طاہر داوڑ کا قتل ۔

پشاور کے ایس پی کی گولیوں سے چھلنی تشدد زدہ لاش پاک افغان سرحد کے اس علاقہ سے ملی ہے جو افغان طالبان نے شدید جنگ کے بعد داعش والوں سے واپس حاصل کیا تھا۔عید کے موقع پر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان سیز فائر کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروپوں نے ننگرہار اور کنڑ کے متعدد علاقوں میں اچانک حملوں میں طالبان سے بڑا علاقہ چھین لیا ۔کنڑ کا ایک بڑا حصہ اب بھی داعشیوں کے قبضے میں ہے لیکن جس علاقہ سے پشاور کے ایس پی کی لاش ملی ہے وہ مکمل طور پر افغان طالبان کے کنٹرول میں ہے ۔

اسلام آباد سے پولیس افسر کے اغوا کی تفتیش کے دوران سول ایجنسیوں کو ایک حیرت انگیز خبر ملی ۔جیو فینسنگ کی گئی تو طاہر داوڑ کے فون کی آخری لوکیشن جہلم کے قریب ملی تھی ۔ایف ٹن سے جہلم کے جی ٹی روڈ کے ذریعے سفر کے دوران پولیس افسر کا فون بند تھا لیکن ای ایم آئی شناخت سے فون کی لوکیشن مل رہی تھی لیکن 20 فٹ کے دائرہ میں کسی دوسرے فون کی مستقل موجودگی نہیں تھی ، اس کا مطلب یہ تھا کہ پولیس افسر اکیلے سفر کر رہے تھے یا پھر ان کے کسی اغوا کنندہ کے پاس فون موجود نہیں تھا۔

جن لوگوں نے پولیس افسر کو اغوا کیا وہ بہترین نسل کے لوگ تھے ۔وہ تفتیشی عمل اور فون کی جیو فینسنگ کے عمل سے بھی واقف تھے اسی لیے نہ بانس رہا اور نہ بانسری بجی کیونکہ کسی کے پاس فون ہی موجود نہیں تھا اور پولیس افسر کو افغانستان پہنچا دیا گیا۔اس بات کی فی الحال کوئی تصدیق نہیں کر سکتا طاہر داوڑ کو پاکستان میں قتل کیا گیا اور لاش پاک افغان سرحد پر پہنچا دی یا پھر خراسانی گروپ جس نے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے اس نے پولیس افسر کو کامیابی سے اغوا کیا اور تمام چیک پوسٹوں سے بچتے بچاتے افغانستان لئے گئے اور قتل کر دیا ۔طاہر داوڑ کا قتل ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔دنیا کی بہترین خفیہ ایجینسی آئی ایس آئی کی ناک کے نیچے سے کس طرح ایک پولیس افسر اغوا ہوا کس طرح کامیابی سے اس کی نقل وحمل ممکن ہوئی ۔میڈیا میں طاہر ڈاور کی منظور پشین کے ساتھ ہمدردی کی خبریں بھی آ رہی ہیں اور انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں ۔

ہم سمجھتے ہیں طاہر داوڑ ملک دشمن ایجنسیوں کا ہدف بنے ہیں اور اس میں ڈبل ایجنٹ یا ٹرپل ایجنٹ شامل ہیں ۔جب سے افغانستان میں داعشیوں کا ظہور ہوا ہے گزشتہ دو سال کے دوران چین روس پاکستان اور اب "ایران بھی اتحاد میں شامل ہو چکا ہے” ان اتحادیوں نے امریکیوں اور بھارتیوں کو افغانستان میں ناکوں چنے چبوا دئے ہیں ۔

ماسکو کانفرنس میں افغان حکومت اور امریکیوں نے شرکت نہیں کی لیکن چین روس اور ایران کے ساتھ تمام وسط ایشیائی ریاستوں اور بھارتی وفد نے شرکت کی جبکہ سابق افغان حکومت کے اعلی عہدیدار کانفرنس میں شریک تھے ۔
ماسکو کانفرنس کا ردعمل ہمارے خیال میں مولانا سمیع الحق کا قتل اور طاہر داوڑ کے قتل سے سامنے آیا ہے اور یہ ابتدا ہے اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو ٹھینگا دکھایا گیا ہے کہ جس ملک کے ادارے دارالحکومت میں اپنے ایک پولیس افسر کے اغوا اور افغانستان منتقلی نہ روک پائیں اسے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہم نہیں سمجھتے ظاہر داوڑ کے اغوا اور قتل میں کوئی ملکی ادارہ ملوث ہو سکتا ہے اگر ایسا ہوتا تو پولیس افسر کی مسخ شدہ لاش افغانستان کی بجائے پاکستان سے ملتی یا پھر لاپتہ افراد میں ایک اور کا اضافہ ہو جاتا ۔کوئی ملکی ادارہ اپنی جگ ہنسائی نہیں کرا سکتا۔

اس بات کے بھی امکان ہیں پیاروں نے پولیس افسر کو اغوا کیا ہو اور پھر کسی اور کے پیاروں کو فروخت کر دیا ہو۔جو دہشت گردی پاکستان میں دس سال تک برپا کی گئی اس کا شافی جواب پاکستان مخالف قوتوں کو افغانستان میں مل رہا ہے ۔پاکستان میں اگر کسی زمانے میں جی ایچ کیو پر حملہ ہو جاتا تھا ،پریڈ لائین مسجد میں فوجی افسران اور ان کے نوجوان بچوں کو ہدف بنا لیا جاتا تھا کوئی شہر محفوظ نہیں رہا تھا تو اب کابل کا محفوظ ترین علاقہ بھی محفوظ نہیں رہا۔افغان حکومت میں شامل پاکستان دشمن افغان افسران امریکی جنرلوں کے ساتھ نشانہ بن جاتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں مولانا سمیع الحق اور طاہر داوڑ کے قتل سے پاکستان دشمن قوتوں نے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے ۔مولانا سمیع الحق کا سیکرٹری غائب ہے نہیں معلوم پاکستانی اداروں کے پاس تفتیش کے عمل سے گزر رہا ہے یا پھر نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت ملنے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان فرار ہو گیا ہے۔

پشاور پولیس افسر کے اغوا اور قتل سے ایک تیر سے متعدد شکار کئے گئے ہیں ۔ایک طرف ملکی اداروں کی ساکھ کو ہدف بنایا گیا ہے دوسری طرف سارا معاملہ مشکوک کر دیا گیا ہے۔

منظور پشین ایک شخص نہیں بلکہ ایک سوچ ہے جو بتدریج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پشتون اہلکاروں میں پنپ رہی ہے ۔طاہر داوڑ کے قتل کے پس پردہ کرداروں کو بے نقاب کرنا ملکی سلامتی اور تحفظ کیلئے ناگزیر ہے ۔دوسری صورت میں نقصان کا اندیشہ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے