نائب صوبیدار خلیل کو خراج تحسین!

میرے بیٹے علی عثمان قاسمی اور بہو پروفیسر نوشین زیدی نے اتوار کےروز اپنے نجی یونیورسٹی کے فلیٹ میں ساری فیملی کو برنچ پر مدعو کیا تھا۔ یاسر بیٹا میری پوتی نایاب اور بہو نوشی کے ساتھ پہلے ہی علی کی طرف پہنچ چکا تھا۔ ادھر سے میں اپنی اہلیہ روبیشہناز ، پوتیوں انمول، آمنہ، شہ پارہ اور بیٹے عمر کے ساتھ گھر سے نکلا، بہو سمیرا ایک کورس کے سلسلے میں جاپان گئی ہوئی ہے اور یوں وہ اس فیملی گیدرنگ کی لذت سے محروم رہی۔ واضح رہے میں نے سب پوتیوں کے نام ان کی فرمائش پر لکھے ہیں ، وہ گلہ کرتی تھیں کہ دادا ابو نے اپنے کالم میں کبھی ہمارا ذکر نہیں کیا۔

بہرحال ہم جب کینٹ کے ناکے پر پہنچے جہاں ہمارے فوجی جوان چیکنگ کے لئے کھڑے تھے، مگر ان کی چیکنگ سے پہلے ہماری گاڑی عین ناکے کے درمیان خراب ہوگئی اور ایک قدم بھی آگے چلنے سے انکار کردیا۔ فلی آٹو میٹک گاڑیوں میں یہ خرابی ہے کہ جب خراب ہوتی ہیں تو پھر آسانی سے انہیں راہ راست پر نہیں لایا جاسکتا۔ ہمارے فوجی نوجوانوں نے جب ہمیں اس مشکل میں دیکھا تو کہا کہ گاڑی ذرا آگے کھڑی کردیں، ہم نے یہاں گاڑیوں کی چیکنگ کرنا ہوتی ہے اور پھر خود ہی ان میں سے دو تین نوجوان دھکا دینے کے لئے آگے بڑھے تو میں نے بھی ان کے ساتھ گاڑی کو دھکا لگانا چاہا، تو ان میں سے ایک نے میری عمر کا لحاظ کرتے ہوئے کہا کہ سر آپ آرام سے تشریف رکھیں۔

یہ کام ہمارا ہے، ہم ہی کریں گے، یہ وہ لمحہ تھا جب ایک بار پھر میرے دل میں اپنے نوجوانوں کے لئے محبت کا جذبہ جاگا۔ گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کرنے کے بعد ا نہوں نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور پوچھا آپ چائے پئیں گے۔ میں نے ان کی اس آفر کا شکریہ ادا کیا اور ایک بار پھر مجھے ان پر بہت پیار آیا۔ ان نوجوانوں میں ان کا انچارج نائب صوبیدار خلیل بھی تھا، وہ ہر کام اس کی اجازت سے کررہے تھے۔

اس دوران عمر بیٹا گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا اور ادھر ادھر فون بھی کرتا رہا۔ آخر میں اس نے میرے ڈرائیور بہادر کو جو نام ہی کا بہادر ہے، اسے فون کیا، اس کی اتوار کی چھٹی تھی، مگر وہ سب کام چھوڑ کر ’’جائے واردات‘‘ پر پہنچا۔ اس کی آمد سے پہلے نائب صوبیدار خلیل اور ان کے رفقاء میری پوتیوں سے پانی وغیرہ کا پوچھ رہے تھے۔ آخر میں خلیل نے کہا سر آپ چابی ہمارے حوالے کریں اور آپ ٹیکسی منگوالیں۔ آپ کا ڈرائیور آئے گا تو ہم چابی اس کے حوالے کردیں گے، ہم نے ایسے ہی کیا اور ہم علی کی طرف چل پڑے۔ میری پوتی نایاب کہنے لگی’’دادا ابو یہ لوگ کتنے اچھے تھے۔

یہ سارا واقعہ میں نے اس لئے لکھا ہے کہ کسی بھی ادارے کے چند لوگ اپنے رویے سے اس ادارے کے لئے محبت کیسے پیداکردیتے ہیں اور اس ادارے کے کچھ لوگوں کے غلط رویے سےپورے ادارے کی ساکھ کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔ ایک اسی طرح کا واقعہ سابقہ آرمی چیف جنرل کیانی کے دور میں بھی میرے ساتھ پیش آیا۔

پشاور سے ایک پروفیسر انور جلال نے جو اس وقت میرے لئے بالکل اجنبی تھے، مجھے ایک خط لکھا کہ ایک ناکے پر کچھ فوجیوں نے ان کے ساتھ بلاوجہ کس قدر بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے وہ خط اپنے تبصرے کے ساتھ اپنے کالم میں شائع کردیا۔ جنرل کیانی نے تحقیق کی تو ساری بات سچ نکلی، میں نہیں جانتا کہ ان لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، مگر مجھے انور جلال کا فون آیا جس میں انہوں نے میرا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ یہ بتایا کہ فوج کے ایک بہت بڑے افسر نے فون کرکے ان سے معذرت کی۔ صرف یہی نہیں ایک بریگیڈئیر صاحب نے مجھے بھی فون کرکے میرا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے ایک پروفیسر سے اس ناگوار سلوک کا واقعہ ہمارے علم میں لائے۔ اس دن سے پروفیسر انور جلال اپنی فوج کے لئے دل میں محبت کا جذبہ رکھتے ہیں۔

اور ہاں ایک دفعہ میں نے ایک اور کالم میں لکھا تھا کہ بیٹ مینوں سے ’’پوتڑے‘‘ دھلوانا اور ان سے بوٹ پالش کرانا اس فوجی کے لئے بہت تکلیف دہ ہے جس نے فوجی وردی ملک کے دفاع اور اس کے لئے جان قربان کرنے کے لئے پہنی تھی، وہ بوٹ پالش کرنے کے لئے فوج میں نہیں آیا تھا۔ میں نے یہ کالم بھی ایک فوجی کے خط پر لکھا تھا جو میرے نام تھا وہ نوجوان اتنا جی دار تھا کہ اس نے اپنا پورا نام اور یونٹ نمبر سب کچھ لکھا تھا مگر میں نے خط شائع کرتے ہوئے اس کا نام اور ایڈریس دانستہ درج نہیں کیا کہ کہیں بیچارہ عتاب کی زد میں نہ آجائے، مگر اس روز میری خوشی کی حد نہ رہی جب مجھے پتہ چلا کہ میرے اس کالم کا نوٹس لیتے ہوئے آئندہ کے لئے بیٹ مین سویلینز سے بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اور آخر میں پاک فوج کے متعلقہ شعبے کے سربراہ سے میری گزارش ہے کہ وہ خلیل احمد اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں ترقی دیں یا کسی اور طریقے سے پاک فوج کے لئے دلوں میں محبت پیدا کرنے والے نوجوانوں اور افسروں کو Compensate کریں۔ اس روز میں نے محسوس کیا کہ خلیل احمد نائب صوبیدار، دراصل ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور ہے بلکہ یہ زیادہ موثر ہے کہ یہ اپنے عمل سے پاک فوج کی وہ خدمت کررہا ہے جو جنرل صاحب اپنے الفاظ سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے