چٹاگانگ کا چوہدری

ہمارے ہاں کوئی بندہ بات بھول جائے تو طنزیہ کہا جاتا ہے :آپ بوڑھے ہورہے ہیں۔

بھول جانے سے انسان ڈرتا ہے۔ باتیں یاد رہ جائیں تو بھی۔ کہیں پڑھا تھا :بھولنا بھی نعمت سے کم نہیں ۔ اگر آپ تلخ یادیں یا تکلیف دہ لمحات نہیں بھولیں گے تو ہر لمحہ اذیت میں گزرے گا لہٰذا خدا نے انسان کے اندر بھولنے کی صلاحیت رکھی۔ انسان پرانی باتیں نہیں بھولے گا تو نئی چیزیں دماغ میں کیسے جگہ بنائیں گی؟ دوسری طرف یہ حالت ہے کہ بعض تکلیف دہ یادیں بھولنا چاہیں تو بھی فیس بک آپ کو بھولنے نہیں دیتی ۔ اسی فیس بک نے یاد دلایا :بائیس نومبر دو ہزار پندرہ کو میں نے ایک ٹویٹ کیا تھا، جو ان دنوں فیس بک پر بھی اپ لوڈ ہوجاتا تھا۔ اس پرانے ٹویٹ کو پڑھ کر بہت سی تلخ یادیں حملہ آور ہوئیں۔

یہ ٹویٹ بنگلہ دیش کے سیاسی لیڈر صلاح الدین قادر چوہدری کے بارے میں تھا۔ وہ جنرل ایوب کی متحدہ پاکستان کی آخری اسمبلی کے سپیکر فضل قادر چوہدری کے بیٹے تھے۔ صلاح الدین چھ دفعہ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے رکن بنے۔ بہاولپور میں صادق پبلک سکول میں پڑھے۔ دوستوں میں نمایاں نام اسحاق خاکوانی اور محمد میاںسومرو کے تھے۔

صلاح الدین سے میری پہلی ملاقات دو ہزارآٹھ میں ہوئی تھی جب وہ پاکستا ن آئے ہوئے تھے۔ طالب علمی کا دور بہاولپور میں گزرا لہٰذا سرائیکی زبان بھی بول لیتے تھے۔ پروگرام بنا کہ صوبہ پختون خوا میں ڈاکٹر زبیر کے فارم ہائوس پر چلتے ہیں‘ جو وہاں دریا کے کنارے پر تھا ۔ پڑھے لکھے، نفیس اور خوبصورت شخصیت کے مالک زبیر صاحب نگران وزیراعظم ملک معراج خالد کے دور میں نگران وزیر بھی رہے تھے۔ اس فارم ہائوس پر خاصا وقت اکٹھے گزارا۔ ڈاکٹر زبیر کی مہمان نوازی کا جواب نہیں ۔

دریا کنارے ان کے ہٹ پر گزری وہ دوپہر آج تک دل اور دماغ سے نہیں اتری۔ اسحاق خاکوانی میں حسِ مزاح بہت ہے اور صلاح الدین بھی کم نہ تھے۔ میں اور زبیر صاحب، اُن دونوں کے دوستانہ اور بے تکلفانہ جملوں سے محظوظ ہوتے رہے۔ ہم سب اس وقت دریا کنارے سے واپس لوٹے جب سارے دن کی مشقت کے بعد تھکا ہارا سورج کہیں دور ڈوب رہا تھا۔ اس ملاقات میں وہ مجھے بہاولپور اور ملتان میں گزرے دنوں کی باتیں سناتے رہے۔

صلاح الدین نے مجھے کہا کہ دو تین ماہ بعد بنگلہ دیش میں انتخابات ہورہے ہیں۔ میں ڈھاکہ آکر الیکشن کوّر کروں۔ میں نے وعدہ کر لیا۔ دو تین ماہ بعد میں ڈھاکہ ائرپورٹ پر اترا تو مجھے لینے ایک ڈرائیور صلاح الدین نے بھیجا ہوا تھا۔ میں نے گیسٹ ہائوس میں ایک کمرہ لیا۔ اگلے دن صلاح الدین کے گھر گیا تو الیکشن کا رش لگا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے ملاقات ہوئی۔ صلاح الدین چوہدری مسکرانے اور قہقہے لگانے والے انسان تھے۔ مجھے کہا :آپ الیکشن کوّر کر لیں، پھر ملتے ہیں، کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بتائیں۔ خیر الیکشن ہوگئے۔ خالدہ ضیاء اور صلاح الدین کی پارٹی ہار گئی تھی۔

میرا واپسی کا پلان بن رہا تھاکہ ان کا فون آیا’ بولے: گھر آ جائو، رات کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں۔ گھر پہنچا تو ان کی بیگم صاحبہ نے کھانا بنایا ہوا تھا۔ پاکستان میں بنگلہ دیش کی خاتون سفیر بھی موجود تھیں۔لمبی گپ شپ لگی۔ صلاح الدین کی پارٹی الیکشن ہار چکی تھی اور حسینہ واجد وزیراعظم بننے جارہی تھیں۔ وہ کافی پریشان نظر آئے۔ کہنے لگے: واپس جا کر اپنے فارن آفس کو بتائیں کہ اب بنگلہ دیش وہ نہیں رہے گا جو پہلے تھا ، اب بھارت نواز لابی کا اثر و رسوخ بڑھے گا اور ان جیسے سیاستدانوں کے لیے مشکلات بڑھیں گی جنہیں پاکستان نواز سمجھا جاتا ہے۔ انہی دنوں وزیراعظم گیلانی خواجہ القما کو ڈھاکہ ہائی کمشنر کے طور پر بھیجنا چاہتے تھے۔

خواجہ صاحب بعد میں ملتان یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ صلاح الدین کہنے لگے : بنگلہ دیش میں وقت بدل رہا تھا۔ ان کی تعیناتی یہاں نیگٹو لی جائے گی کیونکہ خواجہ القما کے والد خواجہ خیرالدین کے بارے میں قوم پرستوں کا مختلف نظریہ ہے ‘ وہ انہیں قبول نہیں کریں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والد بنگلہ دیش کے قیام کے وقت پاکستان کے حامی تھے لہٰذا ان کا انتخاب مناسب نہ ہوگاکیونکہ اب حسینہ واجد سیاسی مخالفیں سے چن چن کر بدلہ لیں گی ۔

مجھے علم نہ تھا کہ صلاح الدین ہی حسینہ واجد کے انتقام کا پہلا نشانہ ہوں گے۔ کچھ عرصے بعد اسحاق خاکوانی سے پتہ چلا انہیں حسینہ واجد نے گرفتار کر کے قتل کے مقدمہ میں پھنسا دیا ہے۔ مقدمہ مشرقی پاکستان میں سول وار کے دنوں میں ہونے والے ایک قتل کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا، جب صلاح الدین پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔

اسحاق خاکوانی نے انہیں بچانے کے لیے ریکارڈ اکٹھا کیا اور بنگلہ دیش بھیجا ۔ محمد میاں سومرو، خاکوانی اور دیگر دوستوں نے بنگلہ دیش جانے کے لیے ویزہ اپلائی کیا تاکہ وہ عدالت میں گواہی دے سکیں کہ جس دور کی یہ بات ہورہی ہے اس وقت صلاح الدین پاکستان میں تھا۔ سب نے اپنے بیان حلفی بھی عدالت کو بھجوائے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ویزے دینے سے انکار کیا اور ایک دن صلاح الدین کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ پھانسی کی سزا سن کر صلاح الدین ایک لمحے کے لیے بھی نہ گھبرائے اور زور سے عدالت میں جج سے کہا: آپ نے کون سا نیا فیصلہ سنایا ہے، کل دن سے آپ کا یہ فیصلہ‘ جو دراصل حسینہ واجد کی وزارت قانون نے لکھ کر آپ کو بھجوایا،انٹرنیٹ پر چل رہا ہے‘ آج آپ نے وہی پڑھ کر سنا دیا ہے۔

اسحاق خاکوانی نے جنرل مشرف اور دیگر کے ذریعے کوششیں جاری رکھیں کہ سعودی عرب، ترکی اوردیگر مسلمان ملکوں سے دبائو ڈلوا کر صلاح الدین کی جان بخشی کرائی جائے، لیکن حسینہ واجد صلاح الدین کو پھانسی دینے پر تلی ہوئی تھیں اور اس کے پیچھے بھارتی لابی تھی کیونکہ صلاح الدین کو بھارت مخالف اور پاکستان نواز سیاستدان گردانا جاتا تھا ۔

نواز شریف دور کا پاکستانی فارن آفس ان دنوں گونگا بنا ہوا تھا ۔پاکستان کے حامی اور جماعت اسلامی کے سیاستدانوں کو پھانسیوں کے ایشو کو عالمی سطح پر اٹھایا گیا ، نہ اس کے خلاف بھرپور احتجاج ہی کیاگیا۔

یہ تاریخ کا انوکھا ٹرائل تھا جس میں ملزم کو اپنے گواہان پاکستان سے لانے کی اجازت نہ دی گئی۔ اور تو اور ایک انگریزی میڈیا گروپ کی مالکہ عنبر سہگل تک نے حسینہ واجد سے ڈھاکہ میں رابطہ کیا تاکہ انہیں بتایا جاسکے کو صلاح الدین بے قصور ہے کیونکہ وہ اس زمانے میں کراچی میں ان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ ان کے والد اور صلاح الدین کے والد دوست تھے۔ مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے بیٹے کو کچھ دن کے لیے کراچی ان کے گھر چھوڑ گئے تھے تاکہ وہاں سے وہ لاہور جا کر پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ سکے۔

عنبر نے فون اس تعلق کی بنیاد پر کیا تھا کہ متحدہ پاکستان کے دنوں میں شیخ مجیب کے اس گروپ کے مالکان سے قریبی تعلقات تھے۔ عنبر سہگل ان پرانے تعلقات کا حوالہ دے کر بے گناہ صلاح الدین چوہدری کی جان بخشی کرانا چاہتی تھیں، لیکن یہ کوشش بے سود رہی۔ حسینہ واجد پاکستان اور اپنے باپ کی پاکستانیوں سے پرانی دوستیاں بھلا چکی تھیں۔ ان کے سر پر صرف انتقام سوار تھا ۔ آخر ایک دن صلاح الدین کی سب اپیلیں خارج کر دی گئیں اور انہیں پھانسی چڑھا دیا گیا ۔

صلاح الدین کی پھانسی کے بعد ڈھاکہ کے ایک اخبار میں یہ خبر چھپی: صلاح الدین نے حسینہ واجد سے معافی کی اپیل کی تھی جو وزیراعظم نے مستردکر دی تھی۔ اس پر صلاح الدین کے بیٹے نے اخباری بیان جاری کیا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے‘ اس کے باپ نے ہرگز رحم کی اپیل نہیں کی تھی بلکہ خاندان کو سختی سے منع کر دیا تھا کہ اس کی زندگی کی بھیک حسینہ واجد سے نہیں مانگی جائے گی۔ بیٹے کے بقول جب اس کے باپ کے سامنے معافی کی درخواست رکھی گئی تو انہوںنے اٹھا کر پھینک دی تھی اور کہا تھا: What rubbish?

میں نے ٹویٹر اور فیس بک پر صلاح الدین کے بیٹے کا وہ بیان شیئرکیا تھا ۔میں بھی اپنے تئیں چٹاگانگ کے اس چوہدری کو بھول چکا تھا لیکن آج تین سال بعد چٹاگانگ کا وہ چوہدری پھر میرے سامنے ہنستا مسکراتاقہقہے لگاتا آ کھڑا ہوا تھا ۔

بعض انسان ایسے ہوتے ہیں کہ آپ انہیں پھانسی دے کر منوں مٹی تلے دفن کر دیں تو بھی تاریخ انہیں مرنے نہیں دیتی ۔

شاید چٹا گانگ کا چوہدری بھی بہادروں کی اسی غیرمعمولی نسل سے تعلق رکھتا تھا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے