علمی خزینۂ معلومات

ملکی سیاست زوروں پر ہے، نقّارہ بردار، خاموش ہو گئے ہیں، تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے لگائے جا رہے ہیں، محترم چیف جسٹس آف پاکستان گاہے گاہے اشاروں کنایوں میں اداروں کی نااہلی کی جانب اشارہ کرتے رہتے ہیں۔ پشاور سے جو لوگ آتے ہیں وہ کہتے ہیں پہلے سے بُرا حال ہے، پورا شہر کھدا پڑا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات روز مرہ کی حقیقت ہیں۔ ناتجربہ کار، غیر تعلیم یافتہ لوگ حکومت کے اہم محکموں کو چلانے کی مشق کر رہے ہیں۔ شاید اس اُمید میں کہ پانچ سال بعد ان ہی کو پھر موقع ملے گا۔ جب تبدیلی آئی تو میں نے یہ شعر لکھ دیا تھا ؎

لوگو دُعا کرو کہ گزر جائے خیر سے
آثار کہہ رہے ہیں بُرا یہ بھی دور ہے

عوام کو تو سوائے مہنگائی اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کے کوئی اور تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ کہا جا سکتا ہے کہ مزید قرض لے کر ڈیفالٹ ہونے سے جان بچائی ہے۔ سب ہی لوگ دعا کرتے ہیں کہ حکومت کامیاب ہوکر عوام اور ملکی حالت بہتر بنائے مگر حالات، واقعات کچھ امید افزا نظر نہیں آ رہے۔ اچھے لوگوں کی چھٹی ہو رہی ہے اور نہایت محترم و معزز اساتذہ کو نئے دور میں ہتھکڑیاں پہنائی جا رہی ہیں۔ بس توپوں کے منہ پر رکھ کر اُڑانا باقی رہ گیا ہے۔ آئیے! اب چند علمی نوادرات پر بات کرتے ہیں۔

(۱)پہلی کتاب ’’اَمجد فہمی‘‘ ہے۔ یہ ہمارے ہردلعزیز، ذی فہم دانشور جناب امجد اسلام امجد پر نہایت دقیق و اعلیٰ کتاب ہے اور یہ ڈاکٹر سید تقی عابدی کی تحریر ہے۔ بھائی امجد اسلام امجد کو کون نہیں جانتا جس محفل میں شرکت کرلیں اُسے لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ ہاف سنچری سے زیادہ (بلکہ تین چوتھائی) کتب کے مصنف ہیں۔ غزلیں، نظمیں، جدید شاعری، مضامین، افسانے غرض ہر فن مولا ہیں۔ محترم جناب ڈاکٹر سید تقی عابدی نے جو پچھلے صفحے پر تبصرہ لکھا ہے وہ خاصی ثقیل اردو پر مبنی ہے لیکن اس میں ڈاکٹر صاحب نے بھائی امجد اسلام امجد کی شخصیت‘ گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔

یہ کتاب 712صفحات پر مشتمل ہے اس میں 25مقالے تو برادرم ڈاکٹر سید تقی عابدی کے تحریر کردہ ہیں۔ 7منظومات، 13تخلیقی شہ پارے اور بھائی امجد اسلام امجد کی لاتعداد نہایت خوبصورت تاریخی تصاویر شامل ہیں اس کے علاوہ بھائی امجد اسلام امجد کے اعزازات اور ان پر ملک میں اور بیرون ملک لکھے گئے مقالے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں پر لکھے گئے تھیسز 30سے زیادہ ہیں۔ غرض کتاب کیا ہے بھائی امجد اسلام امجد کی پوری زندگی کا کچا چٹھا ہے۔ اردو ادب کے ذخائر میں یہ نہایت بیش بہا اضافہ ہے اور اردو ادب کے اسکالرز، طلبا کیلئے نہایت قیمتی خزینۂ معلومات اور اثاثہ ہے۔

ان نوادرات کے علاوہ ہمارے ذہین و قابل سول سرونٹ ڈاکٹر نور محمد اعوان کی دو اعلیٰ کتب مشہور مسلمان ریاضی دان محمد بن موسیٰ الخوارزمی پر ہیں، ان کی تفصیل آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ یہ دونوں کتابیں لاہور سے شائع ہوئی ہیں۔

(1)پہلی کتابFather of Algebra-Muhammad Bin Musa Al-Khawarizmi ہے۔ (آپ یعنی ہمارے ریاضی داں اور سائنسدان جانتے ہیں کہ یہ کتنے مشہور ریاضی داں تھے اور پاکستان میں ان کے نام سے ایوارڈ اور سونے کا تمغہ دیا جاتا ہے) اس کتاب میں ڈاکٹر نور محمد اعوان کے علم ریاضی کا شوق ہے اور چونکہ ریاضی تمام سائنسی مضامین کی جڑ یا ماں ہے، اس لئے ڈاکٹر نور محمد اعوان نے اس موضوع پر تحقیق کرکے الخوارزمی پر یہ اعلیٰ کتاب تحریر کی ہے۔ صدیوں سے لوگوں نے قدرت کے رازوں کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی ہے اور اس عرصے میں ہم آج ایسی جگہ کھڑے ہیں کہ مشکل سے مشکل مسئلے کو ریاضی اور کمپیوٹر کی مدد سے حل کر لیتے ہیں۔

کمپیوٹر ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے کائنات کے تمام راز سمجھے جا رہے ہیں مگر جوں جوں انسان اس میں کامیاب ہو رہا ہے اس کو ناقابل تردید ثبوت ملتے جا رہے ہیں کہ ان رازوں کے حل کا منبع کلام مجید اور اس کا خالق اللہ رب العزت ہے۔ جو راز 14سو سال پیشتر رسول اللہﷺ کے ذریعے اللہ پاک نے کلام مجید میں بیان کئے ہیں وہ آج کل کے ماہرین، دانشوروں نے سخت محنت، مشقت کے بعد اب معلوم کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں ہمیشہ ایک زمین اور سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے، ماہرین اب اس کی صداقت کی جانب رواں دواں ہیں۔ ریاضی کے طلبا اور اساتذہ کیلئے ڈاکٹر نور محمد اعوان کی کتاب ان بیش بہا معلومات کی ایک کنجی ہے۔ اُمید ہے کہ طلبا اور اساتذہ اس سے مستفید ہوں گے۔

(2) دوسری نہایت ہی قیمتی اور مفید کتاب جو ڈاکٹر نور احمد اعوان صاحب نے تحریر کی ہے وہ یہ ہےArithmetics and Numeral System of Al-Khawarizmi پہلی کتاب کی طرح یہ کتاب بھی ریاضی کی ترقی کی بنیادوں میں سے ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو مسلمانوں کے سائنسی علوم میں ترقی کا علم نہیں۔ خواہ ریاضی ہو، الجبرا ہو، فزکس ہو، میڈیسن ہو، ہر علم کی ترقی میں مسلمانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ آنکھوں کے علاج، آپریشن، پیدائش وغیرہ کے بارے میں بنیادی معلومات مسلمانوں نے معلوم کرکے مغربی ممالک کو دی تھیں۔ آپ کو تعجب ہو گا کہ انگلستان کے بادشاہ نے اپنی بیٹی کو اندلس کے سلطان (امیر) کے پاس بھیجا تھا کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کر سکے۔ برطانیہ کے مشہور ریاضی دان اور فلاسفر ڈاکٹر برٹنڈ رسل نے اپنی ایک کتاب میں صاف صاف بیان کیا ہے جب اندلس (اسپین) میں اعلیٰ تعلیمی ادارے کام کر رہے تھے اس وقت مغربی یورپ کے لوگ پتوں سے ستر پوشی کرتے تھے۔

نوٹ:نئے حکمران کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے منصوبہ بندی کریں، محترم جناب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے بیانات پر دھیان دیں۔ آپ نے ایک ادارے کے بارے میں جو فرمایا ہے کہ اس میں نہ اہلیت ہے اور نہ ہی صلاحیت، یہی تاثر ملک کے تمام پڑھے لکھے، تجربہ کار لوگوں کا بعض اداروں کے بارے میں ہے۔ سیاست دانوں کے بیانات کو تو آپ پروپیگنڈا قرار دے سکتے ہیں مگر محترم جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے بیان کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔ حکومتی عہدیداران سوائے لوگوں کی پگڑی اُچھالنے کے کچھ نہیں کر رہے۔ ایف اے پاس افسر پروفیسروں کو ہتھکڑیاں لگا رہے ہیں۔ ITیونیورسٹی لاہور کے VCڈاکٹر عمر سیف نہایت قابل اور ہونہار ITایکسپرٹ ہیں۔ نوجوان ہیں، ان میں ابھی اعلیٰ کام کرنے کی صلاحیت ہے، خدا جانے ہمارے حکمران کس زمین دار، کاشتکار کو وہاں لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے