مستقبل کا ملائیشیا انور ابراہیم کا ہے

انگریزوں نے نواب سراج الدولہ،سلطان ٹیپو اور واجد علی شاہ کے علاقوں پر اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد دہلی کا رُخ کیا۔ 1857کی جنگ کے بعد بہادر شاہ ظفر کی فراغت ہو گئی۔ برصغیر کے مسلمانوں میں ان واقعات کے بعد یہ احساس جاگزیں ہوا کہ ان سے حکمرانی چھن گئی۔

برصغیر میں حکمرانی کا ’’حق‘‘ کھو دینے کے بعد ہمارے بزرگ دوسرے خطوں کے مسلمان حکمرانوں سے عقیدت کے ذریعے خود کو طفل تسلیاں دینے میں مصروف ہوگئے۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں یاد ہی نہ رہا کہ 1857کے معرکوں سے قبل دلی کی جامع مسجد کی دیواروں پر ہاتھ سے لگے اشتہار چسپاں ہوتے۔ ان کے ذریعے یہ امید دلائی جاتی کہ برصغیر کے مسلمان جب اپنی آزادی کی جنگ لڑنے گھروں سے باہر آئیں گے تو ایران اور افغانستان کی سپاہ بھی ان کی جدوجہد میں شامل ہوجائیں گی۔ وقت آیا تو ایسی امداد مگر نصیب نہ ہوئی۔ہم لیکن اپنے خطے سے باہر کے مسلم رہ نمائوں کی طرف رہ نمائی کی خاطر دیکھتے چلے گئے۔

اس ضمن میں آخری تاریخی واقعہ اس جنونی محبت کی شکل میں ظاہر ہوا جو خلافت عثمانیہ کے تحفظ کی خاطر دکھائی گئی تھی۔’’خلافت کو جان دینے کے لئے‘‘ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی اپنی ’’بی ماں‘‘ کی شفقت تلے سامراج کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ہندوئوں کا ’’مہاتما‘‘ گاندھی بھی خلافت کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔

ہمارے قائد اعظم نے اس جذباتی لہر کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ اپنے دور کے تقاضوں کو منطقی حوالوں سے خوب جانتے ہوئے بلکہ وہ اتاترک کے جدید خیالات کی حمایت کا اظہار کرتے رہے۔ اقبالؔ نے بھی ’’خونِ صد ہزار انجم‘‘ کے استعارے کو نئی سحرکے طلوع کے لئے لازمی ٹھہرایا اور عثمانیوں پر جو کوہ غم ٹوٹا تھا اسے تاریخ کا جبر ٹھہرا کر بھلانے کی کوشش کی۔

یہاں تک پہنچنے کے بعد خیال آیا ہے کہ دانشوری بگھارنے میں مصروف ہوگیا ہوں۔بات اگرچہ یہ کرنا تھی کہ ملائیشیا کے ڈاکٹرمہاتیر محمد کوئی ’’تاریخ ساز‘‘ رہ نما ہرگز نہیں ہیں۔ ملائیشیاء کے حقائق کو سمجھے بغیر مگر انہیں ہمارے ہاں عالمِ اسلام کا اہم ترین رہ نما بناکر دکھایا جاتا ہے۔

حال ہی میں دوروز کے لئے ہمارے وزیر اعظم مہاتیرکے ملک تشریف لے گئے۔ وہاں ان کی بہت آئوبھگت ہوئی۔ مادام مہاتیر نے عمران خان صاحب کا ہاتھ تھام کر تصویر اتروانے کی معصوم خواہش کا اظہار کیا۔ ہمارے لیڈر کے چاہنے والوں کے دل اس خواہش کے اظہارکی بدولت فخر سے مالامال ہوگئے۔ ’’لیڈر ہو توایسا‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اس موقعہ کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوگئی۔

خان صاحب نے وہاں یہ انکشاف کیا کہ وہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرح اپنے ملک سے کرپشن کے خاتمے کا عہد کرنے کی بناء پر اقتدار میں آئے ہیں۔93سالہ مہاتیر سے وہ یہ جانناچاہتے ہیں کہ کرپشن کا مؤثر اور فوری انداز میں خاتمہ کیسے ممکن ہے۔غالباََ کوئی صدری نسخہ حاصل کرلیا ہوگا کیونکہ بعدازاں ملائیشیاء ہی میں مقیم پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وہ بارہا یاد دلاتے رہے کہ وزارتِ داخلہ انہوں نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ FIAنے انہیں کرپشن کی ہوشرباداستانیں سنائی ہیں۔ وہ ان داستانوں کے اہم ترین کرداروں کو ہرگز معاف نہیں کریں گے۔ پاکستان میں بدعنوانوں کے خلاف اہم ترین آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ اپوزیشن کے کئی سرکردہ رہ نما اس کی زد میں آئیں گے۔

صحافیانہ مشقت کے علاوہ میں رزق کے کسی اور وسیلے سے واقف نہیں۔میری بیوی کو بھی مسلسل کام کرنا ہوتا ہے۔ذہنی مشقت کے علاوہ دیگر ذرائع سے راحت وشان وشوکت سے زندگی گزارنے والوں سے کوئی ہمدردی میرے دل میں موجود ہو ہی نہیں سکتی۔ عمران خان صاحب اگر واقعتا بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کا تہہ کیے بیٹھے ہیں تو میں ان کی کامیابی کی دُعا مانگنے کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ 100کے بجائے ایک ہزار افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیں تو ست بسم اللہ۔

فی الوقت مجھے عرض فقط یہ کرنا ہے کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ’’جادو‘‘ کو سمجھنے کے لئے ملائیشیا کے حقائق کا ذرا غور سے جائزہ لیا جائے۔میں 1989میں پہلی بار اس ملک گیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس سے چند ماہ قبل پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ ملائیشیا میں دولتِ مشترکہ کے سربراہان کی کانفرنس تھی۔ اس میں شرکت کے لئے گئیں تو ان کے ہمراہ جانے والے صحافیوں میں شامل تھا۔

مجھے آج بھی وہ لمحہ اپنی شدت سمیت یاد ہے کہ جب محترمہ کی گاڑی کانفرنس ہال تک پہنچانے والے پورچ میں لگی اور وہ اپنا دوپٹہ سنبھالتی گاڑی سے باہر نکلیں تو کانفرنس ہال میں لگی سکرین پر ان کی صورت دیکھتے ہی ہال میںموجود خواتین نے یکسو ہوکر حسرت بھری واہ کہی۔ اس کے بعد تالیوں کی گونج۔ کانفرنس میں ان کی تقریرکو سب سے زیادہ پذیرائی ملی۔ملائیشیا میں انگریزی کے سب سے بڑے اخبار کی لیڈسٹوری میں یہ تذکرہ بھی ہوا کہ ’’عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم‘‘ نے اپنی تقریر کے دوران 34با ر اپنا دوپٹہ سیدھا کیا۔

ملائیشیاء کے صحافی مگر ہم پاکستانیوں سے اپنے ملک کی سیاست پر بات کرنے سے گھبراتے تھے۔ان سے محض حقائق جاننے کی خاطر چند سوالات ہوتے تو دائیں بائیں دیکھ کر کھسک جاتے۔ مجھے جبلی طورپر احساس ہوگیا کہ وہاں کی سیاست میں سب اچھا نہیں ہے۔

اس کانفرنس کے صرف تین ماہ بعد اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے ملائیشیا میں فلسطین پر ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔ میں بھی وہاں مدعو تھا۔ کانفرنس کے 4دن گزارنے کے بعد میں نے کوالالمپور میں ایک سستا ہوٹل تلاش کیا اور دس دنوں تک ملایشیا اور مہاتیر کے ’’جادو‘‘ کو سمجھنے میں مصروف رہا۔آخری مرتبہ 1996میں بنکاک میں ہوئی صحافیوں کی ایک ورکشاپ میں شرکت کے بعد بھی دو روز ملائیشیاء میں گزارے تھے۔

اس ملک کو جسے تاریخ میں ملایا اور مالاکا کہا جاتا رہا ہے۔ انگریزوں نے بھی اپنی غلامی میں رکھا تھا۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک سے ٹین کی معدنی دولت کو نکالنے اور اسے مارکیٹ کرنے کے لئے چینی مزدوروں کو ترجیح دی گئی۔ یہ چینی رفتہ رفتہ وہاں ہر کاروبار پر قابض ہوگئے۔ جنگلوں سے درخت کاٹ کر قیمتی لکڑی کے حصول کے لئے بھارت کے جنوبی صوبوں سے مزدوروں کو غلاموں کی مانند لایا گیا۔ ان کی جدید نسل اب پڑھ لکھ کر دفاتر میں کلرکی وغیرہ کرتی ہے۔

مہاتیر محمد نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے ’’بھومی پترا‘‘ کا تصور متعارف کروایا۔Sons of Soilکا یہ ملائی متبادل ہے۔ اس تصور کے ذریعے Affirmative Actionکے نام پر ایسا کوٹہ سسٹم متعارف کروایا جس کی بدولت محض نسلی بنیادوں پر ملایائی افراد کو سرکاری نوکریاں بطور حق ملنا شروع ہوگئیں۔ سرکاری بینکوں سے معقول ضمانتوں کے بغیرملایائی باشندوں کو کاروبار کرنے کے لئے انتہائی آسان اقساط پر بھاری بھر کم قرضے دئیے جاتے۔ بسااوقات بینکوں سے قرض لینے والا ملایائی باشندہ کسی ذہین کا روباری چینی کا محض Frontmanہوتا۔

المختصر مہاتیر نے ’’گڈگورننس‘‘ کا جو ماڈل متعارف کروایا وہ ملایائی قوم پرستی اور نسلی برتری کے تصور پر مبنی تھا۔ اس قوم پرستی کی بدولت انور ابراہیم جیسے افراد نے (جسے مہاتیر اپنا جانشین نامزد کر چکا تھا) اصرار کیا کہ ملایائی مسلمان بھی ہیں۔ لہٰذا انہیں فقط قوم پرستی ہی نہیں ’’اسلامی نظام‘‘ بھی قائم کرنا ہے۔ ایسے ملک میں وہ اخوان المسلمین جیسی تحریک بناتا نظر آیا۔ مہاتیر کو فکر لاحق ہو گئی کہ اس کا ’’جانشین‘‘ اپنی ایک جداگانہ Constituency بنا رہا ہے۔ ابراہیم پر سنگین جنسی جرائم کے الزام لگوا کر ذلیل و رسوا کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ 93سالہ مہاتیر دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن اسی انور ابراہیم کوجیل سے رہا کرنے پر مجبور ہوا۔ مستقبل کا ملایشیا اب انور ابراہیم کا ہے۔ مجھے خبر نہیں کہ عمران خان صاحب نے اس سے ملاقات کی ضرورت محسوس کی یا نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے