انڈوں کی ٹوکری میں سب انڈے صحیح نہیں ہوتے!

مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ یہ بات کس نے کہی، مگر میری یادداشت میں خورشید ندیم کا نام آرہا ہے، بات میرے دل کو لگی تھی کہ جو کوئی اٹھتا ہے و ہ ملک کی بربادی کا ذمہ دار سیاست دانوں کو ٹھہرا کر جوتی اتار لیتا ہے اور چھترول شروع کردیتا ہے۔ انہیں شاید علم نہیں کہ ہمارے جیسے ممالک میں ملک صرف سیاست دان نہیں چلاتے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار بھی چلاتے ہیں جو اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، سیاست دانوں کی پالیسیوں پر عمل کی ذمہ داری بیوروکریسی پر ہوتی ہے جو حکومت سےزیادہ پاور فل بن چکی ہے۔

اس کے علاوہ بعض دوسرے ریاستی ادارے بھی سیاست دانوں کو فیل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور تو اور خود بعض سیاست دان خود بھی اپنے کردار سے سیاست دانوں کی پوری برادری کو بدنام کرتے ہیں۔ ایک طبقہ الیکٹ ایبل کا بھی ہے، یہ وہ ناسور ہے جو اپنے علاقے میں ہی کسی ٹھوس مقبولیت کی وجہ سے الیکشن میں صرف کامیاب نہیں ہوتا بلکہ ان کی ’’گدیاں‘‘ ہوتی ہیں، پیری فقیری کی گدیاں، برادری کی ’’گدیاں‘‘، ’’جاگیرداری اور سرمایہ دار کی گدیاں‘‘ یہ سب لوگ اپنا بوجھ کسی طرف ڈال کر الیکشن کے نتائج کو تہہ و بالا کردیتے ہیں۔

میں نے گزشتہ بیس پچیس برسوں کے دوران ریڑھی لگانے والوں کو پلازے بناتے دیکھا ہے، ایک پتیلے میں چنے بیچنے والوں کو اربوں کی جائیداد کا مالک بنتے دیکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور ٹیکس لینے والا محکمہ ان سے ٹیکس نہیں لیتا۔ ان کا ٹیکس وہ ’’ہدیہ‘‘ ہوتا ہے جو وہ ٹیکس انسپکٹر کو پیش کرتے ہیں۔ سرمایہ دار طبقہ کو حکومتیں برآمدات میں فروغ کے لئے جو مراعات دیتی ہیں وہ مراعات ساری کی ساری یہ طبقہ خوردبرد کرجاتا ہے اور برآمدات میں اضافے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا۔

یہ لوگ ملک کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں اگر آپ اس کی تفصیل جاننا چاہیں تو کسی ایسے تاجر سے پوچھیں جو محب وطن ہو اور بغیر ہیرپھیر کے اللہ نے اسے بھرپور رزق دیا ہو۔ آپ اس کی زبانی تاجر طبقے کی کارستانیاں سنیں گے تو توبہ توبہ کر اٹھیں گے۔ غضب خدا کا چند برسوں میں اربوں روپوں کے مالک بن جانے والے ان لوگوں کا احتساب کرنے کے بجائے شریف برادران کا احتساب کیا جارہا ہے۔ جو ستر سال کی محنت شاقہ کے بعد اس مقام تک پہنچے ہیں۔ خود میں انہیں پچاس برسوں سے دیکھ رہا ہوں جب ماڈل ٹائون میں شریف برادران کی سات کوٹھیاں ایک ساتھ ہوتی تھیں۔

مجھے جمہوریت سے عشق ہے اور میرا یہ کالم بھی اسی حوالے سے ہے کہ خدا کے لئے ملک و قوم کو تباہی کی طرف لے جانے والے سارے اقدام سیاست دانوں کے کھاتے میں نہ ڈالیں، اس سے آمریت کے لئے راستہ ہموار ہوتا ہے، ریاست کے ستونوں میں اب آپ اگر میڈیا کو بھی شامل کریں جو یہ ایک نیا ستون ہے جو ملک میں بے یقینی کی فضا کو فروغ دینے میں لگا ہوا ہے، آپ ایک دن تین چار چینل باقاعدگی سے دیکھیں تو تین چار دن کھانا کھانے کو جی نہیں چاہتا۔ ’’خبر‘‘ صرف ’’بری خبر‘‘ نہیں ہوتی، اچھی خبر کو بھی براہ کرم خبروں میں شامل کریں۔ اپنے بچوں کو رزق حلال کھلائیں، یہ جملہ بظاہر یہاں بے محل نظر آتا ہے مگر جن کے لئے ہے وہ اسے برمحل قرار دیں گے۔

ایک اور بہت بری بات، میں خود میڈیا سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ اس بات پر بھی کہ میں نے اگر کسی سے اختلاف بھی کیا ہے تو میٹھا میٹھا، ایسا میٹھا کہ ٹارگٹ بھی اس کا مزا لے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی پھنے خان مجھ پر حملہ آور ہوا ہے تو بھی میں ہنستے ہنستے اس کے جواب میں چند لائنیں لکھ دیتا ہوں، مگر اکثر نظر انداز کرتا ہوں، میں نے یہ ذکر یہاں اس لئے چھیڑا ہے کہ میرے کچھ بھائی بند سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے کے لئے مسلسل کوشاں نظر آتے ہیں، جب ہم عوام کواصل تصویر کے بجائے کوئی مسخ شدہ تصویر دکھائیں گے تو عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ ہمارے بہت سے اچھے سیاست ان اس کی زد میں آرہے ہیں۔

کل میں نے ایک آڈیو سنی جس میں ایک سیاست دان جو اس وقت اہم عہدے پر ہے، ایک مقامی صحافی کو تقریباً ماں بہن کی گندی گالیاں اور قریب قریب قتل کی دھمکیاں بھی دے رہا تھا۔ مگر بے چارہ صحافی جو اپنی خبر پر قائم تھا اور سچا لگ رہا تھا، بڑے حوصلے یا بے چارگی کے احساس کے ساتھ یہ سب کچھ سنتا رہا۔ اگر ہم نے برے سیاست دان دکھانے ہیں تو اس سیاست دان کو بھی ان ناپسندیدہ سیاست دانوں میں شامل کر کے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو ہم دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔

آخر میں یہ وضاحت کہ یہ کالم سیاست دانوں کو فرشتہ ثابت کرنے کے لئے نہیں ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کو سیاست اور سیاست دانوں سے بے زار نہ کریں ورنہ تو انہی سیاست دانوں نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں کو سہارا دیا۔ انہی سیاست دانوں نے اپنے ہی ایک سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلا کر اس نابغہ روزگار سیاست دان کو پھانسی کے تختے تک پہنچایا۔

میاں نوازشریف اور ان کی ساری فیملی کیساتھ پرویز مشرف نے جو سلوک کیا اور جب نوازشریف کو پھانسی دینے کی اس کی خواہش پوری نہ ہوسکی تو انہیں جلا وطن کردیا اور پھر پورے سکون سے باقی ماندہ سیاست دانوں کی حمایت سے پاکستان پر حکومت کی۔ اس وقت ان میں سے بہت سے سیاست دان موجودہ حکومت کی کابینہ میں شامل ہیں۔ مگر انڈوں کی ٹوکری میں سب انڈے تو صحیح نہیں ہوتے! ہماری نظر پاکستان کے اصلی دشمنوں کی طرف ہونا چاہئے جن کا میں نے کالم کے ابتدائی حصے میں ذکر کیا ہے، باقیوں کو ان کا حصہ صرف بقدر جثہ ملنا چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے