تیری میری کہانی

انگلستان کے سرکردہ ناول نگار این میکون کا ایک ناول ہے ’’سنیچر‘‘ یعنی ’’سیٹرڈے ‘‘ اس کی کہانی صرف ایک دن کےواقعات پر محیط ہے۔ ناول کے مرکزی کردار تو خیالی ہیں۔ مصنف نے انہیں تخلیق کیا ہے۔ لیکن جس پس منظر میں ان کی زندگی کا یہ دن گزرتا ہے وہ بالکل حقیقی ہے۔ اس کے چند مناظر شاید آپ کی یادداشت میں بھی محفوظ ہوں کیونکہ یہ حوالہ ہے اس دن کا کہ جب لندن میں کئی لاکھ افراد نے امریکہ کے عراق پر حملے کے خلاف ایک یادگار مظاہرہ کیا تھا۔ تاریخ تھی15فروری 2003اوردن، جی ہاں، سنیچر کا تھا۔ یوں یہ ناول تخیلی اور حقیقت کے دو رنگوں سے بنا گیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ انفرادی زندگیوں کا اجتماعی سچائیوں سے ٹکرانے کا ایک مشاہدہ ہے۔ مرکزی کردار ایک سرجن کا ہے اور مظاہرے کی وجہ سے عام معمولات میں جو خلل پڑا ہے اس نے اس کردار کے نقل و حمل اور سوچ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ آپ سوچئے، کئی لاکھ افراد مرکزی شاہراہوں پر اگر چند گھنٹوں کے لئے جمع ہو جائیں یا ہم کہیں گے کہ دھرنا دے رہے ہوں تو ظاہر ہے کہ ان گنت افراد کی ذاتی مصروفیات بلکہ زندگی پر اس کا کتنا اثر پڑے گا۔

آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس ناول کا خیال مجھے کیوں آیا، لندن میں لاکھوں کا اجتماع بھی کسی نظم و ضبط کا پابند تھا،توڑ پھوڑ اور تشدد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن ہم نے پچھلے ہفتہ جو تین دن کا ملک گیر احتجاج دیکھا اس کا رنگ بالکل مختلف تھا اور ہم اس انداز کی وحشتوں کو کئی بار بھگت چکے ہیں۔ گویا یہاں بھی کسی کہانی نویس کے لئے ایسا مواد موجود تھا کہ جس کے آئینے میں ہم اپنی پراگندگی اور اپنے ذہنی انتشار کی کچھ جھلکیاں دیکھ لیتے۔ کئی کہانیاں تو ٹیلی وژن کے کیمروں کی آنکھ سے ہم نے دیکھ بھی لیں۔

لیکن یہ بالکل سطحی اور سرسری اشارے تھے۔ گہرائی میں جائیں تو کسی بھی ایسےفرد کے حالات اور محسوسات کا دائرہ بہت وسیع ہو گا کہ جوان مظاہروں کی لپیٹ میں آیا ،ایک دو یا دس بیس نہیں، ہزاروں زندگیاں متاثر ہوئیں- اور پتہ نہیں کس نے اس اتفاقی آفت کو کیسے برداشت کیا۔ ان تین دنوں کے احتجاج کے پس منظر میں بیان کی جانے والی کہانیاں کس کی ہوں گی اور کس نوعیت کی ہوں گی؟امکانات کی کوئی حد نہیں۔ بلکہ کسی تخلیقی کاوش کے بغیر ہی دستاویزی مواد ہی اتنا جمع کیا جا سکتا ہے کہ ایک ہزار ایک راتوں تک اس کی قسطیں چلتی رہیں۔

الف لیلیٰ کی داستانوں سے ہم واقف ہیں، یہ ایک اور طرح کی الف لیلیٰ ہے کہ جس میں کسی موٹر وے پر قید، کوئی حسینہ کسی طلسماتی قالین پر اڑ کر اپنے گھر یا محل نہیں پہنچ سکتی ۔ ہاں، اس خیال کی عہد حاضر کی ایک تمثیل ہم نے دیکھی کہ سکھ یاتریوں کے ایک گروپ کو پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹر اٹھا کر لے گئے۔ لیکن اس مستحسن کارروائی نے شاید ان پاکستانی شہریوں کے احساس بے بسی میں اضافہ کیا ہوکہ جنہیں اس نوعیت کی مدد نہیں ملی۔ ان میں بچوں، خواتین اور بزرگ افراد کو بھی شامل کریں۔ ایک تصویر سوشل میڈیا میں گردش کرتی رہی کہ ایک ماں، بیچ سڑک، چادر بچھا کر اپنے بچے کو بوتل سے دودھ پلا رہی ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ احتجاج کیوں ہوا اور ،اس میں انتہا پسندی کی مسلسل پرورش کا کتناحصہ تھا ایک الگ موضوع ہے۔ میں یہ نکتہ اٹھا رہا ہوں کہ جب لاکھوں زندگیاں ایک مختصر وقفے کے لئے اپنے معمول سے ہٹ کر کسی انجانی مصیبت میں گرفتار ہو جاتی ہیں تو کس کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے، حکومت کی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ،میڈیا کی اور خود شہریوں کی کہ جو ایک ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں۔

بات لندن کے عوامی احتجاج سے شروع ہوئی تھی۔ اسی دن کئی دوسرے مغربی شہروں میں بھی عراق جنگ کے خلاف اتنے ہی بڑے مظاہرے ہوئے تھے۔ ان مظاہروں کا ہم اپنے احتجاج سے موازنہ کیسے کریں کہ جب ان میں اتنا واضح فرق ہے۔ ایک شہر میں رہنے کے آداب ہم نے تو نہیں سیکھے۔ اسی طرح ہمارے حکمرانوں نے بھی اپنے عوام کے ساتھ کبھی وہ سلوک نہیں کیا جس کے وہ مستحق ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ کسی کو کچھ اتنی زیادہ فکر نہیں کہ عام لوگ کہ جو بے یارو مددگار ہیں،ان مشکلات کا کیسے سامنا کرتے ہیں کہ جو ناگہانی طور پر ( جیسے یہ احتجاج تھا) ان پر نازل ہوتی ہیں۔

اب جو میں ان کہانیوں کا ذکر کر رہا ہوں جو لکھی نہیں جائیں گی تو صرف اس لئے کہ ان واقعات اور مسائل کو ایک اونچی، فکری سطح پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور اس تحقیق کے لئے یہ لازمی ہے کہ ہمیں زمینی حقائق کا پورا ادراک ہو۔ اور اس ضمن میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو ہمیں شاعر اور کہانی نویس ہی بتا سکتے ہیں۔ ہر بڑی تبدیلی اور انقلاب سے پہلے تخلیقی ادب کی ایک ایسی لہر اٹھتی ہے کہ جس میں عام لوگوں کے دکھوں اور ان کی خواہشات اور خوابوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ روسی انقلاب کی مثال فوراً ذہن میں آتی ہے۔

اگر ہم گزشتہ ہفتے کے احتجاج کے بارے میں کچھ غور و فکر کریں تو یہ سوال بار بار اپنا سر اٹھائے گا کہ ایسی صورتحال میں نیا پاکستان کیسے بن سکتا ہے۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ جو نیا پاکستان بنا رہے ہیں یا بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ کرپشن کی تو بات کرتے ہیں۔ میرٹ کی اہمیت کو تو اجاگر کرتے ہیں۔ حکمرانی کے طور طریقے بھی بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسے کوئی شواہد نہیں کہ انہیں اس معاشرے کی ذہنی، تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی کی بھی کوئی فکر ہے۔ ان کی اپنی صفوں میں مذہبی انتہا پسندی کے پالے ہوئے شہ زور موجود ہیں۔

میری نظر میں جو کچھ ہم نے گزشتہ ہفتے دیکھا اور برداشت کیا اور اس کے بعد سے اقتدار کی کمزوری کے جو مظاہر دیکھ رہے ہیں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ کسی حد تک ،جمہوریت ،اور انتخابات سے بھی زیادہ ہمارے حکمرانوں نے انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے میں بہت دیر کر دی ہے۔ کیسے کیسے صدمے ہم برداشت کرتے رہے ہیں اور بار بار ہم نے قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے پلان بنتے دیکھے ہیں۔ اور اب یہ دیکھئےکہ ہم کس موڑ پر کھڑے ہیں ۔

جہاں تک ریاست کی رٹ قائم کرنے کی بات ہے تو وہ تو بظاہر ایک سادہ سی بات ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں وہ بات کچھ زیادہ ہی جوش اور جذبے سے کی تھی ۔ پھر کیا ہوا ؟ اور اس سارے عمل میں گرفتار وہ عام لوگ ہیں جن کی کوئی کہانیاں نہیں لکھتا۔ کوئی نہیں سنتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے