صحت اور انصاف کا حل

صحت اور انصاف بھی ہمارے مسئلے ہیں‘ دنیا دس ہزار سال کی تحریری تاریخ میں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے معاشرے میں جب تک انصاف نہیں ہو تا اور لوگ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے صحت مند نہیں ہوتے ملک اور معاشروں میں اس وقت تک استحکام نہیں آتا مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے یہ دونوں شعبے زوال پذیر ہیں۔

سرکاری اسپتالوں‘ شفاء خانوں اور ڈسپنسریوں کی حالت یہ ہے راولپنڈی کے ہولی فیملی اسپتال میں26 نومبر 2012ء کو دو نومولود بچوں کو چوہے کاٹ گئے‘ اس حادثے میں ایک بچہ جاں بحق جب کہ دوسرا شدید زخمی ہو گیا‘نومبر 2012ء میں لاہور میں 25 افراد کھانسی کا شربت پینے سے جاں بحق ہو گئے جب کہ جنوری 2012ء میں لاہور میں دل کے 100 سے زائد مریض دوائی میں ملاوٹ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

پاکستان میں آخری ڈرگ ریگولیٹری ایکٹ 1976ء میں پاس ہوا تھا اور یہ 36 سال بعداکتوبر2012ء میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی ان تھک محنت کے بعد دوبارہ پاس ہوا‘ آج بھی ملک کے 1206 لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر ‘1700 مریضوں کے لیے اسپتال کا ایک بیڈ‘1700 افراد کے لیے ایک ڈینٹسٹ اور 1667 لوگوں کے لیے ایک نرس دستیاب ہے‘ سرکاری اسپتالوں میں کاکروچ‘ چھپکلیاں‘ چوہے اور بلیاں عام پھرتی ہیں‘ ملک میں جعلی ڈاکٹروں کی بھرمار ہے۔

ملک میں ہومیو پیتھک ڈاکٹروں اور حکیموں کے نام پر ہزاروں قصاب پھر رہے ہیں اور ملک میں عام چاقو سے بچے پیدا کر دیے جاتے ہیں اور آنکھوں کے آپریشن ہو جاتے ہیں‘ صحت کا بجٹ آج بھی جی ڈی پی کا.9 0فیصد ہے اور پنجاب جیسا دس کروڑ لوگوں کا صوبہ جون2008ء سے فروری 2012ء تک وزیر صحت کے بغیر چلتا رہا اور مریض اسلام آباد کے سب سے بڑے اسپتال پمز کے کوریڈورز اور لانوں میں پڑے ہوتے ہیں اور یہ صورتحال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم اس مسئلے کی سنگینی کو نہیں سمجھیں گے۔

ہمارے پاس اس مسئلے کے تین چار حل ہو سکتے ہیں‘ پہلا حل‘ حکومت اسپتال‘ ڈسپنسریاں اور بی ایچ یو چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے چنانچہ صحت کو مکمل طور پر پرائیوٹائز کر دیا جائے‘ سرکاری اسپتالوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیا جائے‘ یہ کمپنیاں اسپتال بنائیں اور چلائیں‘ ملک بھر کے ڈاکٹرز اور ان کے کلینکس کے لیے ایک باڈی بنا دی جائے‘ یہ باڈی جب تک تحریری اجازت نہ دے کوئی ڈاکٹر اس وقت تک پرائیویٹ پریکٹس نہ کر سکے‘ یہ باڈی ڈاکٹروں کی تعلیم‘ تجربے اور مہارت کو دیکھ کر ان کا فیس پیکیج تیار کرے۔

یہ ہوٹلز کی طرح کلینکس کا معیار بھی طے کرے اور کڑی چھان بین کے بعد انھیں ون اسٹار‘ ٹو اسٹار‘ تھری اسٹار‘ فور اسٹار اور فائیو اسٹار کے درجوں میں تقسیم کرے‘ یہ کلینکس ان اسٹارز کے مطابق کمروں‘ آپریشن تھیٹرز‘ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹروں کی فیس چارج کریں‘ یہ باڈی پرائیویٹ نرسز‘ وارڈ بوائز اور لیبارٹری ٹیکنیشنز کا معیار اور کوالیفکیشن بھی طے کرے‘ میڈیکل باڈی کے رولز ’’فکس‘‘ ہوں اور کوئی شخص ان رولز میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کر سکے‘ میڈیکل لیبارٹریز کے لیے بھی معیار طے ہوں۔

انھیں بھی ون سے لے کر فائیو اسٹار تک کیٹگریز میں تقسیم کیا جائے اور ان کے نرخ بھی ان کیٹگریز کے مطابق طے کیے جائیں‘ ان اقدامات کے بعد ملک کے ہر شہری کی ہیلتھ انشورنس کر دی جائے‘ ملک کا ہر وہ شہری جس کے پاس شناختی کارڈ ہے یا جو بے فارم میں شامل ہے اس کی ہیلتھ انشورنس لازم ہو ‘ پاکستان کا کوئی بچہ اس وقت تک اسکول میں داخل نہ ہو سکے‘ یہ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک امتحان نہ دے سکے‘ یہ اس وقت تک شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ‘ ڈرائیونگ لائسنس اور بینک اکاؤنٹ کی سہولت حاصل نہ کر سکے جب تک اس کی ہیلتھ انشورنس نہیں ہو جاتی‘ ملک کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ ادارے بھی اپنے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کے ذمے دار ہوں اور یہ ادارے جب تک بینکوں کو انشورنس سر ٹیفکیٹ نہ دے دیں ۔

بینک ان کے ملازمین کو تنخواہ ٹرانسفر نہ کریں‘ یہ ہیلتھ انشورنس آگے چل کر ملک کے ہر شہری کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرے گی‘ یہ لوگ اضافی رقم کے بغیر پرائیویٹ کلینکس اور اسپتالوں میں اپنا علاج کرا سکیں گے‘ حکومت بڑی آسانی سے ادویات ساز اداروں کا معیار بھی بڑھا سکتی ہے‘ ملک کی تمام ادویات ساز کمپنیاں دوا سازی کے لیے لیبارٹریاں بناتی ہیں‘ ان کے بجٹ کا ستّر اسی فیصد حصہ ان لیبارٹریوں پر خرچ ہو جاتا ہے‘اگر چاروں صوبوں کی حکومتیں سرکاری سطح پر انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کی لیبارٹریاں بنا دیں اور فارماسوٹیکل انڈسٹری ان لیبارٹریوں سے فائدہ اٹھا لے تو حکومت اور فارما سوٹیکل انڈسٹری دونوں کو فائدہ ہو گا‘ ادویات کی کوالٹی کا ایشو بھی حل ہو جائے گا اور حکومت بھی معیار پر نظر رکھ سکے گی۔

انصاف کا مسئلہ بھی اسی طرح حل کیا جا سکتا ہے‘ ملک میں خاندانی لڑائیاں یا شخصی انا‘ پولیس کی غلط رپورٹنگ‘ وکلاء کے تاخیری حربے اور عدالتوں کی کمی یہ چار وجوہات ہیں جن سے انصاف کا عمل متاثر ہو رہا ہے لیکن ہم بڑی آسانی سے یہ چاروں مسئلے حل کر سکتے ہیں‘ حکومت ملک کے تمام علاقوں میں ثالثی عدالتیں بنا دے‘ یہ علاقے کے معزز لوگوں پر مشتمل ہوں اور پولیس باہمی جھگڑوں کے تمام مقدمے ان کے حوالے کر دے‘ یہ لوگ فریقین کو سنیں اور ان کے درمیان صلح کروا دیں‘ قوانین میں تبدیلی کی جائے‘ قانون میں سے شک کی بنیاد پر گرفتاری کی تمام دفعات نکال دی جائیں‘ پولیس کے انڈر لاء برانچ بنائی جائے،

اس برانچ میں وکلاء بھرتی کیے جائیں‘ یہ برانچ مقدمات اور ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے کی ذمے دار ہو تا کہ عام پولیس کچہری کے عمل سے باہر ہو جائے اور یہ صرف لاء اینڈ آرڈر اور تفتیش پر توجہ دے سکے‘ عدالت جس مقدمے میں ملزمان کو بری کر دے پولیس ڈیپارٹمنٹ وہ مقدمات بنانے اور تفتیش کرنے والے پولیس افسروں کی اے سی آر روک لے اور اس کا ان کی پروموشن پر اثر ہو‘ ملک میں وکلاء عدالتیں بنائی جائیں‘ عدالتیں سماعت سے قبل مقدمے وکلاء عدالتوں میں بھجوا دیں‘ وہاں فریقین کے وکلاء بیٹھ کر سمجھوتے کی کوشش کریں۔

اگر دونوں میں صلح ہو جائے تو وکلاء مقدمہ واپس لے لیں‘ اس سے عدالت‘ موکل اور وکلاء تینوں کا وقت بچے گا‘ عدالت ہر مقدمے کی ’’کاسٹ‘‘ طے کرے اور جو فریق مقدمہ ہار جائے یہ کاسٹ اس سے وصول کی جائے‘ اس سے مقدمے بازی کے رجحان میں کمی آ جائے گی‘ مقدمات کی مدت طے کر دی جائے‘ عدالتوں کو پابند بنایا جائے یہ ایک سے چھ ماہ کے اندر مقدمے کا فیصلہ کریں ‘ ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں آنریری جج تعینات کیے جائیں‘ یہ جج تنخواہ اور دفتر کے بغیر ہوں‘ یہ وکیل ہوں یا ریٹائر جج ہوں‘ عدالتیں معمولی نوعیت کے مقدمات ان کو ’’ریفر‘‘ کر دیں۔

جیلوں کے اندر سول اور سیشن جج تعینات کیے جائیں‘ یہ جیل جج کہلائیں اور یہ جیلوں میں بند ملزموں اور مجرموں کے بارے میں فیصلے کریں‘ یہ معمولی جرائم میں بند مجرموں کو رہا کر سکیں‘ یہ مجرموں کی سزا میں کمی اور اضافہ کر سکیں اور یہ طویل مدت سے جیل میں بند مجرموں کی ضمانت لے سکیں‘ جیلوں کے اندر اسکول‘ ووکیشنل ادارے اور زبانیں سکھانے کے ادارے بنائے جائیں‘ یہ ادارے ملزموں اور مجرموں کو تعلیم دیں‘ فرانس کی بڑی کمپنیوں نے جیلوں میں اپنے گودام اور چھوٹی ورکشاپس بنا رکھی ہیں‘ یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات جیل بھجوا دیتی ہیں۔

قیدی یہ مصنوعات پیک کرتے ہیں اور یہ مصنوعات جیل سے براہ راست مارکیٹ چلی جاتی ہیں‘ اس سے قیدیوں کو روزگار مل جاتا ہے‘ کمپنیوں کو سستا ہیومین ریسورس دستیاب ہو جاتا ہے اور جیل کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے‘ حکومت پاکستان بار کونسل کے ساتھ مل کر وکلاء کی فیس بھی طے کر دے‘ وکلاء کو بھی ون سے فائیو تک اسٹار میں تقسیم کیا جائے اور ان کی فیسیں ان اسٹارز کے مطابق طے کی جائیں کیونکہ ملک میں اس وقت مظلوم کو انصاف حاصل کرنے کے لیے اپنا رہا سہا اثاثہ وکیل کے نام کرنا پڑتا ہے اور یہ معاشی مجبوری بھی انصاف کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

ہمیں ملک میں سزاؤں کو بھی ’’ری وزٹ‘‘ کرنا چاہیے‘ ہمیں جیلوں کے بجائے جیبوں پر دباؤ بڑھانا ہو گا‘ یورپ میں مجرموں کو جیل بھجوانے کے بجائے بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں‘ ہم بھی جرمانے پر جا سکتے ہیں‘ ہم قتل‘ آبروریزی‘ ڈکیتی اور فراڈ کے علاوہ باقی جرائم کو جرمانے پر شفٹ کر دیں‘ عدالت مجرموں کو لاکھوں روپے جرمانے کرے۔

ان کی جائیداد ضبط کر لے اور ان کے دو تین سال کے لیے شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ اور ڈگریاں ضبط کر لے‘ یورپ میں چھوٹے جرائم پر سوشل سروس لی جاتی ہے‘ ہم بھی چھوٹے مجرموں کو بس اسٹاپ‘ ریلوے اسٹیشن‘ پبلک باتھ رومز کی صفائی‘ ٹریفک پولیس‘ بچوں کو پڑھانے‘ سڑکوں پر جھاڑو دینے‘ اولڈ پیپل ہوم میں کام کرنے یا ایدھی فاؤنڈیشن میں خدمات سرانجام دینے کی سزا دے سکتے ہیں اور ہم بے گناہوں کے قاتلوں کو اس وقت تک مظلوم خاندان کی مالی مدد کرنے کی سزا دے سکتے ہیں جب تک یہ خاندان اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو جاتا اور ہم مصر کی طرح پولیس اسٹیشنز میں پولیس اسپتال بھی بنا سکتے ہیں تا کہ پولیس کو ان تمام کیسز میں اسپتالوں کے دھکے نہ کھانا پڑیں جن میں انھیں میڈیکل رپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے‘ یہ تمام تجاویز پریکٹیکل ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے