریت میں جب آئین، پارلیمنٹ اور دوسرے ادارے آزاد ہوں وہاں کسی بے گناہ پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔پیپلز پارٹی کے بھی کچھ لوگ اپنے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں اور کچھ بھگتنے والے ہیں۔

مجھے یہ حسن ظن اس لئے ہے کہ اگر ہماری موجودہ حکومت انتقامی کارروائیاں کرنے والی ہوتی تو وہ علامہ خادم رضوی اور علامہ پیرافضل قادری کو ابھی تک کیفر کردار تک پہنچا چکی ہوتی۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر میں اپنے ناسٹیلجیاکا کیا کروں مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب ملک میں مارشل لاء ہوتا تھا آئین چونکہ معطل تھا چنانچہ سب کچھ کھلم کھلا ہوتا تھا، میں اس دور کو مس کرتا ہوں اگر مجھے اپنے آرمی چیف کے بارے میں ذاتی طور پر علم نہ ہوتا کہ وہ مارشل لاء کے سخت خلاف ہیں تو میں ان سے ضرور عرض کرتا کہ حضور مارشل لاء لگائیں کیونکہ کئی بد طینت لوگ مکمل آزادی سے کام کرنے والی اس حکومت میں بھی کیڑے نکالتے ہیں مگر مجھے علم ہے کہ بہت سے لوگ انہیں یہ مشورہ دیتے ہوں گے اور جس طرح وہ ان کے اس نوع کے مشورے کو ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہوں گے میرے مشورے کا بھی یہی حشر ہو گا لہٰذا میں ایسا نہیں کہوں گا، میں اپنی بات منوانا نہیں چاہتا ۔

اب آخر میں ایک قاری سے موصول شدہ غزل، شاعر کا نام معلوم نہیں

چاند پر بستیاں بسائو گے

چاندنی پھر کہاں سے پائو گے

سلب کر لیں سماعتیں سب کی

کس کو اب داستاں سنائو گے

چھین لی شہر بھر کی گویائی

اب صدائیں کہاں سے لائو گے

سب کی آنکھیں نکال دیں تم نے

اب یہ آنکھیں کسے دکھائو گے

ہر طرف نفرتوں کے کیکر ہیں

وہ ہی کاٹو گے جو اگائو گے

بے تحاشا خدا بن بیٹھے

اتنے سجدے کہاں سے لائو گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے