عدالت پردباؤاور عدالتی اختیار

عدالت سے صادر ہونے والا فیصلہ بہرحال ایک انسانی فیصلہ ہوتا ہے، جو غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی۔

یہ بھی ممکن ہے کہ جج نے لالچ، خوف،دباؤ، بد دیانتی، ذاتی پرخاش، وغیرہ کے زیرِ اثر غلط فیصلہ کیا ہو۔ سو تو اب کیا ان وجوہات کی وجہ سے عدالت کو حاصل فیصلے کا اختیار ختم ہوجاتا ہے ؟

اس پر تو کوئی کلام ہی نہیں کہ عدالتی فیصلوں سے اختلاف بلکہ ان کے خلاف احتجاج کا جائز حق بھی ہر فرد کو حاصل ہے۔ لیکن لوگوں کے اختلاف و احتجاج کے باوجود، کیا عدالت کا فیصلہ نافذالعمل ہوگایا نہیں؟ کیاایسے عدالتی فیصلوں کو دباؤ کے زور پر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے ؟

کیا عدالتی فیصلے کے متوازی کوئی فرد یا گروہ اپنا فیصلہ صادر کر سکتا؟

اس باب میں دینی تعلیمات کا حاصل اول و آخر یہی ہے کہ ممکنہ حد تک عدالتوں کو انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے اور نظم اجتماعی کی بقا کے لیے یہی لازم ہے کہ جب کوئی عدالتی فیصلہ ہو جائے تو و ہی نافذ قرار دیا جائے ۔ عدالت کے متوازی کسی اتھارٹی کا کوئی فیصلہ کوئی دینی جوازنہیں رکھتا۔ ہم یہ بات، "آسیہ مسیح کا فیصلہ؛استفسارات کا جواب” کے زیر عنوان اپنی تحریرات میں ارشادات پیمبرﷺ کی روشنی میں بیان کر چکے ہیں۔

دینی ہدایات کا حاصل یہی ہے کہ جج کو پوری آزادی کے ساتھ معاملہ کی تحقیق کرنے دی جائے۔ فقہاء نے جج کو جانب داری آمادہ کر سکنے والے امور سے اجتناب کی تفصیل بیان کرتے کرتے یہاں تک بھی لکھا ہے کہ فریقین میں سے کسی کا ہدیہ بھی جج قبول نہ کرے اور نہ ہی کسی ایک فریق سے تنہائی میں الگ سے کچھ سنے کہ مبادا اس کا قلبی میلان کسی ایک فریق کی جانب ہو کر فیصلے میجانب داری کا باعث بن جائے۔ فریقین اپنا جھگڑا کمرہ عدالت میں ہی پیش کریں اور جج غیرجانب داری سے تحقیق کے بعد فیصلہ جاری کرے۔
آسیہ مسیح کے کیس میں ہمارے سامنے دو فیصلے ہیں:

ایک نجی عدالتوں کا فیصلہ اور دوسرا اعلیٰ عدالت کا فیصلہ۔

سامنے کی حقیقت ہے کہ نجی عدالت میں کیس دائر ہونے سے پہلے ہی ایک گروہ نے، ماورائے عدالت، آسیہ کا فیصلہ صادرکر رکھا تھا۔ وہ مصر تھا کہ عدالتوں پر لازم ہے کہ اب انھی کے صادر کردہ فیصلے کی محض توثیق کریں۔معاملہ کو جس درجہ حساس بلکہ جان لیوا بنا دیا گیا تھا،کوئی وکیل بھی آسیہ کا کیس لڑنے کی تاب لانے سے لرزاں تھا۔ جب فقیہانِ شہرنے فیصلے سے پہلے ہی آسیہ کو "گستاخ ملعونہ” قرار دے دیا تھا تو کون وکیل ایسے میں "گستاخ” کا مقدمہ لڑتا اور کون جج ایسا فیصلہ صادر کر سکتا تھا جس کے نتیجے میں وہ خود ملعون اور مبادا مقتول ٹھیرتا؟

اس جان لیوادباؤکی کیفیت میں بھی نجی عدالتوں نے بہرحال ایک فیصلہ صادر کیا۔ اب دین و قانون کی رو سے عدالت کا فیصلہ ہی نافذالعمل قرار پائے گا، اس امکان کے باوجود کہ جج کو معاملہ کی آزادانہ فیصلے کا ماحول نہیں دیا گیا۔ نظم اجتماعی کی بقا کا راستہ اس کے سوا کوئی نہیں۔البتہ ایسا دباؤ ڈالنے والوں کا عمل سراسر خلافِ دین و قانون ہی قرار پائے گا۔

قانونی راستہ یہی ہے کہ ملزم اپنی تسلی کے لیے نجی عدالت کے کسی فیصلے کو اعلیٰٰ عدالت میں چیلنج کر لے۔
چناں چہ یہاں بھی یہی ہوا اور اعلیٰ عدالت نے کیس کی سماعت کے بعد نجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم کردے دیا۔ اپنے تفصیلی فیصلے میں بتایا کہ نجی عدالت کے فیصلے میں کیا اسقام تھے جن کے ہوتے ہوئے موت جیسی انتہائی سزا دینا ممکن نہیں رہا۔

اب اس بات سے کون بے خبر ہے کہ آسیہ کا کیس عالمی توجہ کا مرکز بھی تھا؟ اس امکان بلکہ امر واقعہ کو بھی نہیں ٹالا جا سکتا کہ عالمی دباؤ بہرحال آسیہ کی رہائی کے حق میں ہی تھا۔ اور نجی عدالت کی طرح اعلیٰٰ عدالت بھی اسی جان لیوادباؤکی زد میں بھی تھی جو مذہبی پریشر گروپوں کی طرف سے تھا۔

دباؤ کی ایسی داخلی اور عالمی فضا میں اعلیٰٰ عدالت کا جو فیصلہ بھی ہوتا بہت ممکن تھا کہ غیرجانب دارانہ نہ ہوتا۔ داخلی دباؤ کا مظاہرہ ہم نے دیکھا کہ جب اعلیٰ عدالت نے مذہبی پریشر گروپوں کےدباؤکے خلاف فیصلہ دیا تو ججز کو ہی گستاخ اور واجب القتل قرار دے کر ان کی جان کوہی خطرے میں ڈال دیا گیا۔ ججز کے علاوہ بھی جو جو گستاخی کے فتووں کی لپیٹ میں آئے وہ بھی ہمارے سامنے کی بات ہے۔

مذہبی گروپوں کے اس ناجائز دباؤنے یہ خدشہ پیدا کر دیا تھا کہ کہیں قانونی تقاضے نبھائے بغیرہی ملزمہ کو ناحق سزا دے کر خدا اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت سمیٹ لی جائے۔ اور سزا نہ دینے کی صورت میں ججز کی جان کو لاحق خطرات بھی کوئی کم سنگین معاملہ نہ تھا۔ اور عالمی دباؤسے خدشہ تھا کہ کہیں ملزمہ کو ناحق رہائی مل جائے۔

یقیناً، ناحق سزائے موت ہوجانا سنگین ترامر تھا ، بہ نسبت اس کہ ملزمہ کی ناحق رہائی ہوجائے۔مگر اس میں کوئی کلام نہیں کہ عدالتوں پر ایسے داخلی یا خارجی دباؤ کا ہونا سراسر قابلِ مذمت عمل ہے۔

اس دوطرفہ دباؤکی بھرپور مذمت کے بعد سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دین کا حکم بہرحال یہی ہے کہ فیصلے کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہی ہے اور صرف اسی کا فیصلہ ہی نافذالعمل ہو گا۔ کئی احتمالات و خامیوں کے باوجود ماورائے عدالت فیصلہ صادر کرنے کا اختیار کسی فرد یا گروہ کو نہیں ۔

مذہبی گروپوں کے لیے بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایت یہی ہے کہ وہ دین کا نام لے کر،ماورائے عدالت و ماورائے شریعت خود فیصلے صادر کر کے منوانے کی غیر شرعی روش پر غور فرمائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے