پروین عاطف

عزیزی شکوہ عاطف جہاں کہیں بھی ہو مہینے میں ایک آدھ بار فون پر ضرور بات کرتا ہے، چند دن قبل ٹورانٹو سے اس کا فون آیا کہ وہ کل پاکستان آ رہا ہے کہ اس کی والدہ‘ اردو اور پنجابی ادب کی معروف لکھاری‘ پروین عاطف ان دنوں سخت علیل ہیں اور وہ کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔

پروین کی علالت کا تو مجھے پتہ تھا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اب بستر مرگ پر ہیں، والدہ کی عیادت کے بعد وہ مجھ سے ملنے کے لیے لاہور آیا اور ہم نے کچھ وقت ایک ساتھ گزارا جس میں زیادہ تر ذکر اس کی والدہ اور والد (ہاکی کے مشہور کھلاڑی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ بریگیڈئیر منظور حسین عاطف) اور ماموں نامور ادیب اور صحافی احمد بشیر کا ہوتا رہا کہ اس خاندان کا یہ تینوں بزرگ اپنی اپنی جگہ پر ’’غیرمعمولی‘ کہلانے کے مستحق ہیں۔

سو اس پس منظر میں جب میں نے صبح سات بجے شکوہ کی بھرائی ہوئی آواز سنی تو مجھے یقین ہو گیا کہ پروین عاطف اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔کچھ ہی دیر میں اس کی کزنز اور پروین کی بیٹیوں نیلم احمد بشیر‘ سنبل‘ بشری اور اسماء کی طرف سے فیس بک پر اس سانحے کی اطلاع عام ہو گئی اور چاروں طرف سے تعزیت کے پیغامات آنے شروع ہو گئے‘ اس حوالے سے بہت سے لوگوں نے پروین کی بعض ایسی تحریروں کا بھی ذکر کیا جو کسی وجہ سے میری نظروں سے بھی نہیں گزری تھیں۔

پنجاب کے دیہات کی رہتل اور شہری زندگی میں خواتین کو درپیش مسائل کی جس گہرائی اور حقیقت پسندی سے پروین عاطف نے تصویر کشی کی ہے اس کا ایک اپنا انداز ہے ان کی شخصیت کے جن تشکیلی پہلوؤں کی طرف ان کے مرحوم بھائی احمد بشیر نے اپنی مختلف تحریروں اور بالخصوص سوانحی ناول میں ذکر کیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچپن سے ہی زندگی کے بارے میں ایک جارحانہ مزاج رکھتی تھیں اور کسی غلط بات کو ’’مصلحت‘‘ کی چادر اوڑھانے کے سخت خلاف تھیں۔ احباب کی محفل میں وہ سراپا محبت اور انکسار تھیں مگر اپنے نظریات کے سلسلے میں کسی رو رعایت سے کام لینا ان کی فطرت ہی میں شامل نہیں تھا، عورتوں کے حقوق اور بالخصوص اسپورٹس میں ان کی شمولیت کے بارے میں وہ زندگی بھر بہت سرگرم رہیں اور اس حوالے سے کئی بین الاقوامی فورمز پر بھی انھوں نے پاکستان کی نمایندگی بھی کی۔

پروین عاطف کے گھرانے کو اگر ’’ہمہ آفتاب‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ان کے بعد کی نسل میں بھی غیر معمولی صلاحیت ایک عام سی بات رہی ہے۔ وہ شکوہ اپنی جسمانی وجاہت اور خوبصورتی کے ساتھ نہ صرف ایک ایسا غیر معمولی استاد اور مصنف ہے جسے اعلیٰ تر بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا تجربہ ہے بلکہ جس کی تعیناتی کو یورپ اور امریکا میں بھی سراہا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ تقریباً تیس برس قبل وہ کئی اور ڈراموں کے علاوہ میرے ایک ٹی وی سیریل ’’فشار‘‘ میں بطور اداکار بھی کام کر چکا ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ اسی ڈرامے میں علامہ اقبال کے پوتے اور حال ہی میں سینیٹر منتخب ہونے والے ولید اقبال نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے‘ اسی طرح نامور افسانہ اور ناول نگار نیلم احمد بشیر کا شمار بھی اب اپنے دور کی اہم لکھنے والیوں میں ہوتا ہے۔ دونوں کے طرز فکر اور موضوعات میں بھی بہت ہم آہنگی محسوس ہوتی ہے‘ سنبل نے گلوکاری اور اسماء نے اداکاری کے میدان میں شہرت پائی جب کہ چوتھی بھتیجی یعنی بشریٰ انصاری تو اب ’’آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘‘ کی زندہ مثال بن چکی ہے ان چاروں کی ذہنی تربیت پروین عاطف کے زیر سایہ ہوئی ہے، وہ بظاہر ان کی سہیلیوں کی طرح رہتی تھیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا رول ایک گائیڈ اور رہنما کا بھی تھا۔

جہاں تک پروین عاطف کی تحریروں کا تعلق ہے انھوں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لکھا، وہ بنیادی طور پر ایک فکشن رائٹر تھیں مگر ان کی حقیقت پسندانہ سوچ اور گہرے معاشرتی تجزیے کی وجہ سے ان کی کہانیوں کے اکثر کردار دیکھے بھالے محسوس ہوتے ہیں، اپنے شوہر کی ہمراہی اور خواتین سے متعلق مسائل کی نمایندگی کے سلسلے میں انھیں دنیا بھر کی مسافت کا موقع ملا اور انھوں نے اپنے بہت سے تاثرات کو سفرناموں کی شکل میں قلم بند بھی کیا، انھیں کردار نگاری اور کردار شناسی کا ایک فطری درک تھا، سو یہ سفر نامے صرف مختلف زمینی نکروں کی سیر بینی تک محدود نہیں رہے بلکہ پروین عاطف نے وہاں بسنے والے لوگوں سے زیادہ واسطہ رکھا ہے۔ زندگی کے مختلف جھمیلوں کی مصروفیت کی وجہ سے انھوں نے نسبتاً کم لکھا مگر جو اور جتنا بھی لکھا وہ اپنے عصر سے جڑا ہوا اور اس کا موثر عکاس ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں ان کی علالت اور اسلام آباد منتقلی کی وجہ سے ان سے ملاقاتوں کے درمیانی وقفے طویل ضرور ہوئے مگر رابطہ ہمیشہ قائم رہا، وہ ایک بہت اچھی دوست اور ہم عصر تھیں اور مجلس زندگی کے تقاضوں کو نبھانے کے باوجود ایک خاص وضع کے رکھ رکھاؤ کی قائل تھیں، اپنے پسندیدہ لوگوں سے وہ انتہائی شفقت اور محبت سے ملتیں مگر ہر کوئی ان کی محفل میں آسانی سے رسائی نہیں پا سکتا تھا، بلاشبہ ان کی کمی بہت دنوں تک محسوس کی جائے گی کہ ان کی یادوں اور تحریروں کی خوشبو اردو ادب اور ان کو دیکھنے والی آنکھوں کی دنیا میں تا دیر سلامت رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے